• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں انتخابات کی آمد آمد ہے،ظاہر ہے انتخابات میں تمام سیاسی پارٹیوں کے اپنے اپنے منشور اور اپنے اپنے نعرے (سلوگن) سامنے آتے ہیں ۔ہمارے عوام نعروں کا ایک ذوق رکھتے ہیں ہم سب لوگ سیاسی نعروں کے قدردان ہیں۔ دوسرے لفظوں میں نعروں کے رسیا بھی کہہ سکتے ہیں کبھی کبھار ایسے لگتا ہے کہ سیاسی جماعت نعرے کے بغیر ایسے لگتی ہے جیسے الجبرے کے بغیر جیومیٹری، چائے کے بغیر ہوٹل، کتاب کے بغیر طالب علم اور کنڈیکٹر کے بغیر بس، اگر کنڈیکٹر کے ساتھ بس کا تصور کریں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کنڈیکٹر بس کا منشور اور نعرہ ہوتا ہے کنڈیکٹر سواریوں کی سماعتوں میں منزل کا نام لے لیکر گنے کا رس گھولتا ہے اور اپنی طرف سے سفر کی سہولتوں یعنی ادرک اور لیموں کا اضافہ بھی کردیتا ہے یہاں سلطان باہوؒکا مصرع یاد آرہا ہے ۔

نعرے بنا جو کرے سیاست.......

سب سے پہلے ہمارے ہوش میں جو نعرہ ہمارے کانوں سے ٹکرایا وہ پیپلز پارٹی کی تخلیقی و تحقیقی کاوشوں کا ثمر تھا ۔وہ تھا ’’روٹی ، کپڑا اور مکان ‘‘ یہ نعرہ پیمائش کے مطابق وزن کے مطابق، بحر کے مطابق، مضمون کے مطابق اور خلوص کے مطابق تھا ،اس لئے عوام نے اس پر اپنے کان دھرنا شروع کر دیئے ہر کوئی روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کی ظاہری تاثیر کا اسیر ہوگیااور آس پاس کے لوگوں کو بھی اسیر ہونے کی ترغیب دینے لگا ۔ہر جگہ یہ باتیں ہونے لگیں کہ ہم سب لوگ فیکٹریوں میں جایا کریں گے۔ ہمیں تین وقت کی روٹی مفت ملا کرے گی اسی طرح ہمیں فیکٹری ہی سے وردیاں بطور کپڑا مہیا ہوا کریں گی اور رہائش کے لئے مکانات کا بندوبست کیا جائے گا ۔انسان کی یہی بنیادی ضروریات ہوتی ہیں ہم سب ملک کےلئے محنت کریں گے اور چین کی طرح خوش حال ہو جائیں گے ۔

اس دور میں ہم نے دیکھا کہ روٹی پلانٹ لگ گئےتھے لیکن ماسی رحمتے کے تنور سے جب بھی روٹی ملی پیسوں کے عوض ہی ملی جب بھی پتلون قمیض سلوانے کا خیال آیا انارکلی گئے اور پیسے دے کر پتلون قمیض کا کپڑا خریدا اور درزی کی سلائی الگ سے دی ہم جس مکان میں رہتے تھے اس کا مالک اپنی خطائوں کا معاوضہ ہمارے کرائے میں ڈال کر وصول کرتا تھا ۔

’’روٹی ،کپڑا اور مکان ‘‘ کے نعرے کے بعد اسلامی نظام کا نعرہ گونج اٹھا ان دنوں یہ بات عام تھی کہ اسلام خطرے میں ہے اور پاکستان اس وقت خطرے سے باہر آ جائے گا۔ جب یہاں اسلامی قوانین نافذ ہو جائیں گے جس طرح ریاضی سیکھنے کے لئے ریاضی کے کسی ماہر استاد کی خدمات لینا ضروری ہوتی ہیں اسی طرح اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے وہ لوگ میدان میں آگئے جو دین اسلام، شریعت اور طریقت پر مکمل گرفت اور عبور رکھتے تھے یہ ہستیاں فلک سیاست پر چمکنے دمکنے والے ستارے تھے، ان کی تعداد نو (9) تھی ہم سب لو گ پاکستانی تھے پاکستان کے ہر گلی محلے میں چھوٹی بڑی مسجدیں تو بنی ہوئی تھیں شہروں میں تو مسجدوں کے میناروں پر چھ چھ اسپیکر فٹ تھےجن کی وساطت سے روزانہ پانچ مرتبہ اذانیں جمعہ کی تقریریںاور دیگر مقدس اور اسلامی دنوں کے حوالے سے تقریریں ہم تک پہنچتی تھیں اورہم اللہ تعالیٰ سے بہت ڈر جاتے تھے، اب ہم نے سوچا کہ نو ستارے کہہ رہے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے تو ہم سوچ میں پڑ گئے، لوگوں نے جلوس نکالنے شروع کر دیئے اور پھر باقاعدہ ایک تحریک کا آغاز ہو گیا۔

ملکی حالات خرا ب ہو گئے اس دور میں کرفیو بھی لگنا شروع ہو گیا سبزی ترکاری خریدنے کے لئے کرفیو اٹھایا جاتا لوگ گھروں میں بند ہو کر رہ گئے۔ انہی دنوں سیاست دان اسلام کو گرداب سے نہ نکال سکے تو ایک نعر ابھرا وہ نعرہ حسین بن منصور حلاج کے نعرے ’’ اناالحق ‘‘سے کافی ملتا جلتا تھا ۔وہ نعرہ لگانے والے کی شخصیت نمازی اور پرہیز گار تھی ان کے نام کے ساتھ ایک روشنی سی تھی جسے (ضیاء) کہا جاتا تھا او راب بھی انہیں روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے والے یاد کرتے ہیں، اس دور کے بڑے بڑے کارنامے یہ تھے کہ دفاتر میں نمازوں کا اہتمام کیا گیا اس کے علاوہ ٹی وی نیوز کاسٹر اپنے سروں پر دوپٹے لیکر خبریں دیا کرتی تھیں جنرل ضیاالحق صاحب نے اسلام نافذکرنے کی بے حد کوشش کی لیکن پاکستانی عوام ضیاء صاحب کے ورودِ مسعود سے پہلے بھی مسجدوں میں جاکر نمازیں ادا کرتے تھے ان کے دور میں بھی نمازیں پڑھتے اور ان کے بعد بھی نماز روزے کے پابند ہیں۔بہرحال اسلام کو جہاں نافذ ہونا چاہئے وہ بہت سی جگہیں تاحال منتظر ہیں ۔پھر ایک مرتبہ نعرہ آیا تھا’’ قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ لوگوں نے قطاروں میں لگ کر پیسہ جمع کرایا اسی طرح ایک اور نعرہ سننے کو ملا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ اس وقت سب سے پہلے امریکہ کے ہاتھوں جس ملک کا نقصان ہوا وہ پاکستان ہی کا تھا ۔پھر ایک ایسا نعرہ سننے کو ملا جس نے ملک کے درو دیوار ہلا کر رکھ دیئے یہ نعرہ تھا ’’انصاف‘‘یہاں لوگ انصاف کو ترس رہے تھے ہر کسی کو ہر جگہ انصاف درکار تھا۔ تھانہ، کچہری اور پٹوار خانے میں اس کی زیادہ طلب تھی، یہاں انصاف کے متمنی لوگ انصاف کی تلاش میں اس دنیافانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا عوام نے اس نعرے کو غور سے سنا پھر ہم انصاف گلیوں، سڑکوں اور دھرنوں میں تلاش کرتے رہے۔آج بھی کوئی شخص تھانے، کچہری کی طرف جاتا ہےتو آسمان کی طرف دیکھتا جاتا ہے ’’یااللہ !تو ہی انصاف کرنے والا ہے ‘‘ آج کل سیاسی پارٹیاں نیم دلی سے اپنے نعرے تخلیق کر رہی ہیں لیکن بڑا نعرہ سامنے نہیں آ رہا دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے ؟

تازہ ترین