• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بھیگے بھیگے جھونکوں میں خوشبوؤں کا ڈیرا ہے ...

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: سیّدہ سعدیہ علی

ملبوسات: بینش عابد کوٹویئر، کراچی

آرایش: اسپاٹ لائٹ بیوٹی سیلون، بائے اسماء ناز

عکّاسی: ایم۔ کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

’’دسمبر‘‘ بھی بس ہاتھ مِلا کے رخصت ہونے، ٹاٹا، بائے بائے کہنے کو ہے اور ہنوز تادمِ تحریر(16دسمبرتک) شہر کراچی میں تو جیسے سردی کا نام و نشان بھی نہیں۔ رات کے کسی پہر Fleece (لائٹ سا کمبل) یا ہلکے پُھلکے کھیس، چادر اوڑھ کے بھی باآسانی گزارہ ہو رہا ہے۔ جب کہ دن کے اوقات میں، خصوصاً دفاتر میں باقاعدہ ایئرکنڈیشنرز آن ہیں۔ اب سردی نے دسمبر میں بھی قدم رنجہ نہیں فرمانا، تو پھر بھلا کب تشریف آوری ہوگی۔ باقی پورے مُلک میں کم از کم اتنی سردی تو ہے کہ صبح و شام کے اوقات میں منہ سے بھاپ نکلتی ہے۔ ہاں، مگر..... اتنا ضرور ہے کہ نومبر کے وسط ہی سے سرما کا جو ماحول، سماں بننا شروع ہوتا ہے، وہ دسمبر میں پورے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ 

خاص طورپرسرِشام چہار سُو اِک خموشی، ویرانی و اُداسی سی جو ڈیرے ڈالتی ہے، پیروں تلے سوکھے، زرد پتّے کُرلاتے، بین کرتے ہیں اور ایک بلاوجہ کے حُزن و ملال کا سا احساس دل میں جاگزیں ہوتا ہے، سب رہ رہ کے یاد دلاتے ہیں کہ ’’اپنے ساتھ رہنے کی یہی رُت ہے۔‘‘ بقول ناصر کاظمی ؎ مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے..... مگر جینے کی صُورت تو رہی ہے..... مَیں کیوں پِھرتا ہوں تنہا مارا مارا..... یہ بستی چین سے کیوں سو رہی ہے..... نہ سمجھو تم اسے شورِ بہاراں..... خزاں پتّوں میں چُھپ کے رو رہی ہے..... ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر..... اُداسی بال کھولے سو رہی ہے۔

پرانے صندوقوں کے زنگ آلود تالے کھولنے، چُھپا رکھےالبمز سے گرد جھاڑنے، پھٹی پرانی کتب، بوسیدہ ڈائریز کی ورق گردانی کرنے، ماضی کے گیت سنگیت سُننے، بھولے بسرے قصّے، کہانیاں، گزرے بیتے وقت کی باتیں، یادیں تازہ کرنے، بچھڑے، رُوٹھے دوست احباب کو ڈھونڈنے، منانے اور نانی، دادی کے ہاتھ کے سوادی کھانوں کے ذائقے محسوس کرنے کا جو لُطف اس موسم میں آتا ہے، پھر پورا سال نہیں آتا۔ اور پھر قلب و ذہن کے روزنوں، دریچوں، اسکرینز سے بھی کیا کیا کچھ ہویدا نہیں ہوتا۔ 

کیسے کیسے تصوّرات و خیالات اجاگر نہیں ہوتے۔ وہ کسی نے کہا تھا ناں کہ ’’مَیں نے تعلیمی میدان میں نہ جانے کتنے سال گزار دیئے، مگر اِس پورے عرصے میں مجھے کسی نے یہ نہیں پڑھایا کہ مجھے خُود سے محبت کیسے کرنی ہے۔‘‘ اور یہ بھی کہ ’’تب مستقل مزاجی بہت مشکل ہوجاتی ہے، جب کوئی آپ کی چھوٹی چھوٹی کام یابیوں پر تالی بجانے، پیٹھ تھپتھپانے والا نہ ہو، لہٰذا اپنے لیے ہمیشہ خُود تالی بجائیں۔ خُود کو خُوب سراہیں، شاباشی دیں۔ آپ کو ہمیشہ اپنا سب سے بڑا فین خُود ہونا چاہیے۔‘‘ 

اِسی طرح کسی کی کہی ایک اور بات بھی سیدھی دل میں اُتری کہ ’’زندگی میں بریک اپ ہوسکتا ہے، علیحدگی بھی ہوسکتی ہے، زندگی آگے بڑھ سکتی ہے، نئے سرے سے شروع بھی ہوسکتی ہے اور تنہا بھی گزاری جاسکتی ہے۔ یہ سب کچھ بالکل نارمل اور قابلِ قبول ہے۔ ہاں، اگر کچھ قابلِ قبول اور درست نہیں، تو وہ اپ کا اُس جگہ ٹھہرے رہناہے، جہاں آپ کی کوئی قدرو منزلت نہیں اور جہاں آپ کو سمجھا، مانا، تسلیم کیا یا سراہا نہیں جاتا۔‘‘ تو بھئی، یہ سب باتیں یوں ہی بے مقصد نہیں، دراصل یہ موسم، رُت ہی خود اپنےساتھ جینے، خُود کو منوانے، تسلیم کروانے کی ہے۔ سردی نہ بھی محسوس ہو، موسمِ سرما کےجذبات واحساسات تو سرد نہیں پڑسکتے ناں۔

یوں تو اہلیانِ کراچی امتیازی سلوک، رویّوں کے عادی ہیں، لیکن یہ جو ’’موسمی امتیاز‘‘ ہے، یہ ایک آنکھ نہیں بھارہا۔حدتو یہ ہےکہ وہ سُرمگیں شامیں، سمندری یخ بستہ ہوائیں یا کوئٹہ کی ہوائیں، وہ بھی تاحال روٹھی روٹھی سی ہیں۔ اور سوچنےسمجھنے، کہنے سُننے کو بہت کچھ بھی ہو، لیکن ایک خالص، پُراثر اور مکمل تحریر وہی ہوتی ہے، جو باقاعدہ Feel کرکے لکھی جائے۔ سردی محسوس کیے بغیر موسمِ سرما پہ لکھنا ایسا ہی ہے، جیسے پانی میں اُترے بغیر پیراکی کرنا۔ بہرحال، ہماری آج کی بزم سرما کے رنگ و انداز ہی سے مرصّع ہے۔ 

ذرا دیکھیے، فیروزی کے ساتھ نیوی بلیو کی پرفیکٹ ہم آہنگی میں پلین گرم سوٹ کے ساتھ چُنری اسٹائل دوپٹّا ہے، تو کھدّر کے بلڈ ریڈ رنگ پلین پہناوے کے ساتھ خُوب صورت پرنٹڈ پشمینہ اسٹالر کا بھی جواب نہیں۔ سیاہ رنگ میں کھدّر کی نسبتاً شارٹ شرٹ کے ساتھ ملٹی شیڈڈ بہت حسین سا ایپرن اور ٹرائوزر ہے، تو نیوی بلیو رنگ میں لینن کے پلین ٹرائوزر، شرٹ کے ساتھ ملٹی شیڈڈ پشمینہ اسٹالر کی جاذبیت بھی کمال ہے، جب کہ سیکوینس ورک سے آراستہ سیاہ رنگ پہناوے کے توکیا ہی کہنے۔ وہ ساحر لدھیانوی کا گیت ہے ناں کہ ؎ ’’پربتوں کے پیڑوں پہ شام کا بسیرا ہے..... سُرمئی اجالا ہے، چمپئی اندھیرا ہے..... دونوں وقت ملتے ہیں، دو دِلوں کی صُورت سے..... آسماں نے خُوش ہوکر رنگ سا بکھیرا ہے.....ٹھہرے ٹھہرے پانی میں گیت سرسراتے ہیں۔ بھیگے بھیگے جھونکوں میں خوشبوئوں کا ڈیرا ہے..... کیوں نہ جذب ہوجائیں، اس حسیں نظارے میں..... روشنی کا جُھرمٹ ہے، مستیوں کا گھیرا ہے۔‘‘ تو، بس سمجھیں، ہماری آج کی یہ بزم کچھ اسی گیت کے مثل ہے۔