• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی سیاست میں میاں نواز شریف کو مقدر کا سکندر تصور کیا جاتا ہے۔ وہ پنجاب کے وزیر خزانہ، دو مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور تین مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران نواز شریف جس نشیب و فراز سے گزرے، شاید ہی کوئی دوسرا سیاستدان گزرا ہو۔ تین مرتبہ وزیراعظم کے منصب پر فائز رہنے والے نواز شریف نے اتنے دن اقتدار کے ایوانوں میں نہیں گزارے، جتنے جلاوطنی اور جیل کی کال کوٹھڑی میں گزارے۔ 1999ءمیں جنرل پرویز مشرف نے تین تہائی اکثریت رکھنے والے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں وزیراعظم سے ’’ہائی جیکر‘‘ بنادیا، سیاست کیلئے نااہل قرار دیا، اُن کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں اور پارٹی رہنمائوں پر نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے کیلئے دبائو ڈالا گیا۔ ایسے میں سیاسی مخالفین یہ پیش گوئیاں کررہے تھے کہ نواز شریف اور اُن کی پارٹی کا سیاسی کیریئر مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔ ان حالات میں نواز شریف سیاسی حکمت عملی کے تحت سعودی عرب جلاوطنی پر مجبور ہوئے اور جب ایک عشرے بعد وطن واپس لوٹے تو انہیں عوام نے تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب کیا۔ اپنے دور حکومت میں نواز شریف نے ملک میں لوڈ شیڈنگ اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا، موٹر ویز اور انفرااسٹرکچر کا جال بچھایا، کراچی میں امن و امان قائم کیا اور اُن کے دور میں جی ڈی پی گروتھ 6 فیصد تک جا پہنچی۔ اگر یہ کارکردگی کسی دوسرے ملک کے لیڈر نےدکھائی ہوتی تو اُسے ہیرو کا درجہ دیا جاتا مگر پاکستان کی سیاست بڑی ظالم ہے جہاں بہترین کارکردگی کے علاوہ اقتدار برقرار رکھنے کیلئے کچھ اداروں کی خوشنودی بھی لازمی ہے۔ بدقسمتی سے نواز شریف کو اچھی کارکردگی کا صلہ اس طرح ملا کہ انہیں چیف جسٹس ثاقب نثار کے من پسند بینچ،جس میں ان کے من پسند جسٹس شامل تھے، نے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر اقتدار سے محروم کرکے تاحیات پارٹی سربراہ کی حیثیت سے نااہل قرار دے دیا۔

نواز شریف کو جب اقامہ پر سزا سنائی گئی تو اُس وقت وہ لندن میں بستر مرگ پرپڑی اپنی اہلیہ کی تیمارداری میں مصروف تھے اور یہ خیال کیا جارہا تھا کہ شاید نواز شریف، اپنی اہلیہ کو حالت مرگ میں چھوڑ کروطن واپس نہیں لوٹیں گے مگر انہوں نے بیٹی کا ہاتھ تھامہ اور وطن واپسی پر گرفتاری دے کر سب کو حیران کردیا اور بیٹی کے ہمراہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 2018 کے الیکشن میں RTS بند کراکے عمران خان کی حکومت لائی گئی اور جیل میں قید نواز شریف پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ بعد ازاں ناسازی طبع کی بناء پر نواز شریف کو حکومت اور عدالت کی اجازت سے بیرون ملک جانے دیا گیا۔ اس وقت بھی یہ تصور کیا جارہا تھا کہ نواز شریف کی سیاست ہمیشہ کیلئے ختم ہوچکی ہے مگر انہوں نے بیرون ملک جاکر سیاسی حکمت عملی اپناتے ہوئے سیاست اور اپنی پارٹی سے تعلق جوڑے رکھا۔ مخالفین آخری وقت تک یہ دعوے کرتے رہے کہ نواز شریف اب کبھی وطن واپس نہیں لوٹیں گے مگر کچھ ماہ قبل انہوں نے وطن واپس آکر اور تاریخی جلسے سے خطاب کرکے مخالفین کو حیران کردیا۔ نواز شریف کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انہیں جب بھی اقتدار سے محروم کرکے ملک سے بے دخل کیا گیا، وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوکر وطن واپس لوٹے۔

گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کالعدم قرار دے کر نواز شریف کو باعزت بری کردیا۔ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے ہی ایون فیلڈ کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کالعدم قرار دے کر انہیں بری کیا تھا۔ اپنی بریت کے بعد نواز شریف کے بقول 2013کے بعد میرے خلاف ہونے والی منظم سازش کی کہانی ایک بھیانک خواب کی مانند ہے جس کا آغاز 2014 کے طویل دھرنوں اور اختتام 28 جولائی 2017 کو ہوا جب مجھے اپنےبیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں نہ صرف اقتدار سے محروم کردیا گیا بلکہ تاحیات نااہل بھی کردیا گیا، واٹس اپ کالز کے ذریعے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس کی نگرانی کیلئے تین رکنی بینچ بٹھایا گیا ،جس نے مجھے ’’سسلین مافیا‘‘ اور ’’گاڈ فادر‘‘ کے القابات سے نوازا جبکہ نیب کو تین ریفرنسز دائر کرنے کا حکم ملا جس میں انہیں سزائیں دی گئیں، میں جب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو مصائب، مشکلات اور آزمائشوں کا لمبا سلسلہ نظر آتا ہے، میں طویل عرصہ جیل میں رہا، بیٹی کے ہمراہ سینکڑوں پیشیاں بھگتیں، میری کردار کشی کی گئی، میرے یہ زخم ہر روز تازہ ہوتے ہیں کہ میں اپنے والد محترم کی میت کو کندھا نہ دے سکا، والدہ محترمہ کا تابوت قبر میں نہ اتارسکا، زندگی کے ہر لمحے سہارا دینے والی اہلیہ جب دنیا سے رخصت ہورہی تھیں، ان کے ساتھ وقت نہ گزار سکا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت اور برداشت کی توفیق عطا فرمائی۔

کسی کا قول ہے کہ ’’تاریخ کی سب سے بڑی ناانصافیاں، انصاف کے ایوانوں میں ہوئیں۔‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا عدالتی قتل کی ایک زندہ مثال ہے اور نصف صدی گزرنے کے بعد بھٹو ایک بار پھر سپریم کورٹ سے انصاف کا منتظر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 6سال کی آزمائشوں کے بعد نواز شریف کی بے گناہی کی تصدیق ہوگئی جسے انصاف بھی کہا جاسکتا ہے لیکن دراصل یہ اُس کھلی نااانصافی کا ازالہ ہے جس کا انہیں نشانہ بنایا گیا مگر اصل انصاف تب ملے گا، جب ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کو زیادتیوں اور انتقام کا نشانہ بنانے والے ججز کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائےگا جواس سازش اور جرم میں شریک رہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین