اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے کے 9 سال بعد 29 فروری 1956 ء کو گورنر جنرل اسکندر مرزا نے دستور پیش کیا، جو صرف 31مہینے چل سکا، کیونکہ جنرل ایوب خان نے آئین کو معطل کیا اورحاکم وقت بن گیا ۔ دوسر ا مسودہ آئین8جون 1962ء میں لایا گیا، دوسرے قانون کے 44ماہ کے بعد دوبارہ مارشل لاء لگایا گیا ، 8 سال بعد پہلا عام انتخاب ہوا اور اسکے بعد ملک دو لخت ہوگیا۔ 1972ء میں عبوری آئین آیا اور پھر 1973 ء میں مستقل آئین ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پیش کیا ، ان کو بھی شہادت سے سرفراز کیا گیا ،نواز شریف کو تین بار ہٹایا گیا اس کے بعد بھی جمہوریت کے ساتھ جو ہو رہا ہے اور ہمیں کس شکل میں کنٹرولڈ جمہوریت ملی ہوئی ہے، آپ کے سامنے ہے ۔ ہم نےنہ دو قومی نظرئیے کو مضبوطی سے پکڑا اور نہ ہی نظریہ پاکستان کی بنیادوں کو تھاما ، اسی لئے شاید نظریہ ساز بھی پیدا ہونا بند ہو گئے ۔آئین ہمارا اسلامی ہے حرکتیں ہماری غیر اسلامی ، ہیں ہم مسلمان لیکن جینز پرابلم کاشکار بھی ہیں۔ اس ملک کو نہ خالص آمریت ملی ، نہ جمہوریت اور نہ اسلام خالص ملا اور آئین کی حکمرانی تو ہمیں بہت دور دکھائی دیتی ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں مثلاً سیاسی جماعتیں مکمل موروثیت پر مبنی ہیں ، جماعتوں میں سطحی سوچ ہے ، سطحی ذہن ہیں ، سطحی تعلیم ہے ، جماعتوں کے رہنما اور کارکن ذاتی لالچ دیکھتے ہیں جمہوری قدروں کو نہیں، مرکزی راہنما باتیں جمہوریت کی کرتے ہیں اور انداز آمریت والا اپناتے ہیں، پارٹیوں میں سیاسی ورکر کم اور سرمایہ دار زیادہ نظر آتے ہیں، جس ملک میں کمپنیاں چلانے والے سیاسی جماعتیں چلائیں وہاں جمہوریت کیسے مضبوط ہوگی۔ پسند نا پسند کا کلچر بہت زیادہ ہے، گلی محلہ سے لیکر مرکزی قیادت تک لابنگ کی ضرورت رہتی ہے، مرکزی رہنما گلی محلہ کے کارکنوں سے زیادہ مرکزی لیڈر کی بات کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں، اسی وجہ سے جمہوری رویئے ناپید ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ جب تک جمہوریت مضبوط نہیں ہو گی اس وقت تک معیشت اور سیکورٹی کی صورتحال بھی بہتر نہیں ہو سکتی، کیونکہ کسی بھی ملک کی معیشت کا مرکزی دائرہ اس ملک کے نظام سیاست سے جڑا ہوتا ہے اور سیاسی زلزلے آنے سے معاشی زلزلے آتے ہیں جب غیر یقینی صورت حال ہو اور سرمایہ دار کو علم ہی نہ ہو کہ کل کیا ہونا ہے وہاں کیسے معاشی بہتری ممکن ہے ۔دنیا نظام جمہوریت میں دن بدن بہتری لارہی ہے اور اپنے ممالک میں چھوٹے چھوٹے یونٹ بنا کر علاقائی سطح پر لوگوں کے مسائل حل کر رہی ہے جبکہ ہمارے ہاں آئے دن اٹھارویں ترمیم پر تنقید کی جار ہی ہے۔جمہوریت جوان رہے گیتو نئے لوگ سیاسی پارٹیوں سے ہوتے ہوئے مرکز میں پہنچیں گے ہمارے ہاں جمہوریت جوان ہونے سے پہلے بڑھاپے کی جانب گامزن ہے۔ ملک کے بارے اب ایسی باتیں سننے کو مل رہی ہیں جنکے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم جمہوری ہوئے بغیر جمہوریت چاہتے ہیں مضبوط جمہوریت کیلئےآزاد میڈیا کا ہونا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں نہ جمہوریت آگے بڑھ رہی ہے اور نہ ہی جمہوری لیڈر آگے بڑھ رہے ہیں،پاکستانی عوام چند مخصوص چہرے دیکھ دیکھ کر تھک گئے ہیں۔ خالص جمہوریت سے ملک محفوظ ہوتا ہے اور خاندانی جمہوریت سے تباہ ۔ جس نے بھی جمہوری فیصلوں کی بجائے ذاتی فیصلے کئے اس سے خرابی واقعہ ہوئی۔ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے ہمارے اساتذہ کہتے ہیں کہ جونہی الیکشن ہونگے نئی پارٹی یا پارٹیاں حکومت میں آئیں گی ساتھ ہی تحریک انصاف کیلئے راستہ کھولنے کی آوازیں حکومتی حلقوں سے بلند ہونا شروع ہوں گی۔ ڈاکٹر اعظم نے کہا تھا کہ یہی جمہوریت کا نقص ہے ،جو تخت شاہی پر کبھی مکار بیٹھے ہیں کبھی غدار بیٹھے ہیں حبیب جالب نے کہا تھا کہ
کبھی جمہوریت یہاں آئے، یہی جالب ہماری حسرت ہے
حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ جمہوریت ہمارے خون میں موجود ہے ہمیں اس کیلئے کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، یہ ملک جمہوریت کی برکت سے بنا تھا اسی لئے ہر آمر کو بالآخر الیکشن کی طرف جانا پڑتاہے، ملک کو قومی پارٹیوں کی ضرورت ہے علاقائی پارٹیاں ہمیشہ وفاق کیلئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ خرابیوں اور خامیوں کے باوجود پچھلے 3 الیکشن یعنی پندرہ سال میں ہر جماعت میں کچھ نئے چہرے مل رہے ہیں، حالیہ جمہوریت مسائل کاحل نہیں، ماضی میں ہمارے وزرائے اعظم اتنی بار پارلیمنٹ نہیں گئے جتنی بار آرمی چیف سے ملاقاتیں کرتے دکھائی دیئے۔ سیاسی بلوغت وقت کی ضرورت، جمہوریت اس بات کا نام نہیں کہ اقتدار میں پہنچ کر گردن پکڑیں ، اقتدار میں نہ ہوں تو پائوں پکڑیں۔
شنید ہے، الیکشن سے قبل مزید گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہونیوالا ہے اور یہ گرفتاریاں یونین کونسل کی سطح پر ہوں گی تا کہ ایک جماعت کو الیکشن میں جانے سے پہلے زیادہ سے زیادہ کمزور کیا جا سکے۔