• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

یہ زرد پتے، یہ سرد موسم ... کہر میں لپٹی اداس شامیں

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: ماہین اقبال

سوئیٹرز: Enem store، لبرٹی مارکیٹ، لاہور

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

کوارڈی نیٹر: مظہر علی

عکّاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

یہ جو آج کل ’’سیگنیچر لُک‘‘ کا ایک ٹرینڈ، حقیقتاً ڈراما سا چل نکلا ہے ناں، دراصل الفاظ ہی کا ہیر پھیر ہے۔ عام پہناوے کی قیمت سے دگنی تگنی قیمت کا ’’سیگنیچر ڈریس‘‘، تو میک اوور میں ذرا سا انیس بیس کر کے ’’سیگنیچر میک اوور‘‘ کا نام دینے کا معاوضہ ڈبل ٹرپل۔ حالاں کہ شخصیت کی مطابقت و موازنت سے ڈریس اَپ ہونا یااپنی پسند کےعین مطابق آرائش و زیبائش، بنائو سنگھار کرنا ازل سے صاحبِ استطاعت و صاحبِ ذوق افراد کا چلن رہا ہے۔ خال ہی کوئی زمانہ گزرا ہوگا، جب خاص طور پر فیشن/اسٹائل آئیکونز یا عمومی طور پر خُوش پوش و خُوش ادا افراد کی پوری کھیپ موجود نہ رہی ہو۔

خواص میں قلوپطرہ سے لےکر جیکولین کینیڈی، گریس کیلی، مارلن منرو، آڈری ہیپ برن، ایلزبتھ ٹیلر، صوفیہ لورین، سلمیٰ ہائیک، وکٹوریا بیکھم، لیڈی ڈیانا، ریحانہ، بروک شیلڈ، جولیا رابرٹس، آڈیٹی اینابیل، انجلینا جولی، اسکارلیٹ جانسن، بیونسے، جینیفر لوپیز، کیٹی ہومز،سلینا گومز، لیڈی گاگا، ایما واٹسن، شکیرا، بیلا حدید اور بھارتی اداکارائوں میں مدھو بالا، مینا کماری، نرگس، ریکھا، مادھوری کے بعد مِس ورلڈ، مِس یونی ورس، مِس انڈیا، پھر دیپیکا پدوکون، تمنّا بھاٹیا، سونم کپور، کائرا ایڈوانی، جب کہ پاکستانی اداکاراؤں میں صبیحہ خانم، شبنم، ریما، ماہ نوربلوچ، ماہرہ خان، ایمان علی، مہرین سیّد اورعائزہ خان تک اَن گنت نام ہیں، جنہوں نے اپنے مخصوص اسٹائلز، پہننے اوڑھنے کےانداز ہی کے سبب باقاعدہ ’’برانڈز‘‘ کی شکل اختیار کی۔ اِسی طرح عوام میں بھی ہر دَور میں ایسے بہت سے لوگ موجود رہے اور اب بھی ہیں کہ جن کامخصوص اسٹائل ہی اُن کی شناخت ٹھہرا۔ کہنےکامطلب یہ ہےکہ دنیا میں بےشمار لوگ گزرے اور ہنوز موجود ہیں کہ جنہیں اپنی شخصیت کو بہترین انداز سے Carry کرنا آتا ہے۔

ہمیشہ سے سُنتے آرہے ہیں، ’’کھائو مَن بھاتا، پہنو جگ بھاتا‘‘ مگر گزرتے وقت کے ساتھ، جہاں اور کئی Myths، Fairy tales (روایتی، فرسودہ قصّے، پریوں کی کہانیاں) زندگی کے نصاب سے یک سر متروک ہوئیں، وہیں اب یہ محاورہ بھی بہت حد تک اُلٹ سا گیا ہے۔ اب لوگ کھاتے ’’جگ بھاتا‘‘ ہیں کہ پھر تصاویر/ پوسٹس وغیرہ اپنےاسٹیٹس، والز، اسٹوریز، رِیلز یا انسٹا اسٹریکس پر جو شیئر کرنی ہوتی ہیں اور پہنتے ’’مَن بھاتا‘‘ ہیں کہ اب تو جو خُود کو پہنااچھا لگے، وہی سب سے اچھا ہے۔ آج لوگوں کی پہلی ترجیح اپناآرام، سہولت، اپنی کمفرٹیبلٹی ہے۔ جیسے سخت سردی میں بھی کلیئر سینڈلز یا فلپ فلاپس (Flip flops) پہننے والوں کا موقف ہوتا ہے کہ ’’بند جوتوں میں پیروں کی سانس رُکتی محسوس ہوتی ہے۔‘‘ 

ہمیشہ کالر اسٹائل شرٹس پہننے والوں کو لگتا ہے کہ ’’ڈیسنٹ لُک کے لیے اس سے بہتر آئیڈیا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ ہر موقعے پر جینز، ٹی شرٹ چڑھا لینے والوں کا خیال ہے کہ ’’اسٹائل اورکمفرٹیبلیٹی کی یک جائی کے لیے اِس سےعُمدہ پہناوا آج تک تخلیق ہی نہیں ہوا۔‘‘ اور پھر.....موسم، ماحول، موقعے سے قطعاً متضاد محض مُوڈ کے تابع ڈریسنگ کےبعد کندھےاُچکا کر’’میری مرضی‘‘ کہنے والوں کی تو کیا ہی بات ہے۔ وہ کسی نہ کہا تھا ناں کہ ’’جب آپ اِس بات کی رتّی بھر پروا نہیں کرتے کہ کوئی آپ سے متعلق کیا سوچے، کیا کہے گا، تو سمجھیں آپ ’’آزادی‘‘ کی معراج پر پہنچ چُکے ہیں۔‘‘

گرچہ ہم اس اعتبارسےتوابھی آزادی کی معراج پرنہیں پہنچے کہ ہمارے بیش تر’’رنگ و انداز‘‘ کم از کم موسم سے عین ہم آہنگ ضرور ہوتے ہیں، لیکن جس قدر متنوّع محافل ہم آپ کے لیے سجاچُکے ہیں، آپ کے لیے اب اپنا ’’سیگنیچر لُک‘‘ تخلیق کرناقطعاً مشکل نہیں رہا۔ اِسی ضمن میں ذرا ہماری آج کی بزم بھی ملاحظہ فرمالیں، جومُلک بھرمیں سرما کی لہرسے عین ہم آہنگ، البتہ اہلیانِ کراچی کے لیےکسی حد تک اب بھی بےموقع ہی ہے۔ 

دیکھیے، ڈارک پنک رنگ کے فَرکارڈیگن پر ہم رنگ بِیڈ ورک کیسا پیارا لگ رہا ہے، تو لائٹ اسٹیل بلیو رنگ میں بھی بِیڈ ورک سے آراستہ کارڈیگن اسٹائل ہی ہے، البتہ یہ پیور وُول سوئیٹر ہے۔ فائرڈ بِرک (Fired Brick) کلر میں وولن پاکٹ کارڈیگن ہے، تو عنّابی مائل چقندری سے رنگ میں اسٹون اینڈ ستارہ ورک سے مزیّن ہاف سلیوز جرسی ہے۔ جب کہ ملٹی شیڈڈ پونچو ٹائپ کیپ شال کی دل کشی و رعنائی کے بھی کیا ہی کہنے۔

اس ’’زرد موسم‘‘ میں شعراء پر تو کلام کے کلام وارد ہوتے ہیں، لیکن ہم آپ کی اور اپنی تسکینِ طبع اور بزم کی ہم آہنگی میں ایک مختصر سی نظم شیئر کیے دیتے ہیں کہ ؎ ’’یہ زرد پتّے، یہ زرد موسم.....کہر میں لپٹی اداس شامیں..... ہمارے کب اختیار میں ہے..... تمہارے ہاتھوں کو اب جو تھامیں..... چلو، تمہیں یاد کر کے رو لیں..... ہم اپنا دامن بھگو لیں۔‘‘ یا ہاشم رضا جلال پوری کے یہ شعر بھی دہرائے جا سکتے ہیں ؎ زرد موسم میں بھی اِک شاخ ہَری رہتی ہے.....دِل کے گلشن میں کوئی سبز پَری رہتی ہے.....تشنہ لب کون ہے وہ، جِس کے لیے نہرِفرات.....میری پلکوں کی منڈیروں پہ دَھری رہتی ہے۔