• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

یوں تو دنیا میں بے شمار خُوش فطرت، نیک اطوار انسان پیدا ہوتے اور وقتِ مقرر گزار کر راہئ ملکِ عدم ہوجاتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو اپنے اخلاق و کردار، خلوص و مروّت اور حُسنِ سلوک کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر ہمیشہ کے لیے جیسے قابض ہوجاتے ہیں اور میری پھوپی، عزیز فاطمہ عرف ننّھی کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا تھا، جو میرے دادا کی اولاد میں دوسرے نمبر پر تھیں۔ میرے دادا کے چار بیٹے اور چھے بیٹیاں تھیں، سب ہی غریقِ رحمت ہوچکے ہیں۔ 

قیامِ پاکستان کے بعد پھوپی ننّھی اور اُن کے شوہر، سیّد حسن خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے اور شہر بہاول نگر کے وسط میں کلیم میں ملنے والی دس مرحلہ حویلی میں منتقل ہوگئے۔ حویلی کے زیریں حصّے میں میرے والد، تایا، چچا اور بالائی منزل پر پھوپی ننّھی کی رہائش تھی۔ پھوپی کے شوہر، سیّد حسن ایک پُرمزاح اور بچّوں سے ازحد پیار کرنے والے ایک شفیق انسان تھے۔ وہ مقامی کمپنی میں معمولی اجرت پرملازم تھے، لیکن کم آمدنی میں بھی آسودگی تھی۔ پھوپی کی دو بیٹیاں قمرجہاں (مرحومہ) اور خورشید جہاں ہیں۔ 

اُن کا ایک بیٹا محمود بچپن ہی میں فوت ہوگیا تھا، جسے یاد کرکے پھوپی ننّھی کی آنکھیں نَم ہوجاتی تھیں۔ پھوپی نے تمام عُمر صبر و شُکر اور خودداری کے ساتھ بسر کی، کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کیا۔ نیز، اُن کی ذات سے کبھی کسی کو کوئی تکلیف بھی نہ پہنچی۔ وہ خاندان کی ایک غیر متنازع شخصیت تھیں، کبھی کسی سے گلہ شکوہ نہ کرتیں۔ میری پیدائش سے بہت پہلے کی بات ہے، جب میرے منجھلے تایا نے شادی سے انکار پر ایک بے آسرا خاتون کو تشدّد کا نشانہ بنا کر حویلی کے ایک کمرے میں بند کر دیا تھا، تو یہ پھوپھی ننھی ہی تھیں، جنہوں نے اپنے سگے بھائی کا ساتھ دینے کے بجائے مظلوم خاتون کی مدد کی اور راتوں رات انھیں دارالامان بھیجنے کے لیے لاہور ریلوے اسٹیشن تک بحفاظت پہنچایا، جہاں ریلوے کے ایک نیک دل ملازم نے اُن کی کہانی سُن کر انہیں اپنی شریکِ حیات بنا لیا اور مرتے دم تک ساتھ نبھایا۔

وہ سبھی بچّوں کے ساتھ محبّت و شفقت سے پیش آتیں، لیکن مجھ سے کچھ زیادہ ہی لگائو تھا۔ جب میری عُمر پانچ چھے سال تھی، تو پھوپی مجھے اپنے پہلو میں لٹا کر سلطان صلاح الدین ایوبی، ٹیپو سلطان اور دیگر مسلم اکابرین کے قصّے سناتیں، جس سے دل میں اِک جوش و ولولہ پیدا ہو جاتا تھا۔ میرے بارے میں بچپن میں ہی پیش گوئی کردی تھی کہ بڑا ہو کر افسر بنے گا۔

الحمدللہ، اُن کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اورمَیں لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں بطور چیف آفیسر تعینات ہوا۔2013ء میں پھوپی نےاس جہانِ فانی سے کُوچ کیا، اگرچہ وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں، لیکن میرے دل میں آج بھی زندہ ہیں۔ میرا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب اُن کے لیے ایک بار سورۂ فاتحہ اور دس بار سورۂ اخلاص پڑھ کر دُعا نہ کروں۔ اللہ تعالیٰ اُن پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔ (آمین، ثم آمین)۔ (سیّد شفاعت علی زیدی، بہاول نگر)