مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
یہ سچی داستان، کراچی کی پوش آبادی میں شاہانہ زندگی گزارنے والی ایک ایسی لڑکی کی ہے، جس کے اپنے سگے بھائیوں نے بھی اس کے ساتھ وفا نہ کی۔ پُرتعیش زندگی سے غربت زدہ ماحول میں دھکیلی جانے والی اس خاتون کی دُکھ بھری داستان اُس ہی کی زبانی پیش ِ خدمت ہے۔
’’مَیں چار بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔ بچپن میں میرے خوب ناز نخرے اٹھائے، قدموں تلے پھول بچھائے جاتے ۔ مَیں بابا کے بڑھاپے کی اولاد تھی، اوربخت آورایسی تھی کہ میری پیدائش کے بعد بابا مٹّی بھی مٹھی میں لیتے تو سونا بن جاتی۔ انھوں نے فارمیسی کی ڈیلر شپ سے نجی فارماسیوٹیکل کمپنی تک کا سفر بخوبی طے کیا۔ کمپنی چلی اور خوب چلی، گھر میں ہُن برسنے لگا۔
اندازِ زندگی بدلا، تو اطوار بھی بدل گئے۔ بڑے اور منجھلے بھائی بابا کے ساتھ فیکٹری سنبھالتے، جب کہ تیسرے نمبر والے بھائی، جرمنی اور چوتھے نمبر والے لندن میں بغرضِ تعلیم رہائش پذیر تھے۔ اب یہ اور بات کہ جو یہاں پاکستان میں ڈھنگ سے نہ پڑھ پائے، وہ باہر کیا تیر چلاتے؟ تعلیم کے نام پر پاکستان سے کُھلا پیسا باہر جاتا اور وہ دونوں رَج کے گُلچھڑے اُڑاتے۔ کراچی کے پوش علاقے، سوسائٹی میں ہماری بڑی سی شان دار دو منزلہ کوٹھی تھی، جس میں بابا نے بڑی چاہ سے چاروں بیٹوں کے لیے چار پورشنز بنوائے تھے۔
بالائی منزل کے دونوں پورشنز میں بڑے بھائی اور منجھلے بھائی کی فیملی تھی۔ نیچے کے ایک پورشن میں امّی، بابا کے ساتھ مَیں رہتی تھی۔ دونوں بھائیوں کے باہر جانے کے بعد اُن کے حصّے کا پورشن بطور مہمان خانہ استعمال ہونے لگا۔ بابا، خاندان کو جوڑ کے رکھنے والے آدمی تھے، ہماری میمن برادری میں انہیں بڑے بزرگ کا درجہ حاصل تھا۔ میری بڑی بھابی چچا کی بیٹی اور منجھلی خالہ کی بیٹی تھیں۔
گو، دونوں بھابیوں کی برادری ایک ہی تھی، مگر شادی کے کچھ عرصے بعد دِلوں میں فصیل بڑھتے بڑھتے دیوارِ برلن کی شکل اختیار کرتی چلی گئی۔ اس پر مستزاد، بڑھتی دولت نے بھابیوں کی مخاصمت کو خُوب ہوا دی۔ میرے دونوں بھائی اپنی آنکھیں اور کان گویا اپنی بیویوں کو رہن رکھوا چکے تھے، لہٰذا بابا کی تنبیہ یا امّی کا سمجھانا بے سود و بے اثر ہی رہتا۔
دولت اپنی جَلو میں بہت کچھ لے کر آتی ہے، جیسے جیسے آسائشیں بڑھیں، ویسے ویسے ترجیحات و انداز بھی بدلتے گئے۔ خون تو سُرخ ہی رہا، پراس کی تاثیر بدل گئی۔ بھابیوں کا رویّہ یوں ہی رہا، اس دوران بابا بڑی آنت کے سرطان کا شکار ہوگئے۔ شہر کے سب سے بڑے اسپتال میں اُن کا علاج ہوتا رہا، اورآنت کٹتی اور زندگی گھٹتی رہی۔ مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دَوا کی۔ جہاں بابا کی خرابئ صحت نے فیکٹری کے معاملات پر اثر ڈالا وہیں، اُن کی قوتِ فیصلہ بھی کم زور ہوتی چلی گئی۔
اس الجھتی صورتِ حال میں دونوں بھائیوں کے ٹکرائو اور عدم توجہی و بد انتظامی نے حالات مزید خراب کردیئے۔ جو رہی سہی کسر تھی، وہ سیاسی تنظیموں کی بھتہ خوری نے پوری کردی۔ بھتّے کی ڈیمانڈ زیادہ اور فیکٹری کی پیداوار کم ہوگئی، تو ایسے میں کچھ ضمیر فروش افراد نے تلف کی جانے والی ایکسپائرڈ ادویہ، چوری چُھپے فیکٹری سے نکلوائیں اور تاریخ تبدیل کرکے شہر کے مختلف میڈیکل اسٹورز میں پھیلا دیں۔ جان بچانے والی ادویہ زہرکا کام کرنے لگیں اور شہر میں تواتر سے نو اموات ہوگئیں، تو بِنا کسی چھان بین اور تحقیق کے بابا کے خلاف ایف آئی آر درج کروادی گئی۔
یہ سب کچھ اتنی جلدی اور غیر متوقع طور پر ہوا کہ سوچنے سنبھلے کا موقع بھی نہیں ملا اور ایک دم سب کچھ ہاتھوں سے نکلتا چلا گیا۔ میرے دونوں بڑے بھائی، اس صورتِ حال سے گھبرا کرراتوں رات اپنی اپنی فیملی کے ساتھ دبئی نکل گئے۔ اُن کے جانے کے بعد حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے بابا بالکل تنہا رہ گئے۔ اس اُفتاد سے اُن کے ذہن پر ایسا گہرا اثر ہوا کہ فالج کا حملہ ہوگیا۔ اُف!! وہ کیسے بھیانک دن تھے۔
آج بھی اُن دنوں کی یاد رونگٹے کھڑے کردیتی ہے۔ ایک طرف فیکٹری بند ہوگئی، دوسری طرف وکیلوں کی مَن مانی فیسوں کی ادائی میں تمام جمع جتّھا چلا گیا۔ مدّتوں کیس چلا۔ سماعت کے دوران حکومت نے گھر بھی سِیل کردیا۔ ایسے میں امّی کے پاس جو زیورات تھے، وہی سہارا بنے۔ چاروں بیٹوں نے تو منہ پھیر لیا تھا۔ امّی اتنی مشکل گھڑی میں بھی زیورات بیچنے پر راضی نہیں ہوتی تھیں، انہیں یہ آس اور خوش گمانی تھی کہ یہ زیورات میری شادی پر استعمال ہوں گے، اور مجھے اپنی ماں کے معصومیت اور بے بسی پر رونا آتا۔
وہ ہماری دَربدری کا پُرآشوب دَور تھا۔ اُس زمانے میں ہمارے اپنے بھی ہم سے کترانے لگے تھے۔ ایسے کسمپرسی کے حالات میں بابا کے ایک پرانے دوست نے پاسِ وفا رکھا اورسر چُھپانے کے لیے ہمیں اپنا سرونٹ کوارٹر دے دیا۔ بابا تین سال تک ایڑیاں رگڑتے، بلکتے، سسکتے ہوئے بالآخر راہئ ملکِ عدم ہوگئے۔ اُن کے چاروں شہزادوں کے دل میں ماں باپ اور اکلوتی بہن کے لیے کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ دس سال امّی بھی زندہ لاش بنی، اس خارزار میں اپنا اور میرا وجود ڈھوتی رہیں، بالآخر وہ بھی زندگی کے بوجھ سے آزاد ہوگئیں، تو بَھری دنیا میں، مَیں اکیلی رہ گئی۔ بابا کے گزرنے کے بعد مَیں نےانگریزی میں ایم اے کیا۔
اسکول میں نوکری کی، گھرگھر جاکر پرائیویٹ ٹیوشنز پڑھائیں، برٹش کائونسل میں انگریزی کے کورسز کروائے اور زندگی بِتانے کے بہتیرے جتن تراشتی رہی۔ پھربارہ سال بعد عدالت نے بابا کو جعلی ادویہ کیس میں باعزت بَری کردیا، تو میں نے شُکر ادا کیا کہ میرا مظلوم باپ اس ناکردہ جرم سے مبّرا قرار پایا۔ کیس کی کام یابی کی خبر پاتے ہی بڑے اور منجھلے بھائی دبئی سے لوٹ آئے اور جو کچھ بھی سمیٹ سکتے تھے، سمیٹ لیا۔ ہمارا سوسائٹی کا کھنڈر ہوتا گھر بھی کروڑوں میں فروخت ہوگیا۔ بٹوارے کے بعد کس کو کتنا ملا، وہی لوگ جانتے ہوں گے۔ نہ انہوں نے مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کی اور نہ ہی میرے خون میں محبّت کا جوار بھاٹا اُٹھا۔ مَیں تو جیتے جی قیامتِ صغریٰ دیکھ چکی تھی۔
بچپن ہی میں میری منگنی چچا زاد، ستار سے طے ہوگئی تھی، مگرجب ہم بُرے حالات کا شکار ہوئے، تو دولت چِھن جانے پربچپن کے منگیتر نے بھی منہ موڑ لیا۔ جن دنوں بابا پر جعلی ادویہ کا کیس بنا، اُس وقت میری شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں اور بی اے کے امتحانات کے فوراً بعد ہی شادی کی تاریخ طے تھی، مگر اس حادثے اور اس سے منسلک کیس اور بدنامی کے سبب سب ساتھ چھوڑ گئے۔ چچا نے ستار کو فوراً لندن بھجوا دیا، وہیں اس کی دھوم دھام سے شادی بھی ہوگئی۔ ستار جو ہر وقت میرا دَم بَھرتا تھا، اپنی زبان کا پاس اورعہد کا بَھرم بھی نہ رکھ سکا۔ میں اِس بَھری پُری دنیا میں ویران دل اور تہی دامنی کے ساتھ اپنے مفلوج باپ اور حواس کھوتی ماں کو سنبھالتی تنہائی کے بَن میں کھوتی چلی گئی۔
بہرحال، وقت جیسا بھی بے درد ہو، گزر ہی جاتا ہے۔ سو، میرے بھی کٹھن لمحات گزرتے چلے گئے۔ ماں باپ کے بعد میرا کسی سے رشتہ بن ہی نہیں سکا۔ میری کوئی دوست، سہیلی بھی نہیں تھی، جو میرے زخموں پر ہم دردی کا مرہم رکھتی، میرے درد کا درماں بنتی۔ سو، ہمیشہ میری دوستی اللہ کی بے زبان مخلوق ہی سے رہی۔ محلّے کے سارے کتّے، بلّیاں میرے دروازے کے آگے جمع ہوجاتے ہیں اور مَیں انہیں راتب پانی ڈال دیتی ہوں۔ اب برسوں سے محلّے کے بچّے مجھے ’’بلّی والی نانی‘‘ اور بڑے، خبطی بڑھیا سمجھتے ہیں۔
میری آدھی سے زیادہ تَن خواہ ان جانوروں کے ناز نخروں کی نذر ہوجاتی ہے۔ جب دردِ دل سوا ہو اور کوئی کاندھا بھی میسّر نہ ہو، تو پیار سے خرخر کرتی بلّی کا لَمس ہی دستِ شفقت محسوس ہوتا ہے۔ سچ پوچھیے، تو جانوروں کو مَیں نے بڑا ہی بے ریا پایا۔ بابا کا بنایا ہوا گھر تو اُجڑ کر فروخت ہوچکا تھا، اب اِسی گلی کے نکّڑ پر میرا اپنا چھوٹا سا گھر، ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی اور میری بے طلب و بے مصرف زندگی ہے، جہاں دُور دُور تک کوئی نہیں، بس میں اور میری کجلائی زندگی ہے۔‘‘ (شاہین کمال، کیلگری)