مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میری والدہ، ثروت جہاں کو دنیا سے گئے پانچ برس بیت گئے، اتنے ماہ و سال گزرنے کے باوجود آج بھی مُڑ کے یادوں کے دریچوں سے جھانکتی ہوں، تو کل کی بات لگتی ہے، کیوں کہ اس عرصے میں شاید ہی کوئی ایسا لمحہ گزرا ہوگا کہ مَیں نے اُنھیں یاد نہ کیا ہو۔
وہ خلوص و محبّت، ایثارو وفا کا استعارہ تھیں۔ انتہائی سگھڑ ہونے کے ساتھ عقل و شعور اوربہترین سمجھ بُوجھ کی حامل ایک ہمہ صفت، باہمّت خاتون۔ مَیں اپنی ایک بڑی بہن اور بڑے بھائی کے انتقال کے بعد پیدا ہونے والی اُن کی تیسری اولاد تھی۔ دو بچّوں کی جدائی کے بعد جب مَیں دنیا میں آئی، تو اُنھوں نے مجھ سے بہت لاڈ پیار سے پالا۔ تاہم، اپنے اصولوں پر کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔
وہ کھانا پکانے، سلائی کڑھائی، رنگائی اور کروشیا کے کام میں ماہر تھیں۔ ہم دو بہنیں اور دو بھائی ہیں، انھوں نے ہماری تعلیم و تربیت پر بھرپوراور خصوصی توجّہ دی۔ مَیں جامعہ کراچی میں سوشیالوجی کے فائنل ایئر میں تھی کہ میری شادی ہوگئی۔ تاہم، شادی کے بعد بھی مَیں نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور اس دوران ماسٹرز مکمل ہونے تک میری فیس کی ادائی اور دیگر تمام اخراجات امّی ہی نے اُٹھائے۔ ماسٹرز کے بعد مَیں نے ایک اسکول میں بحیثیت ٹیچر ملازمت اختیار کرلی۔ اس عرصے میں یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ نے مجھے دو بیٹیوں سے نوازا۔
بیٹیاں چھوٹی تھیں، تو ملازمت کی وجہ سے مَیں اُن کی دیکھ بھال نہیں کرسکتی تھی، ایسے میں میری والدہ نے ان کا بے حد خیال رکھا۔ میری غیرموجودگی میں کبھی میری کمی محسوس ہونے نہیں دی۔ بیٹیوں کو بھی اپنی نانی سے عشق تھا۔ نانی نے ایک سے ایک فراک خود اپنے ہاتھوں سے سی کر پہنائے۔ والدہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے 27برس کی عمر ہی میں اپنا ذاتی گھر تعمیر کروایا، جس کے لیے انہوں نے اس وقت کے معروف بلڈر،رکن الدین کو، جنھوں نے الاعظم اسکوائرتعمیر کیا تھا، ایک خط لکھا کہ میرے140 گز کے گھر کا نقشہ بنادیجیے۔
بلڈر نے جواب دیا کہ ’’بیٹی!میں نے کبھی چھوٹے گھروں کا نقشہ نہیں بنایا، لیکن پھر بھی کچھ حساب کتاب بنا کر آپ کو بھیج دوں گا۔‘‘ اور پھر حسبِ وعدہ انھوں نے مکان کی تعمیر کے حوالے سے حساب کتاب اور اہم مشوروں سے نوازا۔ اس طرح 30اپریل 1964ء کوہمارا گھر تیار ہوگیا۔ میری دوسرے نمبر کی بیٹی کار ڈرائیونگ میں بہت مشّاق ہے، وہ اپنی گاڑی میں نانا، نانی کو رشتے داروں سے ملوانے اور شاپنگ وغیرہ کے لیے لے جاتی تو، بہت خوش ہوتے اور دعائیں دیتے۔
2012 ء میں ہمارے والد کے دنیا سے جانے کے بعد میری والدہ بہت غم گین، اُداس رہنے لگیں، اسی غم میں اُن پر فالج کا حملہ ہوگیا، جس کے باعث بستر سے لگ گئیں، لیکن کچھ عرصہ علاج معالجے کے بعد پھر سے تن درست ہوکر فعال ہوگئیں۔ وہ نماز، روزے اور قرآنِ پاک کی تلاوت میں کبھی کوتاہی نہیں کرتی تھیں۔ اپنا کفن سعودی عرب سے منگواکر آبِ زم زم میں ڈبو کر اپنے پاس رکھا ہوا تھا، تدفین کے اخراجات بھی الگ سے رکھے تھے۔
بالآخر کسی پر بوجھ بنے بغیر 12اکتوبر2018ء کی صبح اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں اور شوہر کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئیں۔ اتنا وقت بیت جانے کے باوجود آج بھی مجھے لگتا ہے کہ ابھی امّی مجھے آواز دیں گی ’’صبوحی تم آگئیں۔‘‘ لیکن میں اُنھیں کہاں دیکھوں اور تلاش کروں۔ وہ میری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ میرے والدین کو غریقِ رحمت کرے اور اُن کے درجات بہت بلند فرمائے، آمین۔ (صبوحی احید، گلشنِ اقبال، کراچی)