• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

جامعہ کراچی، شعبۂ اردو میں ایم اے کے آخری سیمسٹر کے امتحانات اگست 1990ء میں مکمل ہوئے اور 4دسمبر کے اخبارات میں ایم اے اردو اور عمرانیات کے نتائج کا اعلان شائع ہوا۔ الحمدللہ، میں ان طلبہ میں شامل تھا، جو اوّل درجے میں کام یاب ہوئے تھے۔ اسی دوران سندھ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے مختلف مضامین کے لیے لیکچرارز کی اسامیوں کا اعلان ہوا۔ فارم جمع کروانے کی آخری تاریخ 12دسمبر تھی۔ نتائج توآگئے، مگر درخواست دینے کے لیے مارکس شیٹ، ڈگری اور کیریکٹر سرٹیفکیٹ کی ضرورت تھی۔

سرکاری دفاتر کا وہی ٹال مٹول والا انداز تھا، بمشکل تمام سیمسٹر سیل سے مارکس شیٹ حاصل کرنے کے بعد شعبے کی جانب سے کیریکٹر سرٹیفکیٹ بھی مل گیا۔ یوں10دسمبر کی شام تک درخواست کے ساتھ نامکمل دستاویزات منسلک ہوپائیں، مگر ساتھ ہی یہ خبر سننے میں آئی کہ اگلے روز 11دسمبر کو ایک سیاسی تنظیم کی جانب سے ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے، لامحالہ سارا دن شہر بند رہا، ٹریفک بھی معطل تھی۔ میری درخواست مکمل ہوچکی تھی، مگر کوریئر کمپنی کے تمام آفسز بند ہونے کی وجہ سے جمع کروانے سے قاصر تھا، پھرمَیں اپنے ایک ہم درد کے گھر چلا گیا، جو کچھ ہی فاصلے پر رہتے تھے۔ 

وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں منیجنگ ڈائریکٹر کے پی اے تھے۔ مَیں نے اُن سے مدعابیان کیا، تو کہا، کوشش کرتا ہوں، پھر انہوں نے اپنے دفتر فون کرکے کسی طرح گاڑی منگوائی اور خود دفتر پہنچ کر کوریئرسروس کے نمائندے کے ذریعے میری درخواست جمع کروادی۔ ان کا دفتر شاہ راہِ فیصل، کراچی ائرپورٹ کے نزدیک تھا۔

اس لیے وہاں کوریئر سروس کا دفتر کھلا مل گیا۔ درخواست تو جمع ہوگئی تھی، مگر دل کو دھڑکا ہی لگا رہا۔ یہاں تک ایک روزSPSCکی جانب سے ایک خط موصول ہوا، جس میں درخواست کے نامکمل ہونے اور دستاویزات مکمل کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔

اتفاق کی بات ہے کہ 9مارچ 1991ء کو روزنامہ جنگ، کراچی میں میری تصویر اورساتھ ہی مختصر تعارف شائع ہوا، جس میں لکھا تھا،’’ممتاز عمر نے اردو ادب، ایم اے کا امتحان اوّل درجے میں پاس کیا ہے، اس سے قبل وہ ہومیو پیتھک ڈپلوما بھی کرچکے ہیں اور پیدائشی طور پر بصارت سے محروم ہیں۔‘‘ دس مارچ کو انٹرویو تھا، کمیشن کے دفتر پہنچا، تو مجھے دیکھ کر عملے کے کچھ لوگ اور دیگر طلبہ ایک دوسرے سے کہنے لگے، ’’یہ وہی لڑکا ہے، جس کی کل تصویر چَھپی تھی۔‘‘ 

بہرحال، انٹرویو کے دوران پے در پے 26سوال پوچھے گئے اور تقریباً سب ہی کے جوابات مَیں نے درست دیئے۔ پھر مئی کے اواخر میں کام یاب امیدواروں کی فہرست شائع ہوئی، جس میں میرا نام بھی شامل تھا۔ یوں 10ستمبر 1991ء کو اردو گورنمنٹ کالج، برائے خواتین، کورنگی نمبر 4کراچی میں بحیثیت لیکچرار میرا تقرر ہوا، جہاں سے مَیں نے درس و تدریس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ پھر کچھ عرصے بعد دورانِ ملازمت اپنی صلاحیتوں میں مزید اضافے کے لیے پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروایا اور الحمدللہ، 2003ء میں پی ایچ ڈی بھی کرلیا۔

قبلِ ازیں، بحیثیت معاون پروفیسر ترقی ملنے کے بعد گورنمنٹ ڈگری سائنس و کامرس کالج، لانڈھی میں میرا تقرّر ہوچکا تھا۔ وہاں سے2014ء میں بحیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسرمیری ترقی ہوئی۔ ملازمت کا دورانیہ بڑھتا جارہا تھا۔ ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آرہا تھا، تو ریٹائرمنٹ سے قبل بحیثیت پروفیسر 20ویں گریڈ میں ترقی کے لیے سیکریٹری تعلیم برائے کالجز، حکومت سندھ کی توجّہ اس جانب مبذول کروائی کہ مَیں نے نابینا ہونے کے باوجود پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ نیز، میرا ملازمت کا ریکارڈ بھی انتہائی شان دار ہے، اس لیے مجھے ریٹائرمنٹ سے قبل گریڈ 20میں ترقی دے دی جائے۔

درخواست جمع کروانے کے بعد اگلے ہی روز میں نے سیکریٹری تعلیم، خالد حیدر شاہ سے بہ نفسِ نفیس ملاقات کی اور گزارش کی کہ ’’سینیارٹی لسٹ کے مطابق60نمبر تک کے ایسوسی ایٹ پروفیسرز کو بحیثیت پروفیسر گریڈ 20میں ترقی دی جاچکی ہے، اس فہرست میں میرا نمبر64ہے۔‘‘ انہوں نے میری بات بڑی توجّہ سے سنی، پھر اپنے عملے کو بلا کر صورتِ حال معلوم کی اور کہا کہ ’’اگر آپ بورڈ کے اجلاس سے قبل آجاتے، تو آپ کو بھی فیوچرویکینسی پر ترقی دے دی جاتی۔ 

بہرحال، پھر بھی مجھ سے جو ہوسکا، میں کروں گا۔‘‘ اسی دوران تفسیرِ قرآن سنتے ہوئے معلوم ہوا کہ ’’سورۃ المومنون‘‘ کی آخری چار آیات کی بڑی اہمیت و فضیلت ہے، یہاں تک کہ انھیں پڑھنے سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل سکتے ہیں۔ مَیں نے یقین کے ساتھ ان آیات کو زبانی یاد کرلیا اور پھر کوشش کی کہ نمازِ اشراق و چاشت اور دیگر نمازوں کے نوافل میں ان آیات کی تلاوت کو اپنا معمول بنائوں اور جب بھی ممکن ہو، شعور کی گہرائیوں کے ساتھ ان آیات کی تلاوت کروں، ان کے مطالب و مفاہیم پرتفکّر کروں۔ پھر اس عمل کو مَیں نے اپنا معمول بنالیا اوربڑی امید کے ساتھ 21دسمبر2022ء کو یاد دہانی کی غرض سے اگلی درخواست بھیج کر سیکریٹری صاحب سے ملاقات کرنا چاہی، مگر طویل انتظار اور ان کی سرکاری مصروفیات کی وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی۔

قریباً ایک ماہ کے انتظار کے بعدیاد دہانی کی ایک اور درخواست 31 جنوری 2022ء کو جمع کروائی، لیکن بالمشافہ ملاقات اس مرتبہ بھی ممکن نہ ہوسکی۔ وقت گزرتا جارہا تھا، امید معدوم ہوتی جارہی تھی، مگر مَیں ہمّت ہارنے کو تیار نہ تھا۔ پھر ایک روز سیکریٹری تعلیم سندھ، خالد حیدر شاہ کے دفترجا پہنچا۔ سورۃ المومنون کی آیات زیرِلب پڑھتے ہوئے کمرے میں قدم رکھا، تووہ انتہائی خوش اخلاقی سے ملے، مجھے بٹھایا اور پھر اپنے عملے کو بلاکر میری ترقی کے امکانات پر گفتگو کرنے لگے۔ انہوں نے بتایا کہ سینیارٹی لسٹ میں اب آپ کا نمبر62ہے۔ 

مَیں نے توجّہ دلائی کہ ’’میری ریٹائرمنٹ میں قریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہے۔‘‘ تو انھوں نے کہا، ’’ہم نے بورڈI کے لیے کاغذات منگوائے تھے، جو اب تک ہمارے پاس نہیں آئے، آپ ایسا کریں کہ ریجنل ڈائریکٹر سے ملیں اور کہیں کہ وہ آپ کے کاغذات ہمارے دفتر بھیج دیں، مَیں خود بھی انھیں فون کردوں گا۔‘‘ ان کی گفتگو سے مجھے بڑا حوصلہ ملا۔ مَیں نے خوشی خوشی ریجنل ڈائریکٹر، کراچی کے دفتر پہنچ کر تمام تفصیلات سے آگاہ کیا، مگر وہی سرکاری انداز، ڈپٹی ڈائریکٹرنے سپاٹ لہجے میں جواب دیا کہ’’آپ جایئے، ہم اگلے ہفتے تک سب کے کاغذات ایک ساتھ بھیجیں گے۔‘‘ ان کے جواب سے ایک بار پھرامید ٹوٹتی محسوس ہوئی، شکستہ دل سے گھرکی طرف سے روانہ ہوگیا۔

21مارچ کو ترقی دینے کے حوالے سے بورڈ کی میٹنگ ہونی تھی۔ پتا چلا کہ جن صاحبان کے نام پر غور ہونا تھا، ان میں دیگر محکموں کے ملازمین کے علاوہ محکمہ تعلیم کا صرف ایک ریٹائر پروفیسر شامل ہے۔ اس موقعے پر مَیں نے اپنے ایک ساتھی، فہیم ارشد سے کہا کہ ’’میرا نام تو لسٹ میں شامل نہیں، کیا اس کے باوجود بھی ترقی کا امکان ہے۔‘‘ تو انھوں نے بڑے تیقّن کے ساتھ کہا ’’اللہ چاہے، تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔‘‘ اورپھرحیرت انگیز طور پر فہیم ارشد کا یقین عملی صورت میں سامنے آگیا۔ 

شام 5بجے کے بعد دوستوں کی طرف سے مبارک باد کے فون آنے لگے۔ مَیں حیران تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔ میری بحیثیت پروفیسر20ویں گریڈمیں ترقی کی خبر ہر طرف پھیل چکی تھی، مَیں سجدئہ شکر بجا لایا، آنکھیں نم دیدہ تھیں، میرے ربّ کی عنایت تھی کہ اَن ہونی کو ہونی کر دکھایا۔ دو روز بعد سیکریٹری تعلیم، خالد حیدر شاہ کے دفتر پہنچا، وہ دفترسے باہر کسی میٹنگ میں تھے۔ 

ان کے پی اے سے اپنی ترقی کی بابت وضاحت چاہی، تو انھوں نے بتایا ’’سیکریٹری صاحب نے پیر کی صبح آپ کی فائل منگوائی اور دوپہر کو خود فائل لے کر بورڈ I کے اجلاس میں پہنچے اور اراکین سے گزارش کی کہ یہ ایک نابینا شخص ہے، جو ڈیڑھ ماہ بعد ریٹائر ہورہا ہے، اگر اس کی ترقی پر بھی غور فرمالیں، تو مَیں ذاتی طور پر احسان مند رہوں گا۔ اور یوں مذکورہ اجلاس میں ترقی کی منظوری دے دی گئی۔‘‘ بالآخر، یکم اپریل2022ء کو بحیثیت پروفیسر، تین عشرے تک درس و تدریس کی ذمّے داریاں نبھاکر مَیں ریٹائر ہوگیا۔ آج ریٹائرمنٹ کے بعد پرسکون زندگی گزار رہا ہوں۔ بلاشبہ، ہمّت، لگن اور جستجو کے ساتھ امید کا دامن تھامے رہیں، تو اللہ تعالیٰ اَن ہونی کو بھی ہونی کردیتا ہے۔ (پروفیسر ڈاکٹر ممتاز عمر، کراچی)