• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک انتہائی دیانت دار مگر بہت ٹھنڈے مزاج کا حامل انسان ہوں، اس کے باوجود کچھ گناہ ایسے ہیں جو دین کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہیں اور یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتے، چنانچہ میں جب کسی خاتون کو برقعے کے بغیر دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں خون اُتر آتا ہے مگر اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرے میں ایمان کے اس درجے پر فائز نہیں ہوں، جس میں اس نوع کے گناہِ کبیرہ کی روک تھام بزورِ شمشیر کی جاتی ہے لیکن الحمدللہ ان غازیوں کیلئے میرے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جو ایسی عورتوں کے سر تن سے جدا کرتے ہیں، میں نے انہیں غازی اس لئے قرار دیا کہ خدا کے فضل سے آج تک انہیں کسی عدالت سے سزا نہیں ہوئی اور یوں وہ شہادت کے درجے پر فائز نہیں ہو سکے۔

اسی طرح جب میں کسی بے دین کو استنجا کرنے کے بعد شلوار کا ازار بند باندھتے اور ساتھ ساتھ چہل قدمی کرتے دیکھتا ہوں تو میں اس خیال سے کانپ جاتا ہوں کہ جو بے دین لوگ فارغ ہونے کے بعد صحیح طور پر دھلائی یا صفائی نہیں کرتے تو اسے جہنم کے بدترین گوشے میں دھکیل دیا جائے گا۔ انہوں نے اپنے جسم کو ناپاک پانی کے قطروں سے نہیں بچایا۔ میں نے ایک مسجد کے بیرونی حصے پر لکھا دیکھا تھا کہ صفائی نصف ایمان ہے، حالانکہ میں نے یہ کاٹ کر لکھوایا کہ ’’طہارت کی اہمیت واضح کرنے کیلئے لوگوں کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کئی دردِ دل رکھنے والے اہل ایمان کا ہجوم سڑکوں پر اپنے متحرک ہاتھوں کے ساتھ چہل قدمی بھی کرتے ہیں‘‘ لیکن جن دلوں پر قفل لگ چکا ہو ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، وہ اسے دینی فریضہ نہیں سمجھتے بلکہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔میری آنکھوں میں اس وقت بھی خون اتر آتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ لوگ غسل کے آداب سے واقف نہیں ہیں وضو کرتے ہیں تو اس کے تمام تقاضے پورے نہیں کرتے انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ چاول کے دانے کے برابر بالوں والا معاملہ کیا ہے یہی حال خواتین کا ہے، وہ اپنے مخصوص ایام کی دینی نزاکتوں سے بے خبر ہیں۔ غرضیکہ کوئی ایک معاملہ ہو تو اس کا ماتم کیا جائے پورا معاشرہ بے دینی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔

ایک فاسق و فاجر کالم نگار نے جو بدقسمتی سے ایک عالم دین کا بیٹا ہے، ایک دفعہ ’’دو نمبر قبرستان‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا جس میں اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جو لوگ دو نمبر کام کرتے ہیں، ان کا قبرستان عام مسلمانوں سے الگ ہونا چاہیے اور دو نمبر کاموں سے اس کی مراد رشوت، اسمگلنگ، ملاوٹ، قتل، کرپشن اور بردہ فروشی وغیرہ تھی اور دلیل اس نے یہ دی کہ جو ان جرائم کا ارتکاب کرتا ہے، اس کا خمیازہ پورے معاشرے اور ملک کو ادا کرنا پڑتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ حقوق العباد کے گناہگار کو تبھی معاف کرے گا اگر کروڑوں لوگوں کے ان قاتلوں کو مقتولین معاف کرنا چاہیں گے، اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان بدکرداروں کی شفاعت کبھی نہیں فرمائیں گے جنہوں نے ان کے امتیوں کی زندگیاں اجیرن بنا دیں جبکہ جو شخص حقوق اللہ ادا کرتا ہے، اس کا فائدہ صرف اس کی ذات کو پہنچتا ہے اور وہ بھی صرف اس صورت میں اگر اس کے دوسرے اعمال بھی ٹھیک ہوں۔ اس ناہنجار کالم نگار نے یہ بھی لکھا کہ جو شخص حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوتاہی کر جاتا ہے اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے وہ چاہے تو اسے معاف کر دے چنانچہ دو نمبر کام کرنے والے جن بدکردار لوگوں کی بخشش کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے نہیں لیا، ان کا قبرستان ان گناہگار مسلمانوں سے الگ ہونا چاہیے جنہیں حضورؐ کی شفاعت حاصل ہو سکتی ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کوتاہیوں سے صرف نظر کر سکتا ہے جن سے کسی دوسرے کی ذات کو نقصان نہیں پہنچا۔

یہ کالم پڑھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا میں نے اس کالم نگار کو خط لکھا کہ دینی مسائل پر لکھنے سے پہلے علمائے کرام سے مشورہ کر لیا کرو صرف وہی جانتے ہیں کہ اسلام کیا ہے اور اسلام کیا نہیں ہے خطبات جمعہ اور دینی اجتماعات میں ہونے والی تقریریں سن لو جن میں معاشرتی برائیوں کا ذکر برائے نام ہوتا ہے جبکہ سارا زور خطابت انہی موضوعات پر صرف ہوتا ہے جن کے حوالے سے میرا بی پی ہائی ہو جاتا ہے، میں نے یہ بھی لکھا کہ ہمارے علمائے کرام سائن بورڈوں پر عورتوں کی تصویریں دیکھ کر غیظ و غضب میں آ جاتے ہیں اور پھر ان کے عقیدت مند ان عورتوں کے چہروں پر سیاہی پھیرنے کیلئےبرش ہاتھوں میں لئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں، ویلنٹائن ڈے، بسنت اور نیو ایئر پر بھی ان کی غیرت ایمانی جاگتی ہے اور وہ لاٹھیاں لے کر گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور ان مقامات پر پل پڑتے ہیں جہاں یہ فحاشی ہو رہی ہوتی ہے لیکن کیا کبھی انہوں نے کسی ملاوٹ کرنے والے، کسی ذخیرہ اندوز ،کسی بلیکئے کسی بردہ فروش یا کسی سمگلر کے کاروباری اڈے پر حملہ کیا ہے، اگر نہیں کیا تو اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اسلام کی اس تعبیر کو صحیح مانتے ہیں جس کے تحت حقوق العباد کی ادائیگی کی حیثیت محض ثانوی ہے جبکہ حقوق اللہ ہی اصل چیز ہیں۔ مگر اس بے دین نے میرا یہ خط شائع نہیں کیا اور یوں ایک بار پھر میری آنکھوں میں خون اتر آیا کہ وہ شخص فہم دین کا دعویٰ کر رہا ہے جسے پتہ ہی نہیں کہ دین کیا ہے، اس پر میں نے دعا کی کہ یا خدا مجھے توفیق دے کہ میں ایمان کے پہلے درجے پر فائز ہو سکوں۔

تازہ ترین