• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اک طرفہ تماشا ہیں ہمارے الیکشن بھی

الیکشن ایسا جمہوری عمل ہے کہ اس سے قوم اور لیڈرز کیلئے سیدھے راستے ہموار ہو جاتے ہیں اور انتخابات کے بعد ایک نئی پرسکون صبح طلوع ہوتی ہے، ہمارے ہاں لگ بھگ 15الیکشن ہو چکے ہیں، مگر نہ نظام درست ہوا نہ ہجوم قوم بن سکا، یوں لگتا ہے ایک جنگل ہے اس میں ایک مخصوص کلاس کا منگل ہے، ہر الیکشن ایک دنگل ہے جس میں قوم کو راستہ دکھانے والے، شان و شوکت والے دولت والے یوں زور شور سے اترتے ہیں کہ سرزمین چمن سے گل و بلبل غائب ہو جاتے ہیں، ایک مقام پر کاغذات جمع کرانے کا عمل جوڈو کراٹے کا مقابلہ بن گیا، کیا یہ لوگ اسمبلیوں میں ہماری خیرخواہی کے لئے کام کریں گے؟ ملک کی تار تار معیشت سے خوشحالی کی شالیں بُنیں گے، کم از کم 10انتخابی عمل کے بعد تو یہاں جمہوریت کی عملداری آ جانی چاہیے تھی مگر ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا، وطن عزیز میں غربت اور غریب تیزی سے بڑھ رہے ہیں، یہاں انقلاب کے نام پر سب کچھ الٹ پلٹ کر دیا گیا ہے، سیاست ایک نفع بخش زرخیز کاروبار ہے جن کے پاس اربوں ہوں وہ کھربوں بنانے کیلئے اس میں کودتے ہیں، ظاہر ہےکوئی مخلص دانشمند تو سیاست نہیں کر سکتا، یہی وجہ ہے کہ ملک جہاں 76برس پہلے کھڑا تھا اب بھی وہیں ہے، ملک پر قرضوں کا بوجھ اسلئے لاد دیا گیا کہ عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضے ملکی ترقی پر خرچ کرنے کے بجائے اہل سیاست کے اربوں کھربوں میں بدلنے پر خرچ ہوئے، ترقیاتی کام کیونکر ہوتے، 8 فروری کا دن اب ہم سے زیادہ دور نہیں ، جو آثار نظر آ رہے ہیں ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دن بھی خدانخواستہ ہماری امیدوں کے دیئے بجھا دے گا، تمام پارٹیوں کو ذرا خود قریب سے دیکھیں تو ایک ہی پارٹی لگتی ہیں، کیونکہ سب ارباب سیاست کا حقیقی منشور ایک ہے جس میں تبدیلی کا ہمیں ایک زمانے سے انتظار ہے وہ تبدیلی ہر الیکشن کے دوران تبدیل ہو جاتی ہے۔ کرپشن، اقربا پروری، موروثی سیاست اور سفارش نے حقداروں کو لوٹ کھایا ہے اب دعا کریں کہ آنے والے انتخابات کچھ اچھا لائیں، کہ امید پر ہیں ہم بڑے عرصے سے سراپا انتظار ۔

٭٭٭٭

سب لاڈلوں نے مل کر بھٹہ بٹھایا

جن کو کروڑوں عوام من و سلویٰ مہیا کریں وہ طبقہ لاڈلا بلکہ انوکھا کیوں نہ ہو، ایلیٹ کلاس کی سرخ ڈولی ہر دور میں قوم کے کاندھوں کا بوجھ رہی، قیادتوں کے اسٹاک کو دیکھا جائے تو راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری، خدا جانے یہاں محمد بخش سیف الملوک والے نے کس کے بارے کہا تھا مگر ہم تو اسے اپنے حکمرانوں پر فٹ دیکھتے ہیں اور محکوموں کی حالت زار کا نقشہ بھی صاف نظر آتا ہے، ان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں

بس اساں دا وس نی چلدا کیہ تساں دا کھونا

لِسے دا کیہ زور محمد تے نس جانا یا رونا

ڈاہڈے طبقے کے ہاتھ میں سارا اختیار ہے اور لِسی قوم بیچاری کروٹ کروٹ بیزار ماہی ٔبے آب کی طرح تڑپ رہی ہے، ہم نے بھی کیا خوب قسمت پائی کہ قائد و اقبال پا کر بھی آفاقی مقاصد نہ پا سکے، لاڈلا کوئی ایک نہیں ساری ایلیٹ درجہ بدرجہ لاڈلی ہے، لاڈلے تو خدمت مانگتے ہیں بھلا وہ خدمت ِ خلق کیسے کر سکتے ہیں۔ اب تو ہم من حیث القوم اتنے جانے پہچانے ہیں، کرتوت بیان کر دیں نام لینے کی ضرورت ہی نہیں۔ جو قوم کی کمائی کھائیں اور قوم بھی اسے اعزاز سمجھے تو پھر یہ وطن لاڈلاں لاڈلوں کی منڈی کیوں نہ بنے، عیش کے لئے باہر کے عیش کدوں کا رخ کریں اور کمانے کے لئے وطن کی راہ لیں، پاکستان خوش قسمت ہے خوشحال نہیں، یہاں غلامی کے درس دیئے گئے، بندۂ آزاد ایک بھی ہو تو نہ لاڈلے اُگتے ہیں، نہ لاڈ پیار لٹیا ڈبوتا ہے جب تک ہم طبقہ مفلساں امراء کو جھولا جھلاتے رہیں گے ان کی زندگی سرِ دار گزرے گی۔

٭٭٭٭

اسلام آن لائوڈ اسپیکر

اذان، خطبہ آن لائوڈ اسپیکر سے بڑھتے بڑھتے پورا اسلام آن لائوڈ اسپیکر ہو گیا۔ حالانکہ اللہ سینوں میں چھپی باتیں بھی سن لیتا ہے، کیونکہ وہ سمیع علیم ہے ،اللہ بخشے طارق عزیز کو وہ اپنے ٹی وی شو کا آغاز اس طرح کرتے تھے شروع اُس کے نام سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔ لائوڈ سپیکر کے استعمال کی ایک ارتقائی داستان ہے ایک زمانہ تھا کہ برصغیر کے علماء دین نے لائوڈ سپیکر کے استعمال کو حرام قرار دے کر باقاعدہ فتویٰ جاری کر دیا تھا، پھر یہ ہوا کہ علماء دین کی سوچ میں یکایک تبدیلی آئی اور ہر مسجد کے مینار پر جتنے لائوڈ سپیکر سما سکتے تھے لگا دیئے گئے، اذان اور خطبہ کی حد تک لائوڈ سپیکر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن ہر مسجد میں خطیبوں کا سارے شہر کو تقریر سنانے کا طریقہ درست نہیں، جمعہ کے روز کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی درود و سلام ایک عبادت ہے ،اسے لائوڈ سپیکر پر نشر کرنا اپنی عبادت کو زائل کرنے کے مترادف ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ایک وقت آئے گا کہ ریا کاری عام ہو گی۔ مسجد میں تقریر مسجد میں موجود افراد کیلئے ہوتی ہے سارے شہر کے لوگوں کیلئےنہیں ہوتی، تقریر دھیمے آواز والے سائونڈ باکس سے بھی مسجد کے احاطے میں موجود لوگوں تک پہنچائی جا سکتی ہے، اس وقت صرف ایک شہر میں اتنی مساجد ہیں کہ سارا شہر تقاریر سے مساجد کے اندر ہی مستفید ہو سکتا ہے۔ مسجد میں عبادات بھی لائوڈ سپیکرپر سنائی جائیںگی تو ریاکاری واقعتاً عام ہو گی، لائوڈ سپیکر ایکٹ موجود ہے، اگر عدلیہ سوموٹو نوٹس لے تو عوام کے کانوں کے پردے محفوظ کئے جا سکتے ہیں، دنیا بھر میں کسی مذہب کی عبادت گاہوں میں لائوڈ سپیکر سرے سے موجود ہی نہیں ہوتے۔

٭٭٭٭

175پہلوان اور غیر ہموار اکھاڑا

الیکشن کمیشن نے رجسٹرڈ 175سیاسی جماعتوں کی فہرست جاری کر دی، جو ممالک آج خوشحال ہیں، طاقتور ہیں ان کے ہاں آمنے سامنے فقط دو جماعتیں ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ بھاری اکثریت سے ایک سیاسی جماعت برسراقتدار آ جاتی ہے، یہی مستحکم حکومت ہی ان کے عروج کی چابی ہے، 175کو 2پر تقسیم کرنے سے ہی ایک گلدستہ مختلف پارٹیوں کا اقتدار سنبھالے گا اور ایک گلدستہ حزب اختلاف کے نام سے دوسرے نمبر پر گویا اقتدار کے آس پاس ہو گا، کہئے اس انداز حکمرانی کے پائوں تلے جمہوریت کا عالم کیا ہو گا، حکمرانی بادی النظر میں 175پارٹیوں کی ہی ہو گی۔

٭شیخ رشید کہتے ہیں، عمران خان کیلئے چلہ کاٹا وہ میرے حلقے میں اپنا امیدوار نہیں کھڑا کرینگے۔ کیونکہ میں اصلی، نسلی ہوں۔

یہ شیخ رشید ہمیشہ دو طاقتوں کے درمیان کی ایک پارٹی کے مالک ہیں، عقلمند لوگ ان کو سنجیدگی سے لیتے، کیونکہ یہ بازارِ سیاست میں ٹلی بجا کر لچھے بیچتے ہیں۔

٭چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر:ہمارے کاغذات نامزدگی چھینے جا رہے ہیں، امیدواروں کو میدان میں اترنے نہیں دیا جا رہا۔

بانی نے چیئرمین کو جنم دیا اب یہ بیرسٹر صاحب، بانی کے اقدامات کو کہاں تک تحفظ دینگے، بہرحال چیئرمین نے ایک بزدار کو چیئرمین اور خود کو بانی بنا دیا، ان کی سیاست کی کوئی کل سیدھی نہیں۔

٭٭٭٭

تازہ ترین