• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جولائی میں پی ٹی آئی کے حامیوں سے پوچھا گیا تھا کہ اگر عمران خان پارٹی چیئرمین نہ رہیں مگر تحریکِ انصاف پھر بھی الیکشن میں حصہ لے تو کیا آپ ووٹ ڈالیں گے؟ 63فیصد نے کہا : جی نہیں ۔ تناظر یہ تھا کہ عمران خان کو اگر پارٹی سے مائنس کر دیا جائے۔ اب اگر عمران خان نے خود نیا پارٹی چیئرمین بنا یا اور وہ خود کہہ رہے ہیں کہ اسے ووٹ ڈالو تو کیوں پی ٹی آئی والے وو ٹ نہ ڈالیں گے ۔یہ تو کامن سینس کی بات ہے ، انسان اگر متعصب نہ ہو تو۔

اسی طرح ایک تجزیہ چھپا ہے کہ پیپلزپارٹی سے بھی 77ء میں تلوار کا نشان چھین لیاگیا ۔88ءمیں تیر کے نشان پر الیکشن جیت لیا۔دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ الیکشن سے ایک ڈیڑھ مہینے پہلے نشان چھن جانے کا مطلب بالکل مختلف ہے ۔مناسب وقت پر ایک نیا نشان مل جائے اور پارٹی اس کی تشہیر کرکے نئے نشان پہ متحد ہو کر لڑے تو جیت سکتی ہے ۔ ایک ڈیڑھ مہینہ پہلے نشان چھننے کا مطلب ہےمخصوص نشستوں سے محرومی ۔ امیدواروں کو اگر آزادیا مختلف نشانات پہ الیکشن لڑنا پڑیں تو اس کا مطلب مکمل تباہی ہے ۔ایسے تجزیہ کاروں کو میرا سلام۔ تحریکِ انصاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرے گی ۔اس کے لیڈر کہتے ہیںکہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے ہمیں انصاف ملنے کی کوئی امید نہیں ۔

کہا جاتا ہے کہ Justice delayed, Justice denied۔ تاخیر سے انصاف کا مطلب ،انصاف سے انکار ۔بھٹو صاحب کو اب قبر میں انصاف فراہم کرنے پہ کام ہو رہا ہے ۔ بھٹو کا صدارتی ریفرنس غالباً 2012ء میں صدر زرداری نے بھیجا تھا ۔ اس وقت بھی بڑی لے دے ہوئی تھی کہ عوام بھوکے مر رہے ہیں ،حکمران تماشوں میں مصروف ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے احکامات پہ بھٹو ریفرنس کی کارروائی لائیو نشر کی جا رہی ہے ۔

سب مانتے ہیں کہ بھٹو کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔ جس قتل میں انہیں پھانسی چڑھایا گیا، اس میں شواہد ناکافی تھے ۔گو کہ احمد رضا قصوری کے بھٹو دشمن ہو چکے تھے ۔ گواہ مگر سرکاری اہتمام سے لائے گئے ۔بھٹو خود اپنی پارٹی کے کئی لیڈروں پہ انتقام کی دیوی بن کے ٹوٹے تھے ۔اس کے باوجود اگر منصفانہ سماعت ہوتی تو ناکافی شواہد کی بنیاد پر وہ بری ہو جاتے ۔ سب مان چکے کہ سزا غلط تھی ۔ اب صرف یہ کسر رہ گئی کہ بھٹو کی قبر پہ جا کر قوم سجدہ ریز ہو جائے۔

غیر منصفانہ پھانسی ہی کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو دو بار برسرِ اقتدار آئیں ۔ بے نظیر قتل کر دی گئیں تو زرداری صاحب ۔ یہ ہوتاہے کسی مقبول لیڈر کو قتل کرنے کا نتیجہ ۔ ایک شخص دنیا سے اٹھ چکا ۔ اسے قبر میں وہ انصاف مل چکا ، جو دنیا میں قاضی نے دینے سے انکار کیا تھا ۔اس قتل کے نتیجے میں اس کی نسل بار بار اقتدار میں آرہی ہے ۔ باقی انصاف روزِ محشر اللہ دے گا ۔ آپ اس پر اعتبار کر لیں ۔ پھر بھی اگر آپ نے مردوں کو انصاف دے کر چھوڑنا ہے تو کم از کم پہلے زندوں کی تو خبر لیں ۔

اگر ایک شخص کو اس کی زندگی میں انصاف نہیں مل سکا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ Justice delayed, Justice denied رونما ہو چکا۔ کسی جج کا ہتھوڑا ، قبر میں پڑی لاش کو راحت نہیں بخش سکتا ۔ ہاں البتہ اگر اپنی تاریخی غلطی کو سدھارنا مقصود ہے تو بیان جاری کیا جا سکتاہے کہ یہ پھانسی غلط تھی۔ اگر آپ انصاف کی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں تو پھر پھانسی دینے والوں اور دلوانے والوں کو پھانسی کے پھندے پہ لٹکائیں ۔ ان کی لاشوں کو لٹکائیں ۔ہے کسی میں اتنا دم۔

ایک معروف تجزیہ کار نے ٹویٹ کیا ہے ۔ پچاس سال پرانے کیسز میں آپ آج انصاف کر رہے ہیں۔ آج جو لوگ بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ ہیں ، انہیں نظر اندازکرر ہے ہیں ۔ یہ نہ ہو کہ بیس سال بعد آپ کو اپنے فیصلوں پہ بھی نظرِ ثانی کرنی پڑے ۔

ہماری قومی سیاست کا کل نقشہ اب یہ ہے کہ مقتدر حلقے جسے اقتدارمیں لانا چاہیں گے، وہ اقتدار میں آئے گا اور جسے نکالنا چاہیں گے ، وہ تشریف لے جائے ۔ اگر کوئی مزاحمت کرے گا تو انجام عمران خان والا ہوگا ۔جج صاحبان کی آنکھوں کے سامنے وہ بدترین انتقام کا نشانہ ہے اور وہ بھٹو کیس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس کی پارٹی کے بڑے بڑے لیڈر اسے صرف خیر باد ہی نہیں کہہ رہے بلکہ جاتے ہوئے اس کے خلاف خطبہ بھی دے رہے ہیں ۔ ایک ایک مہینہ لاپتہ رہ کر لوگ پریس کانفرنس کر رہے ہیں ۔ عمران خان کے معاشقے ، شادی ، عدت اور ذاتی زندگی زیرِ بحث ہے ۔ جنرلسٹ ، جج، بیوروکریٹ اور جنرلز کیا فرشتے ہیں ؟

عثمان ڈار اور اس کی والدہ کامعاملہ مکمل وضاحت کرتا ہے ۔اینکر کو ساتھ ملا کر کیسے اسے ٹی وی پر بٹھایا گیا ۔ اس کے باوجود انصاف کے لیے آپ کو ایک قبر ہی ملی ہے ۔ ستر فیصد تائید تحریکِ انصاف کی ہے اور وہ جبر کا نشانہ ہے۔ بلے کا نشان چھین لیا گیا ۔ لیڈر گرفتار ہیں ۔ الیکشن منعقد ہونے سے پہلے ہی دھاندلی زدہ ہو چکے ۔اس برائے نام الیکشن کو مانے گا کون جو عالمی اداروں کو دکھانےکیلئے منعقد کیا جا رہا ہے ۔پریس کانفرنس کردینے والے تمام گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں ۔

زندوں کو طاقتوروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیاجائے ، مردوں کو انصاف فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا جائے تو صرف اتنا ہی کہا جا سکتاہے Justice Delayed, Justice Denied۔ شجاعت تویہ ہے کہ زندہ قہرمانو ںکے روبرو انصاف قائم کیا جائے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مگر کچھ امید ہے ، جنہوں نے فیض آباد دھرنا کیس میں حق لکھا تھا۔

تازہ ترین