• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمی نہیں جانے وہ خود بھی یہ کیوں سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ محض ایک فرد ہے جبکہ حقیقت میں وہ ایک سسٹم ہے۔ سسٹم کو اپ ڈیٹ ہوتے رہنا چاہئے، اور کسی بھی ریاست کو اگر ترقی یا منزل مطلوب و مقصودہے تو اسے اپنا ہر ہر سسٹم اپ ڈیٹ کرتے بھی رہنا چاہئے۔ جائزہ ، پھر میک اپ، یہی وہ حقائق ہیں جن سے کنی کترانا اس تیز رو اور تیز دھار پر چلتی زندگی کیلئے ممکن نہیں رہا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں تند نہیں تانی بگڑی ہو، جمہوریت مغلوب اور "سرکارِ عالیہ" غالب ہو وہاں بناؤ اور جمہوری رویوں کے پروان چڑھنے کیلئے کون سا مَنتر یا فارمولا درکار ہوگا، اور وہ کون سی چیز ہے جو قوم اور پیراڈائم شفٹ کا درمیانی فاصلہ کم کر سکتی ہے؟

اس سے قبل کہ میں اپنے اصلی مدعا اور دعا پر آؤں، قائدِ اعظم محمد علی جناح اور محترمہ بےنظیر بھٹو پر کچھ قلم بند کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ دسمبر کا آخری ہفتہ ان کے تذکروں اور محبتوں سے بھرا ہوتا ہے۔ تاریخ کہتی ہے تاریخ دان اسٹینلے والپرٹ ایک میرین انجینئر تھا، جب نیا نیا پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور بھارت اپنی جگہ بنا تو اس نےہندوستان کے ساحل پر قدم رکھا، اور دیکھتا ہے گاندھی کی وفات پر کثیر تعداد میں لوگ غم میں نڈھال ہیں اور آخری رسومات میں اتنی بڑی شرکت۔ اس موقع پر اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کا علم تو گاندھی جی کے حوالے سے بہت سطحی ہے۔ واپس جاتا ہے، تاریخ میں دلچسپی ہی نہیں لیتا بلکہ انجینئر سے بڑا تاریخ دان بن جاتا ہے، وہ بھی مستند۔ 1959 میں یونیورسٹی آف پنسلوانیا سے"تلک اینڈ گوکھلے" پر پی ایچ ڈی کرتا ہے بعد ازاں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں پڑھانا شروع کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا اسٹینلے والبرٹ کی ریسرچ کا مرکز تھا، معروف تاریخ کے علاوہ ناول اور افسانے بھی لکھے۔ قائدِ اعظم، گاندھی اور نہرو کے علاوہ بےنظیر بھٹو کے والدِ محترم ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی اثرات پر بھی لکھا۔ جناح کے حوالے سے کہا:

’’ 1۔ چند ہی شخصیات ہوتی ہیں جو تاریخ کا دھارا تبدیل کر دیں۔ 2۔مُٹھی بھر ہوتے ہیں، جو دنیا کا نقشہ بدل دیں۔ 3۔اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں جنہیں قومی ریاست تشکیل دینے کا اعزاز حاصل ہو، مگر جناح نے یہ تینوں عمل سرانجام دئیے‘‘۔ قائدِ اعظم بیک وقت بین الاقوامی اور قومی سسٹم تھے، اسی طرح بھٹو بھی ایک سسٹم تھا جس نے آئین دیا ،جوہری توانائی کی بنیاد دی جو بعد میں تاریخ بنی، ایسا ہی معاملہ بےنظیر بھٹو کا تھا جو ایک قومی مثال ہے جب وہ امت مسلمہ کی پہلی خاتون وزیراعظم بنی تو اس نے تاریخی دھارے موڑ دئیے اور 1988 اینٹی اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم بنیں، وہ ایک پورا ادارہ تھیں جب تک زندہ رہیں ایک پورا سسٹم تھیں،جس نے میثاقِ جمہوریت تک تراشنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی سسٹم کو آصف علی زرداری نے آگے بڑھایا اور آئین ہی نہیں پارلیمان کو بھی قوت بخشی!

’’فرد نہیں ایک سسٹم ہے‘‘کا خیال تین چار دن قبل ایک تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی سیشن میں ذہن میں آیا ، اس کانفرنس میں اس تحقیق و تفتیش و جستجو کی تحقیق اور گفت و شنید تھی جس میں ٹیچر ایجوکیشن کے ازسر نو ڈھانچہ پر غور تھا تاکہ مستقبل کے ٹیچر اور طلبہ اس سے استفادہ کر سکیں۔ اور میرا آج کا موضوع وہ لیڈرشپ ہے، جسے ہم استاد کہتے ہیں۔

جب تک ہم اور ہمارا ٹیچر اس ادراک سے مالا مال نہیں ہوگا کہ ٹیچر ایک سسٹم ہے جو خواب دکھاتا ہے اور پھر اس کی تعبیر کی راہ بتاتا ہے، یہی نہیں ایک جائزہ کے بعد میک اپ کا تعین بھی کرتا ہے۔ بہرحال استاد جب تک معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اور معاشرت کی روح کی تقویت نہیں بنے گا تب تک پاکستان میں پیراڈائم شفٹ ممکن نہیں۔ انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، جامعہ پنجاب میں بیس کے قریب بین الاقومی محققین اور کثیر تعداد میں قومی محققین نے ٹیچر ایجوکیشن پر بات کی ، کنٹینٹ سے کریکولم تک، کانسیپٹ سے کنٹیکسٹ تک بھی احاطہ تھا، ٹرانزیشن سے ڈیولپمنٹ، مینجمنٹ سے اسیسمنٹ بھی زیر بحث آئے ، اسی طرح ایک استاد کے موثر اور معتبر ہونے کیلئے اس کے والدین، کمیونٹی اور متعلقہ اداروں سے ربط پر بات ہوئی، اور محققین نے ثابت کیا کہ ٹیچر ایجوکیشن کیلئے یہ سب ضروری ہے۔ اس میں شک نہیں کہ استاد کو استاد کی اپنی ٹریننگ، علوم، نظریہ، تنقید نگاری، فکری زاویے اور کمٹمنٹ ہی سوشل سائنٹسٹ اور سوشل انجینئر کے علاوہ معمار بناتی ہے۔

اقتصادی امور، سیاسی معاملات، خارجی پالیسیوں، داخلی چیلنجز، شعر و ادب، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور آئینی امور تک میں استاد نہیں بولے گا تو کون بولے گا؟ اگر استاد ان متذکرہ چیزوں میں نہیں بول رہا تو اسے بولنا ہو گا کیونکہ ٹیچر ایک عشق ہے فلرٹ نہیں۔ کوئی تدریس سے منسلک ہے یا تحقیق سے اسکا فرض ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے، ہر تحقیق راکٹ سائنس نہیں ہوتی مگر ہر استاد اپنی جگہ ایک سائنسدان بہرحال ہے جسے اپنی فیلڈ کا راکٹ تراشنا ہو گا۔ ورنہ بات بنے گی نہ مقاصد کا حصول ہی ممکن ہے! یہ تو طے ہے کہ اگر آتشِ شوق نہیں تو وہ استاد ہے نہ معمار، بہرحال اس کانفرنس میں رئیس جامعہ ڈاکٹر خالد محمود، ڈاکٹر عابد شیروانی، ڈاکٹر طارق محمود کے سنگ ڈاکٹر شاہد فاروق چوہدری کی میزبانی میں بیٹھا میں انہی خیالوں میںگھرا رہا کہ اگر پانچ فیصد استاد اور پانچ فیصد سیاسی لیڈر اپنے قول و فعل میں تضاد نہ رکھیں تو اپنے حقیقی مقام اور مطلوبہ ترقی تک پہنچ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں فصاحت و بلاغت اور تعلیم و ہنر کی کمی ہرگز نہیں، دیکھنا یہ ہوگا کہ ہم برین ڈرین روک کیسے سکتے ہیں یا اسے اپنا گلوبل ویلج کا انمول اثاثہ کیسے بنا سکتے ہیں؟

المختصر، معاشرے یا صحت مند زندہ معاشرے کی طرح یونیورسٹیوں کی بنیاد ہی جمہوریت پر ہے وہ سینٹ ہو، سنڈیکیٹ، سلیکشن بورڈ ہو یا اکیڈمک کونسل، اور ضروری ہے ان کی جمہوریت کی خوشبو ، اثرات اور ترقیات و تفہیمات کی پالیسیاں نفوذ پذیر نہ ہوں، بات ابھی جاری ہے لیکن آج اتنا ہی سوچتے ہیں کہ واقعی وہ محض فرد نہیں ایک سسٹم ہے جو بین الاقوامی و قومی سسٹم (لیڈر شپ) کی راہیں ہموار کرتا ہے؟

تازہ ترین