• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایجادات کی دنیا کو مزید وسیع کرنے کے لیے 2023 ء میں جدت سے بھر پور ستارے چمکے ،کیوں کہ اس برس بھی دنیا بھر میں علم وحکمت،دریافتوں اور ایجادات کی دوڑ بہت تیزی سے جاری رہی ۔تحقیق ،ایجادات ہر ملک کی ترقی کے بنیادی عناصر ہیں ۔ان کے بغیر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا مشکل ہے، چناں چہ مختلف ماہرین اور سائنس دانوں نے2023 ء میں متعدد ایجادات اور دریافتیں منظرِعام پر پیش کیں۔

ماہرین نے گزشتہ برس کاربن ڈائی آکسائیڈ جاذب کرنے والی لکڑی ،فضائی آلودگی ناپنے والا آلہ،بیکٹیریا تلف کرنے والافوم ،جیپ میں سما جانے والا اڑن کیمرہ اور بہت کچھ تیار کیا ۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایجادات کسی بھی ملک کا نقشہ بدلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں تو غلط نہیں ہو گا ۔2023 ء میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں مزید کیا کیا ہوا ،اس کا اندازہ آپ کو ایجادات کی جائزہ رپورٹ پڑھ کر ہو جائے گا ۔

پاوربینک اور سیکیورٹی کیمرہ ایک ساتھ

2023 ء میں ایک نجی کمپنی نے طاقت ور پاور بینک ایجاد کیا اور ساتھ ہی اس میں1080 ریزولوشن کا کیمرہ نصب ہے جسے گھریلو حفاظت کے لیےاستعمال کیا جاسکتا ہے ۔اس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس پاور بینک کی قوت 22000 ایم اے ایچ ہے اور آؤ ٹ پٹ 197 واٹ ہے ۔اس میں سائونڈ ریکارڈ ہے اور نائٹ وژن کے ساتھ ہائی ریزولوشن ویڈیو کیمرہ بھی ہے جو براہِ راست آپ کے فون پر ویڈیو اور آڈیو ریلیز کرسکتا ہے۔ 

اندرونی طور پر 64 جی بی کی لوکل اسٹوریج موجود ہے جب کہ یہ سامنے ہلکی سی حرکت کو بھی نوٹ کرسکتا ہے۔ اتنے سارے خواص کے باوجود اس کا وزن بہت کم ہے اور ہاتھوں میں آسانی سے سماسکتا ہے۔ کیمرہ کسی بھی رخ پر ہو یہ 135 درجے کا منظر دکھاتا ہے اور اپنی اسمارٹ ایپ پر نشر کرتاہے۔ اس کوگھر کی چوکیداری ، بچوں کی حفاظت اور گاڑی وغیرہ میں اسے رکھا جاسکتا ہے۔اس کی خاصیت یہ ہے کہ اسے استعمال کرنے کے لیے کسی اضافی تار کی ضرورت نہیں ہوتی۔پاور بینک موبائل فونز کو تقریباً 70 مرتبہ چارج کرسکتا ہے ۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والی انجینئرڈ لکڑی

گزشتہ سال رائس یونیو رسٹی کےماہرین نے عمارت تیار کرنے کے لیے پائیدار اور ماحول دوست میٹرئیل تیار کیا ہے ۔یہ لکڑی نہ صرف گھر اور بلڈنگ کے لیے مفید ہوگی بلکہ کا ربن ڈائی آکسائیڈ بھی جذب کرے گی ۔اس میں ایسے ذرّات ڈالے گئے ہیں جو در حقیقت’ ’میٹل آرگینک فریم ورکس(ایم او ایف ایس)‘‘ سے بنے ہیں۔ اس کے لیے لکڑی کے اندرپہلے سے موجود بنیادی ساخت کو نکال باہر کیا گیا ہے۔

لکڑی عموماً تین اشیا سے بنتی ہے جن میں سیلیولیوز، ہیمی سیلیولوز اور لائگنِن ہوتا ہے۔ لائگنن کو نکالنے کے بعد اس میں ایم او ایف شامل کیا گیا ۔ جب اسے لکڑی میں ملایا گیا تو حیرت انگیز طور پر وہ عام لکڑی سے بھی مضبوط ہوگئی اور اس نے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھی جذب کرنا شروع کردیا۔اس طرح انجینئرڈ طور پر تیارشدہ لکڑی نہ صرف پہلے سے مضبوط ہوگئی بلکہ وہ کاربن جذب کرنے والی ماحول دوست شےبھی بن گئی ہے۔

سورج کے حجم سے 30 ارب گُنا بڑا بلیک ہول دریافت

برطانوی ماہرینِ فلکیات نےگزشتہ سال سورج کے حجم سے 30ارب گنا بڑابلیک ہول دریافت کیا ہے، اب تک جتنے بھی بلیک ہول دریافت کیے گئے ہیں یہ ان میں سب سے بڑا ہے ۔اس کا وجود ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں موجود سیگیٹیریس Aسے 8000 گنا بڑا ہے ۔یہ دریافت گریویٹیشنل لینسنگ کے مظہر کے سبب ممکن ہوئی ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس تیکنیک سے کوئی بلیک ہول دریافت کیا گیا ہو۔ 

گریویٹیشنل لینسنگ کا معاملہ تب وقوع پذیر ہوتا ہے جب آگے موجود کہکشاں اپنی پشت پر موجود دور دراز اجرامِ فلکی سے آنے والی روشنیوں کو موڑ تی اور بڑا کر دیتی ہے۔ اس تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ڈرہم یونیورسٹی کے محققین نے کہکشاں کے مرکز میں زمین سے کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر موجود دیو ہیکل بلیک ہول کا قریب سے مشاہدہ کیا۔

دو ارب نوری سال دور کا سب سے روشن خلائی دھماکہ 

2023 ء میںزمین سے دو ارب نوری سال دور کا سب سے روشن دھماکہ ہوا۔اس کے نتیجے میں انتہائی شدید نوعیت کی شعائیں خارج ہوئیں جنہوں نے پورے نظامِ شمسی کو لپیٹ میں لیتے ہوئے متعدد خلائی کرافٹ میں نصب آلات کو بھی متاثر کیا۔گیما شعاؤں کی بوچھاڑ کا اس قسم کا وقوعہ کائنات میں طاقتور ترین اور روشن ترین دھماکوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔

اس دھماکے کو  GRB 221009A کا نام دیا گیا ہے ۔7000 ہزار گیما شعاؤں کی بوچھاڑوں کے تجزیے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ GRB 221009A اب تک کے مشاہدہ کیے گئے دھماکوں میں سب سے زیادہ روشن تھا ۔ اس کی بوچھاڑ چند سیکنڈ وں تک جاری رہی ۔ اس دورانیے میں ہمارے سورج کے مقابلے میں کئی گناہ توانائی خارج ہوئی ۔

تیل جذب کرنے اور بیکٹیریا تلف کرنے والا فوم

جارجیا یونیورسٹی کے سائنس دانوں نےگزشتہ سال ایک ایسا فوم تیار کیا جو ایک جانب سے ماحول آلودہ تیل جاذب کرسکتا ہے اور دوسری جانب طبی آلات اور آپریشن کے دوران بیکٹیریا بھی جذب کرسکتا ہے۔اسے ’’سپرفوم‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ فون سہ ابعادی ہے اور پولی دائی میتھائل سائلوکسین( پی ڈی ایم ایس) کے تانے بانے سے وضع کیا گیا ہے۔ 

 اس پر گرافین کے چھوٹے ذرّات ڈالے گئے ہیں، جب کہ تانبے کا برادہ رکھا گیا ہے جو جراثیم دور کرنے میں کار آمد ثابت ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فوم دیگر آلودہ مائعات یعنی کلوروفارم، ہائیڈوروکلورک ایسڈ اور دیگر مضر آلودگیوں کو جذب کرتا ہے، پھر تانبے کے نینوذرّات اسے مکمل طور پر جراثیم کُش بناتے ہیں۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کشید کرنے والا نمک

گزشتہ سال کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کشید کرنے کے لیے سائنس دانوں نے ایک نمک تیار کیا جو معمولی توانائی استعمال کرتے ہوئے محیط دباؤ اور درجہ ٔ حرارت میں کا ربن ڈائی آکسائیڈ کوذخیرہ کرسکتا ہے ۔اس کو ماہرین نے ’’گونیڈینیم سلفیٹ ‘‘کا نام دیا ہے ۔یہ طریقہ کار انڈسٹری میں اس گرین ہاؤس گیس کو کشید کرنے، دوسری جگہ منتقل کرنے اور ذخیرہ کرنے کے طریقے کو بدل سکتا ہے۔مائع گونیڈینیم سلفیٹ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ برقی چارج گزارا تو صورتوں میں سنگل کرسٹلین گونیڈینیم سلفیٹ پر مبنی کلیتھریٹ نمک تیار ہوا،کیوں کہ محلول کو کاربن ڈآئی آکسائیڈ سے مضبوط بونڈ بنائے بغیر ڈھکا ہوا تھا۔

چمکدار شے کو کیمرہ بنانے والا کمپیوٹر وژن نظام

2023 ء میں ماہرین نے کمرے میں رکھی روشن اور چمکیلی اشیا کے انعکاس سے تصاویر لینے والا ایک کمپیو ٹر وژن سسٹم تیار کیا ۔میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) اور رائس یونیورسٹی نے مشترکہ طور پر یہ کمپیوٹر وژن سسٹم بنایا ہے۔ اس طرح کسی بھی ایسی چیز کو کیمرہ بنایا جاسکتا ہے جو تھوڑی بہت چمکتی ہو ،جس میں دھات سے لے کر پلاسٹک تک شامل ہوس۔ یہ نظام معمولی انعکاس والی اشیا کو بھی ڈجیٹل سینسر میں بدل سکتا ہے۔ اس طرح اطراف میں جذب ہونے اور منعکس ہونے والی دمک سے بھی تصویر کشی ممکن ہوسکتی ہے۔

اس کمپیوٹر وژن سے ہر ایک زاویئے اور جیومیٹری کو بھی دیکھا جاسکتا ہے اور یوں وہ سب کو ملاکر ایک تصویر بناتا ہے۔ کسی شے کے دوجہتی (تھری ڈی) عکس کو کئی جہتی ماحول میں رکھ کر اس کی سہ جہتی تصویر بناتے ہیں اور یوں صرف عکس سے ہی تصویر لی جاسکتی ہے۔یہ کام تین مراحل میں ہوتا ہے جسے ’’آبجیکٹس سچ ایزریڈیئنس فیلڈ کیمراز‘‘کا کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں سے سے پہلے چمکنے والی شے کی کئی زاویوں سے تصویر لی جاتی ہے۔ اس کے بعد تصویر میں گہرائی ناپی جاتی ہے۔ بعدازاں کمپیوٹرالگورتھم وہ تصویر بناتا ہے۔ یوں انعکاس کرنے والی سطحوں کو کیمرے کے مجازی سینسر میں بدلا جاسکتا ہے ۔ کمپیوٹروژن سسٹم کےذریعے اطراف ، کونوں اور چھپے ہوئے گوشوں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

دو جہتی مائیکروچِپ

سعودی عرب میں قائم کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ ڈاکٹر ماریو لینزا اور ان کے ساتھیوں نے 2023 ء ،میں دنیا کی پہلی دوجہتی (ٹوڈائمینشنل) مائیکروچِپ بنائی ہے۔ یہ چپ کم توانائی پر بلند معیار کا کام کرتی ہے۔ 2004 میں گریفائٹ کی باریک ترین تہہ، گرافین کی دریافت کی وجہ سے ہی اس چپ کی تیاری ممکن ہوئی تھی۔ اسے قابلِ عمل بنانا بھی ایک چیلنج تھا۔ سلیکون پرمبنی ’’کمپلیمنٹری میٹل آکسائیڈ سیمی کنڈکٹر‘ ‘(سی ایم او ایس) سرکٹ کو پہلے ایک بنیاد کے طورپراستعمال کیا گیا۔ 

اس کے بعد ششہ جہتی (ہیگزاگونل) بورون نائٹریٹ سے ٹوڈی مٹیرئیل تیار کیا جو تانبے کے انتہائی باریک ورق پر کاڑھا گیا تھا، پھر اسے احتیاط سے سی ایم او ایس سرکٹ پر ڈالا گیا، الیکٹروڈ بنائے گئے اور فوٹولیتھوگرافی سے سرکٹ بنایا گیا۔ یوں ایسے خانے (سیل) بنے جو ایک ٹرانسسٹر اور ایک میمرسٹرپرمشتمل تھے۔دوجہتی بورون نائٹریٹ تہہ کی موٹائی صرف 18 ایٹم یا 6 نینومیٹر کے برابر تھی۔ ان سے کرنٹ گزارا گیا جو کنٹرول میں تھا، پھر ٹوڈی چپ کو طویل عرصے تک پرکھا گیا تو اس نے بہترین کارکردگی دکھائی۔

جیب میں سماجانے والا اڑن کیمرہ

2023ء میں سائنس دانوں نے اڑن کیمرہ تیار کیا جو جیب میں سماسکتا ہے ۔اس کا وزن 125 گرام ہے اور پہلے سے پروگرام شدہ راہ پر چل کر بہت اچھی ویڈیو بناتا ہے۔ مٹھی میں سماجانے والا ’’ہوور کیمرہ ایکس ون‘‘ اڑنے میں تین سیکنڈ لگاتا ہے اور یوں کوئی لمحہ کیمرے کے آنکھ سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔ ویڈیو فوٹیج کو ایک نیا رخ دینے کے لیے اس میں فلائٹ کے پانچ راستے پہلے سے ہی پروگرام کئے جاسکتے ہیں جن میں سر کے اوپر(اوورہیڈ) کی پرواز، تعاقب، گول گھومنا یا آربٹ اور منڈلانے کے آپشن شامل ہیں۔

اپنے طاقتور کیمرے کی بدولت یہ سینما کوالٹی کی شاندار ویڈیو بناتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ ڈرون کیمرے کو اڑاناا اور قابو کرنا بہت ہی آسان ہے۔ اس میں ہوور پوزیشن میں یہ مسلسل ایک ہی مقام پر ٹھہر کر ویڈیو یا سیلفی بناتا ہے۔ دوسری جانب آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں اس کی رفتار 20 کلومیٹر فی گھنٹے تک ہوسکتی ہے۔ اس کا کمپیوٹر وژن الگورتھم اڑن کیمرے کو اپنی راہ سے بھٹکنے نہیں دیتا۔تیز ہوا میں ہموار رکھنے کے لیے اسٹیبلائزیشن کے کئی فیچر اس میں شامل ہیں ۔

کمرے میں ہوا کی آلودگی ختم کرنےوالا لیمپ

گزشتہ سال جنوبی کوریا کی یونسیائی یونیورسٹی کے ماہرین نے گھر کی اندرونی ہوا کوصاف رکھنے کے لیے برقی لیمپ پر لگائی جانے والی شیڈ تیار کی ہے جو کمرے میں ہوا کو آلودگی سے صاف کرتی ہے ۔ٹٹانئیم ڈائی آکسائیڈ اور پلاٹینم سے بنی لیمپ شیڈ کوٹنگ گھر کے اندر مضر کیمیائی بخارات تلف کرتی ہے۔ 

اگرچہ اس میں پلاٹینم کی مقدار کم ہے لیکن جیسے ہی گھر میں موجود کیمیائی اجزا اس سے ٹکراتے ہیں وہ تیزی سے ختم ہوتے رہتے ہیں یا غیرمضر اجزا میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس عمل میں بلب کی حرارت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بلب کی گرمی جب 100 درجے سینٹی گریڈ سے بڑھی تو ایسی ٹیل ڈی ہائیڈ گیس (ایک عام گھریلو آلودہ کیمیکل) کو ایسٹک ایسڈ میں بدل دیا اور اس عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی معمولی مقدار پیدا ہوئی۔

بجلی کے بغیر پرواز کرنے والا معلق ڈرون

جنوبی کوریا کے سائنسدانوں نے گزشتہ سال ایک مائیکرو ڈرون بنایا ہے جو روایتی ڈرون سے 150 درجے کم توانائی استعمال کرتا ہے، ہوا سے بجلی بناتا ہے اور یوں طویل عرصے معلق رہ سکتا ہے۔تمام خوبیوں کے باوجود ڈرون کی بجلی تیزی سے خرچ ہوتی ہے اور یوں انہیں طویل عرصے تک پرواز کے قابل نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کمی کے تحت کوریا ایڈوانسڈ انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے تجرباتی ہوائی سُرنگ (وِنڈ ٹنل) میں اس کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ 

ڈرون نے ہوا سے ہی بجلی بنائی اور بہت دیر تک فضا میں برقرار رہا۔یہ ہوا کی امواج میں معلق رہنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور توانائی کی بچت میں ایک اہم ایجاد بھی ہے۔ یہاں تک کہ معمولی بادِ نسیم سے بھی اپنا کام چلا لیتا ہے۔ اسے مائیکرو ایئر وھیکل (ایم اے وی) کا نام دیا گیا ہے۔اپنے سینسر اور الگورتھم کی بنا پر یہ ہوا کی لہروں میں تبدیلی نوٹ کرتا ہے اور اپنی پوزیشن بدلتا رہتا ہے۔ اس طرح کم سے کم توانائی خرچ کرکے کامیابی سے اڑسکتا ہے۔اس ڈرون ( ایم اے وی) کو تلاش اور بچاؤ، نگرانی اور کسی جگہ کی مسلسل فضائی چوکیداری کےلیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

مردار بیکٹیریا سے بجلی بنانے کا تجربہ

سوئٹرز لینڈ کے شہر لوزان میں قائم فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے گزشتہ سال مردار ای کولی بیکٹیریا سے بجلی بنانے کا کام یاب تجربہ کیا ہے۔ سائنس دانوں کی ٹیم نے ایکسٹرا سیلولر الیکٹرون ٹرانسفر (ای ای ٹی) نامی طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے بیکٹیریا میں رد و بدل کی، تاکہ ان کو انتہائی مؤثر برقی مائیکروب بنایا جاسکے۔

یہ عمل روایتی طریقہ کار کی نسبت برقی کرنٹ کی پیداوار میں تین گنا اضافہ کر تا ہے۔ اگرچہ قدرتی طور پر بجلی پیدا کرنے والے یہ غیر معمولی مائیکروب ایسا صرف مخصوص کیمیا کی موجودگی میں کر سکتے ہیں۔ ای کولی متعدد جگہوں پر بڑھ سکتے ہیں ،جس کا مطلب ہے کہ مختلف ماحول بشمول گندے پانی میں بجلی بنائی جاسکتی ہے۔

دھڑکنوں سے چارج ہونے والا پیس میکر

2023 ء میں سائنس دانوں نےایک ایسا پیس میکر بنایا ہے جو دل کی دھڑکنوں کواستعمال کرتے ہوئے اپنی بیٹری کو جزوی طور پر ری چارج کرسکتا ہے۔ اس کو بنانے کا مقصد تازہ برقی توانائی پیدا کرنا ہے۔ یہ آلہ ایک اور دل کی دھڑکن کو متحرک کرنے کے لیے درکار توانائی کا تقریباً 10 واں فی صد دوبارہ پیدا کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ پیس میکر ایک عام پیس میکر کے مقابلے میں بیٹری کی 6 سے 15 سالہ مدت کو بڑھا بھی دیتا ہے۔اس پیس میکر میں مکینیکل اور برقی توانائی آپس میں منسلک ہیں اور ان کا تبادلہ آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے، جس طرح الٹراساؤنڈ برقی وولٹیج کو دباؤ یا آواز میں تبدیل کرتا ہے۔

دماغ کو بغیر جسم فعال رکھنے والا آلہ

گزشتہ سال ماہرین نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو جسم کے بغیر دماغ کو زندہ اور فعال رکھ سکتا ہے۔ سائنس دانوں نے کمپیوٹرائزڈ الگورتھم کی مدد سے دماغ میں بلڈ پریشر، حجم، درجۂ حرارت اور مطلوبہ اجزاء کی طلب کو برقرار رکھا۔ نیورولوجسٹ کی ٹیم کے مطابق باقی جسم سے کسی قسم کا حیاتیاتی مداخل موصول نہ ہونے کے باوجود دماغ کی سرگرمی میں انتہائی معمولی سی تبدیلی آئی۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تجربے کی کامیابی جسم کے دیگر وظائف کی مدخلت کے بغیر انسانی دماغ کا مطالعہ کرنے کے لیے نئی راہیں کھول سکتی ہے۔ جب کہ اس ٹیکنالوجی سے مستقبل میں دماغ کے ٹرانسپلانٹ کے امکانات کی راہیں کھولنے کی اُمید پیدا ہوئی ہے۔ نیورولوجی کے پروفیسر ژواں پاسکل کے مطابق یہ نیا طریقہ کار ایسی تحقیق کو ممکن بناتا ہے، جس میں جسم سے آزاد دماغ پر توجہ ہو اور ان تمام عضویاتی سوالات کے جوابات ایسے حاصل کیے جائیں جیسے پہلے کبھی نہیں ہوا۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید