بیرون ملک مقیم پاکستانی کسی تقریب یا کھانے پر اکٹھے ہوں تو ان کی گفتگو کا محور ملازمتیں، بچوں کی تعلیم و تربیت ، گھروں کی قیمتیں اور پاکستان کے سیاسی حالات ہوتے ہیں جبکہ خواتین کا موضوع سخن کھانے پکانے کے طریقے، ڈیزائنرملبوسات اور پاکستانی ڈرامے ہوتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیتے ہیں چھٹی کے روز انہیں اسلامک سینٹرز دینی تعلیم اور باہمی میل جول کے لیے لے جاتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنی عملی زندگی کا آغاز کریں۔ یورپ ، امریکہ جیسے ممالک میں مستقل رہائش پذیر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ نئی نسل اپنے مذہب، روایات اور کلچر سے دوری اختیار نہ کرے اور ایک ایڈوانس معاشرے میں میانہ روی اختیار کرے۔ امریکہ میں پاکستانیوں کی دوسری نسل ملازمتیں یاکاروبار وغیرہ کر رہی ہے اور اہلیت کے مطابق برابر مواقع ملنے پر خوشحال زندگی گزار رہی ہے۔ ان نوجوانوں کو ان تکالیف اور مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو ان کے والدین نے اجنبی دیسوں میں ابتدا میں برداشت کیں ۔ عالمی کساد بازاری کے کچھ اثرات امریکہ میں بھی نظر آنے شروع ہو گئے ہیں اور اچھی نوکریوں کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے، کئی بڑے ادارے اپنے ملازمین فارغ کر رہے ہیں اور نئے آنے والوں کے لیے امیگریشن کے قوانین سخت کیے جا رہے ہیں۔ بھارت ، چین اور دوسرے ممالک سے لاکھوں طالب علم اسٹوڈنٹ ویزے پر ہر سال نارتھ امریکہ آتے ہیں جبکہ ہمارے ملک سے چندہزار ہی پڑھائی کے لیے ان ممالک میںآ پاتے ہیں جس کی وجہ ناکافی وسائل اور نظام تعلیم کی خرابی ہے۔ دوسرے ممالک میں اسکول لیول سے ہی غیر ملکی زبانیں اور ایسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے داخلوں میں آسانی ہو اور جن کی آئندہ برسوں میں مانگ ہو۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی قوت ایکسپورٹ کرنے والے ممالک طالب علموں کو اسکول کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انگریزی، حساب، سائنس کے مضامین اورآئی ٹی سے متعلقہ شعبوں میں تعلیم و تربیت دیتے ہیں جس سے گلوبل جاب مارکیٹ میں ان کی با آسانی کھپت ہو جاتی ہے۔ ہمارے ملک کے مہنگے ایلیٹ اسکولوں کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں توان کی اکثریت ڈگریاں حاصل کرکے واپس آکر اپنے خاندانی کاروبار سنبھالتی ہے یا سفارشوں کے بل بوتے پر اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہو جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ ہمارے سیاستدانوں اور مراعات یافتہ طبقے کی وہ اولادیں ہیں جو بیرون ملک دوران قیام سکھائی گئی تعلیم اور اعلیٰ اقدار کو فراموش کر کے اپنے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کو محکوم اور ملک کو غریب رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے کالجوں ، یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے اکثر مضامین اور مہنگے داموں تھوک کے حساب سے دی جانی والی ڈگریوں کی بین الاقوامی سطح پر کوئی حیثیت نہیں۔ ہمارے ارباب اختیار کو چاہیے کہ ان مضامین یا شعبوں کو بند کر دیں جن کی تیزی سے بدلتی دنیا میں کوئی جگہ نہیں اور اگر ہم ان مضامین میں پڑھائی ختم نہیں کر سکتے تو ان کے ساتھ کمپیوٹر سائنس سے متعلقہ مضامین پڑھنے اور پاس کرنے کو ڈگری حاصل کرنے کے لیے لازم قرار دے دیں لیپ ٹاپ اور اینڈرائڈ موبائل فون علم کے حصول ، دنیا بھر سے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں مقابلہ کرنے اور ترقی کرنے کا ذریعہ ہونا چاہیے جبکہ ہماری نوجوان نسل نے اس پلیٹ فارم کو ٹک ٹاک، چیٹ اور سیاسی مقابلے مکالمے کے لیے مختص کر دیا ہے۔ بیرونی ممالک مقیم پروفیشنل پاکستانی چاہتے ہیں کہ آن لائن بلنگ، ڈیولپمنٹ پروجیکٹس کال سینٹرز وغیرہ کے لیے اپنے ملک کی کمپنیوں اور اسٹاف کوفوقیت دیں مگر اکثریت احساس ذمہ داری سے عاری اور انگریزی میں مہارت نہیں رکھتی جس کی وجہ سے وہ دوسرے ممالک سے سروسز لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں جہاں تربیت یافتہ، ذمہ دار اور ہمہ وقت تیار عملہ مناسب تنخواہوں پر کام کے لیے موجود ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے بعض بزنس آئی ٹی اور انجینئرنگ کالج اور یونیورسٹیاں انتہائی معیاری تعلیم اور ٹریننگ فراہم کر رہی ہیں مگر یہ سب ناکافی ہے اس شعبے میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سب اسکول سطح سے شروع کیا جانا چاہیے۔ دنیا بھر میں ڈاکٹرز ، نرسز اور میڈیکل کی فیلڈ سے وابستہ افراد کی مانگ ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ایجنگ پاپولیشن کی وجہ سے ان کی مانگ میں آنے والے سالوں میں مزید اضافہ ہو گا ، ہمیں چاہیے کہ ان شعبوں میں بین الاقوامی اسٹینڈرڈز کے مطابق نصاب مرتب کریں تا کہ میڈیکل فیلڈ سے وابستہ بچے بچیاں بیرون ملک نوکریوں کے لیے مطلوبہ قابلیت اور امتحان پاس کر سکیں۔ ہمارے نو عمر ڈاکٹرز اور نرسز انتہائی مشکل پڑھائی اور سخت ٹریننگ سے گزر کر عملی زندگی میں قد م رکھتے ہیں مگر ان کے لیے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے ایسے اقدامات کریں جس سے ہماری پڑھی لکھی اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی بیرونی ممالک میں کھپت ہو سکے جس سے نہ صرف ملک میں بیروزگاری کم ہو گی بلکہ ملکی اقتصادی حالت بھی بہتر ہو گی۔
(صاحب مضمون سابق وزیراطلاعات پنجاب ہیں)