• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! آج کے ’’آئین نو‘‘ کے موضوع کا انتخاب عوام کی بنیادی ضرورتوں اور حقوق سے ہوتی تنگی اور محرومیوں، اس میں تشویشناک تیزی اور مافیا راج کی گرفت میں اضافے سے اخذ کیاگیا ہے۔گزشتہ دو اڑھائی سال سے جو ملکی سیاسی و آئینی بحران ’’حکومت اکھاڑنے اور بچانے‘‘ کی جس سیاسی محاذ آرائی سے شروع ہوا تھا اس نے بڑھتے بڑھتے عوام اور ریاست کو مہلک درجے کی سیاسی و انتظامی اور معاشی ابتری میں مبتلا کر دیا۔ وائے بدنصیبی، آج وطن عزیز کے حالا ت و حالت حاضرہ پر غالب اسی اذیت ناک کیفیت میں ہم جملہ منفی نتائج کے ساتھ بند گلی میں آن کھڑے ہیں۔ خسارہ ہی خسارہ ہو چکا اور جاری ہے۔ ملک بھر کے سنجیدہ اور اہل تجزیہ کار بڑی ہائی فری کوئنسی پر اس پُرخطر بھنور سے نکلنے کی ایک ہی راہ دکھا رہے ہیں، الیکشن بمطابق آئین، یعنی شفاف، آزادانہ و غیر جانبدارانہ۔ دوست اور پاکستان سے مخلص ممالک بھی گہرے اور مسلسل خاموش سفارتی مشاہدے اور تجزیے کے بعد روایت سے ہٹ کر اور داخلی سیاست پر ابلاغ سے پرہیز میں لچک پیدا کرکے قومی تجزیے اور عوامی بے چینی کی تائید میںبڑے سفارتی سلیقے اور اپنے مخلصانہ اور دوستانہ مشاورت کا توازن پیدا کرکے، اس مشورے کی تکرار کر چکے کہ پاکستان اپنے آئین کے مطابق الیکشن کے انعقاد سے جاری اور بڑھتے بحران سے نکلنے کا آغازکرے۔خود حکومتی ذرائع اور الیکشن سے خائف اور حیرت انگیز حد تک بیزار ہوئی بڑی روایتی سیاسی جماعتوں کے رہنما اور ترجمان بھی نوشتہ دیوار پڑھتے عوامی دباؤ کو محسوس کرتے تکرار سے انتخابات کے بمطابق آئین انعقاد کو ہی گھمبیر صورتحال سے نکلنے کا واحد حل تسلیم کرتے رہے، لیکن یہ کارخیر بھی اسکی مخصوص ’’سیاسی ضروریات‘‘ کا اسیر رہا۔ سو بڑی مکاری سے ملکی سیاسی ابلاغ کے سدا بہار اور متفقہ بیانیے ’’آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی‘‘کو بلاشرم و حیا ترک کرکے اس سے متصادم ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘کی تکرار شروع کر دی گئی۔ اسے ڈیل، مطالبات کی فرمائش اور زیر عتاب پی ٹی آئی کی قیادت و جماعت کی کم ترین خطاؤں اور الزامات کے ساتھ اپنے شدت سے قابل احتساب ریکارڈ کی ناقابل فہم تشریح اور موازنے کے ساتھ جوڑ کر سزاؤں اور ثابت ہوئے اپنے جرائم کے برابر بتا جتا کر عوام کو گمراہ کرنے اور ریاستی اداروں کو دباؤ میں لانے کا پروپیگنڈہ اور انتظامی حربے پوری شدت سے جاری ہیں۔

قدرت کی اپنی کرنی، جھوٹ کو اس بڑے اہتمام و تنظیم اور وسائل سے پھیلانے اور قوم کو گمراہ کرنے کی یہ کوشش سیاسی جماعتوں، حکومت اور متعلقہ اداروں کے مقبولیت کے ہر سروے میں بری طرح ناکام ثابت ہو رہی ہے۔اسی طرح ’’نگران‘‘ فسطائی سیاسی ہتھکنڈوں اور پولیس گردی کے استعمال سے ڈیل کے مطالبات و فرمائش پوری کرنے کا تمام تر فائدہ بشکل ڈیل فریق اول کا ووٹ بینک ہراسگی کی حد تک کم اور مخالف پی ٹی آئی کا بڑھ رہا ہے۔ آئین و قانون کی بالادستی و حکمرانی کے مقابل ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کی تشریحات و تجزیے فقط غیر جانبدار یا جانبدار تجزیہ نگار ہی نہیں کر رہے، عجب ہے کہ خود عوام، رائے عامہ کی تشکیل کا بڑا ذریعہ بن گئے ہیں۔ ابلاغ عامہ کی سائنس میں اس عجوبے کے دوبڑے ذرائع بنے ہیں۔ ایک خود عوام کا حالات حاضرہ کےبارے اپنا شعور اور ظہور پذیر قومی سیاست میں ان کی اپنی سرگرمی اور دلچسپی جس نے مکارانہ پھیلائے ریاستی دروغ کے مقابلے کی قوت ووٹر ز کو فراہم کی ہے اور وہ ڈرے سہمے اور خاموش رہ کر بھی اپنا کام دکھا رہے اور دکھائیں گے۔ بڑی بھاری تعداد میں نئے یا دوجی تیجی مرتبہ والے ووٹرز اپنا محفوظ فیصلہ محفوظ کر چکے ہیں اور منتظر ہیں کہ 8فروری کوعدالت لگے تو وہ یہ تاریخ ساز فیصلہ 8فروری کو دیں ۔ لیکن وہ کس کے حق میں دیں گے، انہیں ان کے امکانی اور ظاہر معاونین کو روکنے کیلئے بڑے بڑے جھوٹ اور فسطائیت سے ’’آگ کے دریا‘‘ بھڑکائے جا رہے ہیں۔ اب مقابلہ کا انحصار انتخابی مہم، بیانیے اور منشور و ترغیبات پر نہیں،جھوٹ پر جھوٹ گھڑنے والے الیکشن انعقاد کے منتظم ادارے اور معاونین ریٹرننگ افسران کے تابع دار مار دھاڑ لشکر پر ہے۔ اس کے بعد بھی مخالف اسیر اور جکڑ پکڑ اور خوف و ہراس میں مبتلا فریق کے ووٹ بینک میں اضافے کا باعث بنے تو عجب کیسے ہو رہا ہے؟ میں کمیونیکیشن کے علم میں فورمیشن آف پاور فل پبلک اوپینیئن کا یہ دوسرا بڑا ذریعہ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی کمال پیش رفت سوشل میڈیا اور اس کی آف شوٹ سٹیزن جرنلزم کی صورت میں مین سٹریم میڈیا کو مغلوب کرنا غلبہ پا رہا ہے۔ اطمینان بخش یہ ہے کہ پاکستان کے حوالے سے اس (سوشل میڈیا) کے ابتدائی تجربے میں اخلاق باختہ پھکڑ پن ابلاغی کھلواڑ، غیر ذمے دارانہ سیاسی طرز عمل اور مہلک ابلاغی لشکر کی جو جگہ بن رہی تھی، اس میں کچھ کمی آ رہی ہے۔ جاری ملکی بحران میں اس (سوشل میڈیا) کی ابتدائی سرگرمی اور جوش میں جو غیر مطلوب غیر ذمے دار اور غیر اخلاقی عنصر حساس سماجی مسئلہ بن رہا تھا، وہ اب موثر ابلاغ کے لازمے کے حوالے سے ایک بڑا سنجیدہ پورشن ڈویلپ ہونے سے یہ اب اصلاح پذیر بھی ہے اور ڈیزاسٹر کا تناسب بھی کم ہوتا لگ رہا ہے۔ کمیونیکیشن ریسرچرز اینڈ سکالرز متوجہ ہوں کہ ناچیز کے HYPOTHESIS (تحقیقی مفروضے) کے مطابق بڑی وجہ مین اسٹریم میڈیا کے تجربہ کار صحافیوں کی بڑی کھیپ کی سوشل میڈیا سےبہت سنجیدہ، پروپاکستان و پرو پیپلز وابستگی ہے۔ سو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں جھوٹ کا گناہ کبیرہ جو ریاستی سطح پر اور منجانب اداروں کی طرف سے الٹے نتائج دے کر بھی بڑھ رہا ہے، اس پر قابو پانے کی ضرورت قومی اور سماجی ہی نہیں بلکہ یہ دینی بھی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں انسانی رویوں میںناپسندیدہ ترین عمل اور بڑا اولین گناہ جھوٹ ہے۔اس کی مسلم معاشرے میں اس قدر تکرار اور وہ بھی سخت منفی مقاصد کیلئے!اس پر اعلیٰ پائے کے مذہبی سکالرز بھی غور فرمائیں کہ موجود گھمبیر سیاسی، سماجی، ابلاغ اور ہمارے شدید آلودہ قومی ابلاغی دھارے میں یہ کتنے بڑے خسارے کا باعث بنے گا؟ ہماری نوخیز نسل ہمارے رہنماؤں، ترجمانوں، سیاسی جماعتوں حتیٰ کہ عدالتوں، بیوروکریسی، الیکشن کمیشن کو موجود بحران میں کیسا ابلاغ کرتے دیکھ رہی ہے اور اس سے اس کے اجتماعی رویے پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین