• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مین اسٹریم مذہبی جماعتوں اور علمائے کرام کی مکمل گرفت میں ہے۔ملک کے چاروں صوبوں خصوصاً پنجاب کے گلی کوچوں میں ان مختلف مذہبی جماعتوں کے عقائد سے ابھرنے والے کلچر نے سماجی ماحول میں کسی ذہنی آزادی کی کوئی جرأت باقی نہیں رہنے دی۔ملک میں اقلیتوں کی صورت احوال کے حقائق بیان کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ مین اسٹریم مذہبی جماعتوںاور علمائے کرام کے ساتھ وہ تمام دانشوراور اہل فکر پاکستان کے عوام کو اسلام کے اس عملی قالب میں ڈھلا ہوا دیکھنے کے خواہاں ہیں جس قالب کے نصب العین کی تکمیل کے لئے ان مذہبی جماعتوں اور علمائےکرام نے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ چنانچہ اس مشن میں اس طرز ِ فکر اور نظریئے کے حامی دانشوروں کو کسی ایک اسکول میں لڑکیوں کے دوپٹہ نہ اوڑھنے سے ملک کی اینٹ اینٹ پر بے حیائی کنندہ دکھائی دیتی ہے۔ زندگی کے باقی تمام نارمل معمولات کے معاملے میں بھی اسلام کے نفاذ کا مکمل نمونہ حاصل ہونے تک یہ جماعتیں، علمائے کرام اور دانشورحضرات اپنی عمریں کھپا چکے ہیں۔ جتنی باقی رہ گئی ہیں وہ بھی اسی مقدس منزل کے حصول میں دائو پر لگائی جاچکی ہیں۔ اتفاقاً ان مذہبی جماعتوں، علمائے کرام اور دانشور حضرات کے ذاتی مالی حالات بے پناہ آسودہ بلکہ شاہانہ انداز ِزندگی کے مثالی شب و روزسے عبارت ہیں!
پاکستان کی ان مین اسٹریم مذہبی جماعتوں، علمائے کرام اور ان سے متفق دانشوروں اور لکھاریوں نےصرف اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی مظلوم مسلمانوں کی حمایت یا آزادی کیلئے ’’کفار‘‘کوشکست دینے کی خاطر پاکستانی حکومت سے مایوس ہو کے اپنے اپنے پرائیویٹ لشکروں کے ذریعے تن من دھن کی بازی لگا رکھی ہے جس کے نتیجے میں ایک جانب ان علمائے کرام کے اقتصادی معمولات کسی قسم کے معاشی دبائو کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے بلکہ اس ’’بیرونی جہاد‘‘ سے فارغ اوقات میں ان کے پیروکاروں نے اندرون ملک مختلف شکلوں میں امت ِ مسلمہ کی آبرو کا تحفظ کرنےکی اس سعی میں متعدد متوازی جہاد بھی شروع کررکھے ہیں۔ 1979میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے بعد افغانستان اور اس کے حیرت انگیز شجاع کمانڈرز اور مجاہدین ہمارا آئیڈیل ہیں۔پشتون نسل ہی کے پاکستانی صوبے خیبرپختونخوا کے جانباز بھی ہمارے خوابوں میں سجے رہتے ہیں۔ کاندھوں پر اسٹنگر میزائل رکھے، جہازی سائز کے پگڑ باندھے، گھیرے دار عظیم شلواروں میں ملبوس، چہروں پر نقاب، کمبلوں اور چادروں میں لپٹے ہوئے افغان، وزیرستان اور دیگر علاقوں کے یہ کمانڈرز، مجاہدین اور علما ہم پاکستانیوں کو ’’اسلامی شب و روز‘‘ اور ’’عادات و اطوار‘‘ پر عمل کرانے کی آرزو میں اپنے آرام و چین کا لمحہ بھر بھی خیال نہیں رکھتے۔ افغانستان میں موجود ’’ مولوی فضل اللہ‘‘ ان کے بزرگ ’’صوفی محمد‘‘ اور اب ’’مولانا عبدالعزیز‘‘ پاکستانیوں کی اکثریت کو بالآخر اس راستے پر لا کے رہیں گے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں بھی زہد و تقویٰ کے یہ علمبردار قدم قدم پر بندوق اور وافر جسمانی طاقت سے موجود ہیں۔ جب تک دم میں دم ہے یہ پاکستان کو اسلام کا تکمیلی ثبوت بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے تاکہ ہم پاکستانیوں کو ’’اخروی نجات‘‘ نصیب ہوسکے۔ یہ حضرات اور ان کے حامی دانشور ’’اخروی نجات‘‘ کے سلسلے میں اسی زمینی سیارے پر خودکفیل ہوچکے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نےگزشتہ دنوں میاں نوازشریف صاحب کو ٹویٹ کی ’’میں چاہتا ہوں وہ ہمارے چرچل بنیں مگر وہ تو چیمبرلین بن رہےہیں‘‘ بلاول بھٹو زرداری سے عمر میں کہیں بڑے بلکہ ان کے والد گرامی ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری سے بھی عمرمیں سینئر ، جنرل (ر) پرویز مشرف نے اقتدار میں آنےکے بعد ابتدائی مہینوں میں کہیں ’’اتاترک‘‘ میرے آئیڈیل ہیں کہہ دیاتھا، بس ایک بار ہی کہہ پائے تھے جس کے بعد قاضی حسین احمدؒ نےان کی زبان کو گدّی میں جھٹکا دیا تھا۔ پاکستان کی مین سٹریم مذہبی جماعتیں اور دانشور اس طرح کے ’’لادین‘‘ ، ’’افراد و تصورات‘‘ یا بلاول کے انداز میں انسانی تاریخ کے ’’مادّی کرداروں‘‘ کے خلاف ہمیشہ سے اعلائے کلمۃ الحق ادا کرتے آئے ہیں اس لئے اب تک وہ چرچل اور چیمبرلین کی مثالوں کاجنازہ نکال چکے ہیں۔ یہ جماعتیں اور یہ دانشور اس محاذ پر اپنے دماغ اور آنکھوں کو کبھی بند نہیں ہونے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ دہشت گردی کے پس منظر میں بلاول کی طرح کبھی سری لنکا کبھی نیپال وغیرہ کے اقدامات کی مثالیں دیتے ہیں۔ وہ پاکستان پر چھائے ہوئے ان مجاہدین کی محیر العقول کامیابیوں سے آگاہ ہی نہیں پاکستان کی سرزمین پر ان مثالوں کی کامیابی یا اطلاق کا خواب دیکھنا ہوش و خرد کو مستقل طلاق دے دینے سے ہے!
پاکستان کی ان مین اسٹریم مذہبی جماعتوں اور ان کے حامی دائیں بازو کے دانشوروں نے ’’سیکولر‘‘ کا ترجمہ ’’لادین‘‘طے کردیا ہے۔ ان جماعتوں، ان حضرات اور ان کے پیروکاروں سے ڈرنے کے باعث میں بھی اسی ترجمے کی تائید کروں گا۔لہٰذ اپاکستان کی ’’لادین‘‘ یعنی سیکولر جماعتوں اور اہل فکر و قلم سے وابستہ لوگوں جناب منور حسن، جناب لیاقت بلوچ، جناب فرید پراچہ اورحضرت مولاناعبدالعزیز صاحبان کی عظمتوں کوکبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ جناب منور حسن، جناب لیاقت بلوچ اور جناب فرید پراچہ صاحبان حال ہی میں افواج پاکستان کے شہیدوں کے ’’قدوقامت‘‘ سے نہایت بے خوفی سے ڈیل کرچکے ہیں بلکہ افواج پاکستان کی جانب سے معافی مانگنے کےمطالبے پر جناب فرید پراچہ ’’کس بات کی معافی؟‘‘ کے کلمہ حق سے افواج پاکستان کی ’’حیثیت‘‘ کاتعین بھی کراچکے ہیں۔ رہ گئے مولوی عبدالعزیز صاحب ان کی عظمت ان حضرات کی نسبت کہیں زیادہ مقدار میں ہے کہ وہ امت ِ مسلمہ کے ان محترم محافظوں سے کہیں پہلے (بحوالہ ایک مقتدرکالم نگار) اس فتوے پر دستخط کرچکے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ ’’مجاہدین سے لڑتے ہوئے قربان ہونے والے پاکستانی فوجیوں کاجنازہ پڑھنا جائز نہیں‘‘ مولانا نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کیا ’’اس فتوے پر مجھ سمیت 500علمائے کرام کے دستخط ہیں‘‘۔پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور ’’صدر‘‘ آصف علی زرداری کے ترجمان نے حال ہی میں قومی پریس کو’ ’صدر‘‘ کا ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان پیپلزپارٹی اس آل پاٹیز کانفرنس کا حصہ تھی جس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ حالات کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے سیاسی طاقتوں کا ایک ہی Page پر ہونا ناگزیر تھا۔ پیپلزپارٹی کا ماضی کا تجربہ اس ضمن میں کوئی رہنمائی فراہم کرسکتا ہے تو وہ اتنا ہی ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں طاقت کا استعمال ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔‘‘ بلاول بھٹو زرداری ’’صدر‘‘ کی اپروچ کےگو قریب ترین محسوس ہوتے ہیں مگراس بحران پر ان کی رائے یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ’’میں طالبان پر مذاکرات سے پہلے ہتھیار رکھنے کی شرط عائد کرتا‘‘ صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور پاکستان پیپلزپارٹی نے آج تک پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور غیرانسانی طرز ِ زندگی کےمقابلے میں پاکستانیوں کےلئے اسلامی آئین کی حدود میں ایک نارمل لبرل زندگی کی جدوجہد کی ہے۔ ہر نارمل پاکستانی جسے آخرت میں مخلوقِ خدا کے بارے میں یہاں ’’فیصلہ‘‘ لکھنے کی لادینیت سے نجات ملی ہوئی ہے، پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی قیادت کا تائید کنندہ ہے۔بلاول نے پاکستانیوں کی پژمردگی میں ایک طرح سے نئی توانائی کی روح بھی پھونک دی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی پاکستان کی بقااور پاکستانیوں کو جنونیت کا زاد ِراہ بننے سے بچانے کےلئے ان لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے جنہوں نے گزرے دس برسوں میں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی پرواہ نہیں کی اور مبینہ طور پر پنجاب کو پوری طرح محفوظ رکھا۔ عملاً دہشت گردوں کو خاموش لاتعلقی سے مکمل طاقت فراہم کی لیکن آج آسیب کے سائے انہیں اس افسانے کے انجام پر غور کرنےپر آمادہ کرچکے ہیں کہ ’’آخری ہدف تمہارا مسکن بھی ہوسکتاہے‘‘ پاکستان پیپلزپارٹی نے ان کےشانہ بشانہ کھڑے ہوکے صرف اپنی تاریخی استقامت میں اضافہ کیاہے۔ اسلام کی حدود میں ایک لبرل پاکستان ہی قائم رہ سکتاہے۔ ویسے یادوں کےآئینے میں تو یہ وہی لوگ ہیں جن کا ہر سانس پاکستان پیپلزپارٹی کے مظلوموں کی آہوں پر قرضے کی مد میں آتا ہے! کالم کی تنگ دامنی آڑے آچکی، ابھی بات نامکمل ہے!
تازہ ترین