• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

پچھلے 10/12سال کی جانچ پڑتال کئے بغیر آج کے بحران کو سمجھنا اور اور اس سے نبٹنا ناممکن ۔ دو رائے نہیں کہ عمران خان کیخلاف 8مارچ 2022ء کی تحریک عدم اعتماد کو اسٹیبلشمنٹ کی BLESSINGS تھیں۔ اس سے پہلے 17 اگست 2018ء کو عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے تو 176ووٹ بھی اسٹیبلشمنٹ کی محنت شاقہ کا نتیجہ تھے۔ اکتوبر 2019ء میں فضل الرحمٰن صاحب کا مارچ بھی جنرل باجوہ کی توسیع کیلئے تھا۔ توسیع مل گئی تو عمران خان کی افادیت بھی ختم ہو گئی۔ بلاشبہ اکتوبر 2020ءمیں اپوزیشن پارٹیوں کی ’’عمران خان ہٹاؤ تحریک‘‘ کا آغاز اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر تھا۔ مقصد عمران خان حکومت کو متزلزل رکھنا اور داؤ لگے تو اس سے جان چھڑانا تھا۔ بعینہ جیسے اپریل2014ء (آج کے بحران کا نقطہ آغاز بھی) میں نواز شریف کیخلاف عمران / قادری جوڑے کو آزمایا گیا۔ 2021ء کے آخر تک، زباں زدعام کہ اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان سے جی بھر چکا، جی کا جانا ٹھہر گیا ۔اسٹیبلشمنٹ کا اپنی لڑائی ’’سورس آئوٹ‘‘ کرنا، ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔ خوش قسمت بھی ، ہمہ وقت ایسی سہولت باآسانی دستیاب رہتی ہے۔ایک کردار جنرل فیض جو جنرل باجوہ کے انتہائی قریب اور عمران خان کے بھر پور اعتماد سے سر شار، بد مست ہاتھی بن کر دندنا رہا تھا ۔ یہی وہ وقت جب جنرل باجوہ شعوری طور پراپنے ہی ادارے سے کھلواڑ شروع کر چکے تھے۔ اکتوبر 2021ء میں باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کیساتھ جنرل فیض کی جگہ جب جنرل ندیم انجم کو تعینات کیا تو تاثر عام کہ عمران خان کو بے وُقعت کیا گیاہے ۔ جنرل فیض حمید سبکدوش ہوئے مگر ادارے میں سازشوں کو جگہ دینے کے بعد۔ عمران خان نے بھی بغیر الفاظ چبائے، جنرل فیض حمید پر اپنے اعتماد کے تاثر کو تقویت دی۔ جنرل فیض پہ اپنی حکومت کی گارنٹی ڈھونڈ چکے تھے۔ یعنی کہ عمران خان عملاً اسٹیبلشمنٹ ٹریپ میں آ چکے تھے ۔ دوسری طرف اسی پیرائے میں اپوزیشن بھی اسٹیبلشمنٹ جال میں بخوشی پھنسنے پر آمادہ نظر آئی، چشم تصور میں جنرل فیض کی موجودگی اپنے مستقبل کیلئےخطرہ سمجھ چکے تھے۔ عقیدہ راسخ کہ عمران خان جنرل فیض کے ذریعے انکی سیاست کو دفنا دینگے۔ میرا وجدان کہتا تھا کہ جنرل باجوہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے۔ جنرل باجوہ کی شاطرانہ چال کا اندازہ ہوا تو بھاگ دوڑ شروع کر دی۔ دسمبر 2021ء میں مریم نواز صاحبہ کو جاتی امرا جا کر ملے ۔ مودبانہ گزارش کی کہ تحریک عدم اعتمادآپکے لیے ایک جال ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی ٹھن چکی ہے ۔ فروری مارچ 2022ء میں گھمسان کا رَن پڑنا ہے، تاریخ میں پہلی بار یہ لڑائی اسٹیبلشمنٹ کو خود لڑنے دیں۔ مزید نواز شریف سیاست کو اسکا ناقابل تلافی نقصان پہنچنا ہے ۔ مریم بی بی کا جواب، ’’جنرل فیض اگر آرمی چیف بن گئے تو پھر اگلے 10 سال عمران خان نے جان نہیں چھوڑنی‘‘ ۔ جواباً بتایا، " میری بات گِرہ سے باندھ لیں کہ جو سودا اسٹیبلشمنٹ آپکو بیچ رہی ہے اور آپ نا سمجھی میں یا کچھ مفاداتیوں کے مفاد میں اسکو خرید رہے ہیں ۔ یہ فقط تباہی و بربادی کا محفوظ راستہ ہے " ۔

میرا گمان تھا کہ اکتوبر 2021ء میں ہی اسٹیبلشمنٹ، اپوزیشن جماعتوں سے ایسے معاملات طے کر چکی تھی۔ مریم صاحبہ کو بتایا کہ عمران خان کا مکو ٹھپنا اداراتی فیصلہ ہے، بالفرض محال جنرل فیض کو چیف بنا دیا یا کوئی اور بنا، نئے چیف کا پہلا کام ایک ہی، عمران خان قصہ پارینہ بنے ۔ افسوس ! اپوزیشن جماعتیں اس وقت تک خودکش جیکٹ پہن چکی تھیں،کسی طور اتارنے پر آمادہ نہ تھیں ۔ میری آہ و بکا صدا بصحرا ثابت ہوئی ۔ حیف ! اِدھر 8 مارچ کو جیسے ہی تحریک عدم اعتماد آئی، چند ماہ کی حکومت کے حصول میں نواز شریف کی 40 سالہ سیاست دفنا ڈالی ، چہ ارزاں فروختند۔ عمران خان کا " اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ " ہونا مسلم لیگ ن کو منتقل ہو گیا جبکہ نواز شریف کا مقبول " اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ " عمران خان نے آناً فاناً اُچک لیا اور اپنے سارے گناہ معاف کروا لئے۔ جب نئی مقبولیت ملی تو آپے سے باہر ہونا بنتا تھا ، اس تگ و دو میں اصول و ضوابط ، اخلاق ، قانون سب کچھ روند ڈالا ۔باجوہ پلان تھا کیا ؟ عمران خان کو ہٹا کر نگران حکومت کا قیام ، نہ کہ شہباز شریف کو حکومت دینا ۔ جنرل باجوہ 2021 سے یکسو کہ عمران خان کو ہٹا کر کسی طور نگران حکومت لائی جائے تا کہ سپریم کورٹ میں 5/7 ججز اور 29 نومبر 2022 کو تاحیات توسیع ، ہمت دیکھیں کیا مانگتا ہوں ۔ اس دُھن میں اپنے ادارہ کو اپنے ادارہ کیخلاف استعمال کیا۔ناکامی نے منہ چڑایا کہ اللہ کی اسکیم نے غالب آ نا تھا ۔ بے آبرو ہو کر رخصت ہوئے ۔ آج کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ۔ اس اکھاڑ پچھاڑ میں وطنی سیاسی عدم استحکام ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جیسے 1971 میں مشرقی پاکستان کا بحران ، روح فرسا مناظر آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں ۔ آج کے دن ، ملکی سیاست عمران خان کے قبضہ میں جبکہ کُلی ریاستی طاقت اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول میں ہے ۔ جب موجودہ نئی اسٹیبلشمنٹ وجود میں آئی تو اسکی ترجیح نہ تو شہباز حکومت گرانا نہ توسیع مدت ملازمت اور نہ ہی کسی جرنیل کا راستہ روکنا ہے۔انکی پہلی ترجیح، بائی ڈیفالٹ عمران خان کا سیاسی مکو ٹھپنا بن گیا ۔ اس سارے عرصہ میں ملکی سیاسی بحران توجہ کا مرکز بن پایا نہ پہلی ترجیح بن سکا ۔ حتمی رائے کہ آج کا وطنی بحران انتہائی سنجیدہ اور پیچیدہ ہے ، چند مہینوں کا شاخسانہ نہیں ۔ دس بارہ سال پہلے اسکی بوئی ہوئی فصل تیار ہے ، کٹائی کا وقت آن پہنچا ہے ۔ صورتحال کچھ یوں ہے ،عمران خان سیاست کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں بے دست و پااور بے اثر ہو چکی ہیں ۔جنرل باجوہ پلان مملکت کو ایک گہری دلدل میں دھکیل گیا ہے ۔ 8 فروری کو الیکشن ہو گئے تو بربادی اور اگر نہ ہوپائے تو خانہ خرابی۔

راستہ ایک ہی اگر مملکت کو بچانا ہے توموثر سیاستدانوں کو ایک کمرے میں بند کر کے اس وقت تک بٹھانا ہوگا جب تک اتفاق رائے پیدا نہ کر لیں ۔ سب کو مل کرریاست کو بچانے کا فارمولا دینا ہو گا ، وگرنہ مملکت کی داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

تازہ ترین