السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
زاروقطار رو رہا تھا
اُمید ہے، مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات شامل تھے۔ بے شک، دنیا کو فلسطین یاد تو آیا، لیکن جب یاد آیا، اُس وقت فلسطین زار و قطار رو رہا تھا۔ حماس نے اچانک اسرائیل پر حملہ کرکے فلسطین کی مشکلات بہت بڑھا دی ہیں۔ اُسےچاہیےتھا، پہلے کم ازکم تمام اسلامی ممالک کو تو اعتماد میں لیتا۔بےچارے نہتّے فلسطینیوں کے تحفّظ اور آنے والے حالات کے ضمن میں کوئی پیش بندی تو کرتا، اُس کے بعد یہ کارروائی کی جاتی۔ بہرحال، اللہ پاک سے دُعا ہے کہ وہ بےگناہ فلسطینیوں کواپنی حفظ و امان میں رکھے۔ ان یہودی قابضین کو نیست و نابود کرے۔
جریدے میں یہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ پاکستان کی ہر آٹھویں خاتون بریسٹ کینسر کے نشانے پر ہے۔ اللہ پاک اپنا رحم فرمائے۔ اس بار ’’یاد داشتیں‘‘ میں مصطفیٰ زیدی اور امجد اسلام امجد کی باتیں، یادیں تھیں، دونوں ہی شخصیات قدآور ہیں اور ہمیں ان پر ناز ہے۔ ’’سفرِ وسط ایشیا‘‘ کی آخری قسط بھی شان دار رہی، اختتام بہت اچھا تھا۔ ’’آئی ایم ایف سے پھر مذاکرات‘‘، آخر ہم اس خون خوار جن سے کب جان چُھڑوائیں گے۔
سرکاری ملازمین سےاگرمراعات ہی واپس لے لی جائیں، تو ہرماہ اربوں روپے کی بچت ہوسکتی ہے، مگر کوئی اِس ملک سےمخلص بھی تو ہو۔ معالج نے سوفی صد درست فرمایا کہ فالج کے اٹیک کے بعد ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ مسجدِ اقصیٰ کی فضلیت واہمیت ہردَورمیں رہی ہے۔ بلوچستان کےنگراں وزیرِاطلاعات جان اچکزئی کے خیالات شان دار تھے، اللہ کرے کارکردگی بھی ایسی ہی ہو۔ اور ’’پیارا وطن‘‘ میں وادیٔ سوات کی سیر کرکے تو خُوب ہی لطف آیا۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
ج: پچھلے 75برسوں سے جو کچھ کشمیر اور فلسطین میں ہورہا ہے، ردِعمل میں ہوش وخرد کے استعمال یا مربوط منصوبہ بندی کی توقع رکھنا بھی کوئی دانش مندانہ بات نہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ ظلم رہے اور امن بھی ہو…کیا ممکن ہے، تم ہی کہو۔
عید جیسی خُوشی
سنڈے میگزین کی ساری ٹیم کی خدمت میں السّلامُ علیکم۔ آج کا دن میرے لیے بہت خُوشی کا دن تھا، شاید اتنی خوشی مجھے کبھی اپنے بچپن میں عید کے مواقع پر ہوئی ہوگی، جتنی آج ہوئی کہ جب مَیں نے جریدے میں اپنے خط کا جواب پڑھا۔ مَیں آپ کی بہت شُکر گزار ہوں، کیوں کہ میں سمجھتی تھی کہ شاید آپ کے پاس بہت سے خطوط ہوتے ہوں گے، تو آپ کئی خط ردّی میں ڈال دیتی ہوں گی، لیکن میری سوچ غلط تھی۔
مَیں سارے سنڈے میگزینزبہت سنبھال کر رکھتی ہوں، کیوں کہ اس میں ایک صفحہ ’’قصص القرآن‘‘ کا بھی ہوتا ہے۔ میری دُعا ہے اللہ تعالیٰ محمود میاں نجمی کو لمبی عُمر عطا فرمائے۔ اچھا، ایک بات بتائیں کہ اگر میں کوئی کہانی یا واقعہ لکھوں، تو کیا وہ شایع ہوجائے گا۔ (رفعت سلطانہ)
ج: اگر آپ کو اپنی تحریر کی اشاعت پر اِسی قدر خوشی حاصل ہونی تھی، تو یہ خط لکھنے کا معرکہ پہلے ہی مارلیتیں۔ ہمیں تو جب آپ کا خط ملنا تھا، توہی ہم نے شایع کرناتھا۔ اگرچہ ابھی آپ کی تحریرپختہ نہیں ہے، لیکن لکھتی رہیں گی، تومزید بہترہوجائے گی۔ اگرکوئی واقعہ لکھ کے بھیجنا چاہتی ہیں، تو بھیج دیں، لیکن اشاعت کا فیصلہ تحریر دیکھ کرہی کیا جائےگا۔خطوط البتہ تقریباً سب ہی شایع کردئیے جاتے ہیں، باری آنے میں وقت ضرور لگتا ہے، لیکن کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی خط میں ایک جملہ بھی قابلِ اشاعت ہو تو اُسے شائع کر دیاجائے ۔
درست لفظ ’’سال ہا سال‘‘ ہے
سنڈے میگزین ہاتھ آتے ہی ایک اَن جانی سی خُوشی ہوئی۔ پورا میگزین آپ اور آپ کی ٹیم کی محنتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منورمرزانےخُوب لکھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں مچھلی والےنبی کا قصّہ بہترین تھا۔ یہ ایک بہت شان دار سلسلہ ہے، اِسے جاری وساری رکھیے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے جو لکھا، حق لکھا۔ رستم علی خان نے شادی بیاہ سے متعلق جو اصول بتائے، بہترین تھے۔ مریم شہزاد بھی منہگائی سے متعلق مفید مشورے دے رہی تھیں۔ باقی سارا میگزین بھی لاجواب ہے۔ ہاں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ایک لفظ ’’ برس ہا برس ‘‘ استعمال ہوا، میرے خیال میں یہ غلط ہے، درست لفظ سال ہا سال ہے۔ (حسنین گل، خان پور)
ج: اگرچہ دونوں ہی مستعمل ہیں۔ لیکن چوں کہ ’’برس‘‘ ہندی زبان کا لفظ اور ’’ہا‘‘ فارسی ترتیب ہے، تو درست مرکب ’’سال ہا سال‘‘ ہی ہوگا۔ لیکن بڑے بڑے لکھاریوں نے ’’برس ہا برس‘‘ بھی بکثرت استعمال کیا ہے۔ بہرحال، درست نشان دہی، اصلاح ورہنمائی کا بےحد شکریہ۔
زندگی کے پرچے میں، سب سوال لازم
آپ کی محنتوں سےکِھلاہواچمن’’سنڈے میگزین‘‘ کیا بِن بادل علمی برسات لایا، تحریروں کی بارات لایا، معلومات کی سوغات لایا۔ اور پھر اِن ہی تحریروں کی دُھنوں پر سر دُھنتے، رُوح میں جذب کرتے ، بےاختیار قلم اٹھایا کہ مبادا کہیں چولھے کے نزدیک جاتے ہی تمام خیالات بھاپ بن کر نہ اُڑ جائیں۔ رنگوں کی برسات نے دروازہ کھولا، تو پیراہن کی آرائش وزیبائش میں چُھپے آپ کے رائٹ اَپ کی خوشبو ’’جب گُھلا بادِ صبا میں پیراہن کا لمس…‘‘ نے احساس دلایا کہ واقعی حُسن تو دیکھنے والی نظر میں ہوتا ہے، ورنہ سونےکےپانی سےدُھل کربھی آجائیں، یہی، سُننے کو ملتا ہے،’’خالص نہیں، 18 قیراط لگتا ہے‘‘، یعنی سب دل کا معاملہ ہے۔ جو بھا گیا، وہ چھا گیا۔ اِس کی تصدیق اخترسعیدی نے رسا چغتائی کے اس شعر سے بھی کی کہ ؎ تیرے آنے کا انتظار رہا… تمام عُمر موسمِ بہار رہا۔ اور ہم جو عرفان جاوید کے غائب ہونے پر شکوہ کُناں تھے، یک دَم ہی اُنہیں امجد اسلام امجد کی کتھا سناتے دیکھا، تو چائے کی پیالی لیے ہمہ تن گوش ہوگئے۔
تحریر کافسوں، لفظوں کا زیروبم، برجستہ کلمات وشگفتہ واقعات کے سحر نے امجد اسلام امجد کو اُنہی کے الفاظ میں امرکردیا۔ ؎ ’’اگر کبھی میری یادآئے…توچاند راتوں کی نرم دل گیر روشنی میں…کسی ستارے کو دیکھ لینا…اگر وہ فلک سے اُڑ کر تمہارے قدموں میں آگرے، تو…یہ جان لینا، وہ استعارہ تھامِرےدل کا۔‘‘ اور اُن کے وہ مصرعے بُھلائے نہیں بھولتے کہ ؎ زندگی کے پرچے میں …سب سوال لازم ہیں، سب سوال مشکل ہیں۔ نازیہ آصف ہاتھ پکڑ کر مالم جبہ کے برف پوش پہاڑوں کی طرف لے چلیں، توان کے ہم رکاب ہوکرسوات کی جھیلوں، جھرنوں، قدرتی مناظرکا خُوب لُطف اٹھایا۔ ’’قصص القرآن‘‘ ایمان افروز شمع سے روشن تھا، ہر لفظ ’’ایمان کی حرارت‘‘ میں ڈوبا ہوا۔ وہ کیا ہے کہ ؎ بے خطر کُود پڑا آتشِ نمرود میں عشق… عقل ہے محوِتماشائے لبِ بام ابھی۔ لیکن افسوس، اُمتِ مسلمہ آج اس وصف سے خالی ہوچکی۔ فضائے بیت المقدس سے بارود کا دھواں اٹھ رہا ہے، شعلے آسمان سے باتیں کررہے ہیں، مگراس میں کُودنا تو دُور کی بات، اُمتِ مسلمہ نے یوں چُپ سادھ لی ہے کہ مبادا اپنے دامن میں آگ نہ لگ جائے۔ تب ہی غزہ کےملبے تلی دَبی ہرلاش کہہ رہی ہے، ’’ہماری نمازِ جنازہ مت پڑھنا، ہم زندہ ہیں، لیکن اے اُمتِ مسلمہ! تم مرچکی ہو‘‘۔ اپنےصفحےکی بہاربہرحال جوبن پرتھی۔ خطوں کے بیل بُوٹے آپ کے جوابات کی سیرابی سے قد آورعلمی درختوں کی شکل اختیارکرگئے ہیں۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ج: آپ سے غالباً پہلے بھی دست بستہ درخواست کی تھی کہ خط مختصر اور حاشیہ، سطر چھوڑکر لکھنے کی عادت اپنائیں، ایک تو آپ کی ہینڈ رائٹنگ کچھ گنجلک سی ہے، پھر ایڈیٹنگ کے لیے جگہ بھی نہیں ملتی، توکافی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوم، اگر تحریر میں اشعارکا استعمال کریں تو پلیز، درست طور پر کریں کہ اِک نقطے کے غلط استعمال سے محرم، مجرم ہوجاتا ہے۔ اور آپ کا تو خال ہی کوئی مصرع یا شعر درست ہوتا ہے، ہر ایک ہی کو کراس چیک کرناپڑتا ہے۔نیز،براہ مہربانی ان گزارشات کو اصلاحِ تحریر کے ضمن میں مثبت ہی خیال کیجیےگا کہ ہمارا مقصدآپ کی دل آزاری قطعاً نہیں۔
بولڈ تصاویر شایع نہ کریں
آپ پیدا بھی نہیں ہوئی ہوں گی، جب سے مَیں جنگ اخبارکا قاری ہوں۔1966 ء میں جنگ اخبار مشرقی پاکستان میں میرے گھر پر آتا تھا۔ اُس وقت میں کلاس4 میں تھا۔ بہرحال، بیٹی! آپ سے درخواست ہے کہ ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات پر ایسی بولڈتصاویرمت شایع کیاکریں۔ اِسی جریدے میں ’’قصص القرآن‘‘ جیسا سلسلہ بھی شایع ہوتا ہے۔ ( جاوید انور، اورنگی ٹاون، کراچی)
ج: آپ نے خط کے ساتھ جس تصویر کی کٹنگ بھیجی ہے، بخدا اُسے لگاتے ہوئے کئی بار سوچا، انتہائی مجبوری یہ تھی کہ وہ شُوٹ کافی پہلے ہوا تھا، جس میں اُس پہناوے کی کوئی ایک بھی تصویربہت مناسب نہیں تھی، جو سب سے بہتر تھی، وہی لگائی گئی۔ دراصل اِن دنوں سینٹر اسپریڈ پر اشتہار کی پٹّی بھی نہیں، تو مجبوراً زیادہ تصاویر لگانی پڑتی ہیں۔ بہرحال، آئندہ مزید احتیاط برتی جائےگی، آپ کی شکایت اپنی جگہ، ہمیں خُود بھی ایسی باتوں کا شدّت سے احساس رہتا ہے۔
پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟
شمارہ موصول ہوا۔ سُونی، ویران آنکھوں والی ماڈل دیکھتے آگے بڑھ گئے۔ ’’حالات وواقعات‘‘ میں منور مرزا آئی ایم ایف سے مذاکرات کا تذکرہ لائے۔ یہ آئی ایم ایف تو امربیل کی طرح ہے، اِس کےشکنجےمیں پھنسنے کےبعد پیٹرول توکیا، کسی بھی چیز کی قیمت میں کمی کا فائدہ عوام کے لیے سراب سے کم نہیں۔ ٹیکس پر ٹیکس لگا کر قوم کو تباہی کی دلدل میں دھکیل دیاگیا ہے کہ اب تو غریب آدمی کی دسترس میں علاوہ اپنی جان کے کچھ نہیں رہ گیا۔ وہ بھی پتا نہیں کب غربت و افلاس کی نذر ہو جائے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں قصّہ آتشِ نمردو پڑھا۔ ؎ اقبال نے کیا خُوب کہا ؎ آگ ہے، اولادِ ابراہیمؑ ہے، نمرُود ہے…کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصُود ہے۔
آج فلسطین میں نمرود نے پھر ایک آگ دہکا رکھی ہوئی ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں مولانا قاری محمّد عثمان سلمانی قبلۂ اول، مسجدِ اقصیٰ کی مذہبی وتاریخی اہمیت بیان کررہے تھے۔ آج مسجدِ اقصیٰ حضرت عمرؓ اورسلطان صلاح الدین ایوبی جیسے بہادروں کو پکار رہی ہے،مگرایک ارب سے زیادہ مسلمانوں میں کوئی اس آواز پرلبیک کہناوالا نہیں کہ امتِ مسلمہ کے حُکم ران خوابِ غفلت میں ڈوبے اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں عرفان جاوید، اپنے منفرد اسلوب میں امجد اسلام امجد کی ادبی خدمات بیان کررہے تھے۔’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کے ضمن میں میں ہم آپ کی رائے سے بالکل متفّق ہیں۔
’’انٹرویو‘‘ میں سیّد خلیل الرحمٰن اورفرّخ شہزاد بلوچستان کے نگراں وزیرِ اطلاعات سے بات چیت کر رہے تھے، جوبتارہے تھے کہ بلوچستان کی ترقی کا سارا کیک تو سردار اور حُکم ران کھا گئے۔ نئی کتابوں پر اختر سعیدی ماہرانہ تبصرہ فرمارہے تھے۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں نازیہ آصف وادیٔ سوات کی خُوب صورت جھیلوں، جھرنوں اور برف پوش چوٹیوں کی سیر کرواتی رہیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں طارق بلوچ صحرائی، حب الوطنی میں ڈوبا افسانہ لائے،حامد علی سید اورشبینہ گل انصاری کی غزلیات بھی پسند آئیں۔ اور ہمارے صفحے میں چٹھی کا اعزازمحمّد جاوید اقبال کے حصّے آیا، مبارک ہو۔ بھئی، ہم تو مدح ومذمّت کی پروا کیے بغیر اینٹری کرواتےرہیں گے کہ ؎ چُھٹتی نہیں ہے، منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ ( شہزاد بشیر محمد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: سلام ہے، آپ کی ثابت قدمی کو۔ اور صرف نامہ نگاری کے ضمن ہی میں نہیں، وہ جو آپ نے ازل سے قسم کھا رکھی ہے کہ کبھی کوئی مصرع، شعردرست نہیں لکھنا، اُس حوالے سے بھی آپ کی مستقل مزاجی لائقِ صد ستائش ہے۔
فی امان اللہ
اے ارض الانبیاؑ! ہم شرمندہ ہیں کہ یہ سرزمین انبیاؑ کا مسکن رہی ہے، جہاں آج ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اسپتالوں پر میزائل داغے گئے۔ اَن گنت معصوم پھول، شہادت کی منزل پاگئےاوراسلامی ممالک نے سوائے رسمی بیانات دینے کے کچھ نہیں کیا۔ منور مرزا کے بقول، آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہی مسئلے کا واحد اور پائےدار حل ہے۔ ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں’’قصّہ برادرانِ یوسف علیہ السلام کا‘‘پڑھا۔ الفاظ ہیں کہ موتی پروئے ہوئے۔ بےشک، قرآنِ مجید راہِ نجات ہے۔ ہماری روحیں جھنجھوڑنے کے لیے تو یہ قصّے ہی کافی ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں رسیلے، ذائقے دار لوکاٹ پر طبع آزمائی بھلی لگی۔ ویسے جس قدر ہوسکے، موسمی پھل ضرور کھانے چاہئیں کہ ربِ دوجہاں نے یہ سارے پھل، میوے ہمارے لیےہی زمین پراُتارے ہیں۔
عائشہ بی کے آزمودہ گھریلوٹوٹکےبھی بہت خُوب تھے۔منور راجپوت جب جب اوراق کے سینے پر قلم چلاتے ہیں، تب تب مہکتے مُسکراتے گُل بکھیرتے چلے جاتے ہیں۔ ’’تاریخِ اسلامی کے نوجوان شہنشاہ‘‘ بھی یک سر اچھوتا موضوع تھا۔ ’’آخر ہم اپنی اس یکسانیت زدہ، سخت بورنگ لائف سے اُکتاتےکیوں نہیں۔ تم دھیرےدھیرے مرنے لگتے ہو۔‘‘ نرجس ملک نے غالباً ہمارے دِل و دماغ کو پڑھ کر ہی ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر یہ سب لکھا۔ واقعی ہم سب بہت حد تک یک سانیت کے شکار ہیں کہ عرصے سے وہی ایک سا روٹین ہے۔
ڈاکٹر قراۃ العین ہاشمی اور ڈاکٹر تبسّم سلیم کے بریسٹ کینسر سے متعلق مضامین لاجواب تھے۔ مصطفٰی زیدی کے اوراقِ زندگی خُوب صُورت اندازمیں وا کیے گئے، تو آفتابِ صحافت، آغا شورش کاشمیری پرطرح دار قلم آزمائی کی صلاح الدین ندیم نے۔ شورش کاشمیری ایک شعلہ بیان مقررتھےاور اُن کا ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ تو اپنی خدمات کے حوالے سے ناقابلِ فراموش ہے۔ ڈاکٹر عبدالستار عباسی کا ’’سفرِوسط ایشیا‘‘ اختتام کو پہنچا اور بہت عمدہ انداز سے۔ اختر سعیدی کے تبصرے احساسِ لطیف کی بہترین عکّاسی کرتےہیں۔ قلم خُوب کِھلتا، مُسکراتا اور لکھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں مصباح طیّب کا سفرِ حجاز عقیدتوں، محبّتوں کا سفر رہا کہ خدا تعالیٰ جسے چاہے اپنے دَر پہ بلائے۔ ’’م۔ ع۔ ا، بھکر کی داستانِ حیات بھی سب کے لیےعبرت انگیز تھی۔‘‘ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں بفرزون، کراچی کی نازجعفری آئیں اور چھا گئیں۔ قصّہ مختصر، ہمارا فیملی میگزین ’’سنڈے میگزین‘‘ اپنی مثال آپ ہے۔ ہم تو اِن ہی اوراق سے خوشبوئیں کشید کرتے، محبّت کی سلائیاں آنکھوں میں بَھرتے ہیں۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: آپ سےایک درخواست ہے۔ اپنا سارا فوکس نثرنگاری ہی پر رکھیں کہ اِس خط میں آپ نے جو پانچ سے چھےاشعارتحریر کیے، حرام ہے، جو کسی کا ایک مصرع بھی وزن میں ہو اور چِٹھی کو یہ چوکھٹا بھی صرف نثر ہی کی بنیاد پر عطا ہوا ہے۔
* میری عُمر 14 سال ہے اور مَیں گذشتہ 5 سالوں سے جنگ، سنڈے میگزین کا مستقل و خاموش قاری ہوں، اِس ہفتے کا ’’عاشورۂ محرم ایڈیشن‘‘ پچھلے شماروں کی طرح بہترین تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں کہانی ’’مقروض‘‘ اچھی لگی۔ آخر تک یہی سوچتا رہا کہ اماں جی کے ذمّے پتا نہیں کتنا زیادہ قرض ہوگا۔ ’’رپورٹ‘‘ میں رئوف ظفر نے عافیہ صدیقی کا مقدمہ اچھی آواز میں بلند کیا۔ اللہ اُن کو رہائی عطا فرمائے۔ آمین، منور مرزا ’’حالات وواقعات‘‘کا بہترین انداز سےجائزہ لیتے نظر آئے۔ اُن کی ہر تحریر، مَیں شمارے میں سب سے پہلے پڑھتا ہوں۔ ’’قصص القرآن‘‘ شاید پہلی مرتبہ ڈیڑھ صفحات پر شائع ہوا، جس میں قصّۂ نوح علیہ السلام تفصیل سے پڑھنے کو ملا۔ ’’حیدرآباد دکن‘‘ کی سیر میں بھی بڑا مزہ آیا۔ باقی پورا شمارہ بھی زبردست تھا۔ (محمّد عمیر جمیل، منگھو پیر، کراچی)
ج: خاموش قاری صاحب! اب بولنا شروع کرہی دیا ہے، تو بول چال برقرار ہی رکھیے گا۔
* ڈاکٹر عبدالستار عباسی کا قسط وار ’’سفرِ وسط ایشیا‘‘ پڑھنے میں بہت مزہ آرہا ہے۔ بلاشبہ سفرنامےمعلومات کا اہم ذریعہ ہوتے ہیں۔ مختلف مُلکوں سے متعلق علم ہوتا ہے کہ وہاں زندگی کے شب وروز کیسے گزرتے ہیں، پھر حسین نظاروں کا احوال پڑھ کربھی دل ودماغ تازہ ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ ’’چائے خانہ راحت‘‘ کا ذکر بہت اچھا لگا۔ مضمون نگار کی تحریر بھی بہت عُمدہ ہے۔ ویل ڈن ڈاکٹر عباسی!! (ڈاکٹر ایم عارف سکندری، کھوکھر محلہ، حیدرآباد)
* مَیں پچھلے کئی سالوں سے جنگ، میگزین کا ریگولر قاری ہوں، اور کافی عرصے سے پروف ریڈنگ کی ایک غلطی نوٹ کررہا ہوں۔ حیرت ہے کہ اتنے عرصے میں بھی یہ غلطی درست نہیں کی گئی۔ آپ لوگ ’’مہنگائی‘‘ کی بجائے مسلسل ’’منہگائی‘‘ لکھ رہے ہیں اور بعض دفعہ تو مین سُرخی میں بھی ایسے ہی لکھا ہوتا ہے، براہِ مہربانی اس غلطی کو درست کریں۔ (عمران کنور)
ج: درست لفظ ’’منہگائی‘‘ ہی ہے، نہ کہ مہنگائی‘‘۔ اِسی لیے مسلسل کئی سالوں سے اس دھڑلے سے شایع کیا جارہا ہے اوراِس اُمید پر بھی کہ شاید اِسی طور یہ غلط العام لفظ درست املا کے ساتھ عام ہوجائے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk