السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
رگ رگ میں ٹھنڈک، بے حسی…
اُمید ہے، مزاج بخیرہوگا۔ سردی کی آمد آمد ہے، نرم نرم سی ٹھنڈک ہے اور ایسی ہی ٹھنڈک اور بےحسی مسلم اُمّہ کی رگ رگ میں سرایت کرچُکی ہے۔ اُمت کی بےحسی خون کے آنسو رُلارہی ہے۔ رونا فلسطین کا نہیں، بلکہ اپنی بے کسی کا ہے کہ ہم اُن کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ بس، آسمان سے ابابیلوں کے اُترنے کے منتظر بیٹھےہیں۔ایمان کے تین درجے بتائے گئے ہیں۔ برائی کو ہاتھ سے روکنا، زبان سے انکار اور دل سے بُراسمجھنا۔ ہم نہ جانے، ایمان کے تیسرے درجے پر بھی فائز ہیں یا نہیں۔
ہم سے زیادہ عملی احتجاج تو وہ غیرمسلم اقوام کر رہی ہیں، جنہیں ہم کافر کہتے ہیں۔ آفرین ہے، اُن پر، جو ببانگِ دہل اسرائیل کے ظلم پر اُسے شرم دلارہےہیں اورہم، ہمارے شاہ اور شاہ زادے صرف مِنمنارہے ہیں۔ ذرا دیر کو اپنی عیش کدوں، سونے چاندی کے محلات سے نکل کر’’اجازت نہیں دیں گے، ظلم بند کیا جائے اور فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘ جیسے گھسے پٹے بیانات دے کر پھر سے اپنی آرام گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ ایک کی مصیبت دوسرے کی آزمائش ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ اُن کی مصیبت ہمارے ایمان کی آزمائش نہیں، تو کیا ہے۔
قدرت کی جانب سے منافقین اور ایمان والوں کی چھانٹی ہورہی ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ اُس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ وہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے۔ فلسطینیوں کاصبرمارے ڈالتا ہے۔ جان، مال اور سب سے بڑھ کر اولاد جیسی قیمتی متاع کے زیاں کے باوجود ’’الحمدللہ‘‘ کہنا، تباہ حال گھروں کے ملبے پر کھڑے ہوکر حسبی اللہ کا ورد دل چیر دیتا ہے۔ کم ازکم مجھ جیسی نام کی کلمہ گو کوالحمدللہ اورحسبی اللہ کا درس ضرور ملا ہے کہ ان کا درست استعمال اور صحیح مقام کہاں ہے؟ (عشرت جہاں، لاہور)
ج: عشرت! اللہ گواہ ہے کہ آپ کی طرح، ہمارا دل بھی خون کے آنسو رو رہا ہے۔ بے شک، روزِ حشر صبر و ہمّت کے یہ کوہِ گراں، مظلوم فلسطینی ہوں گے اور نام نہاد امتِ مسلمہ کے گریبان۔ ہم سب ہی اپنی اپنی جگہ گناہ گار اور مجرم ہیں۔ہرنماز، ہرسجدےمیں دل کی گہرائیوں سے یہی دُعا نکلتی ہے کہ ’’اے رب العزّت! تُوغیب سے کوئی مدد فرما کہ ہم واقعی بہت بے بس ہیں۔‘‘ گرچہ آپ کی تحریر، اس صفحے کے فارمیٹ کے مطابق نہیں، لیکن یہاں اس لیے لگائی ہے کہ بہرحال، اِس صفحے کی ریڈرشپ سب سے زیادہ ہے۔ اگر پڑھ کے کسی ایک کا بھی ضمیرجاگ گیا، تواس سے بہتر کارِخیر کیا ہوگا۔
انٹرویو ادھورا رہ گیا!
’’حالات و واقعات‘‘ کے ضمن میں منور مرزا مسلسل پاکستانی حُکم رانوں کو رہنمائی فراہم کررہے ہیں۔ اللہ کرے، اُن کی عقل میں سما جائے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے ’’عالمی یومِ خوراک‘‘ کے موقعے پر دنیا کو سنگین صورتِ حال کی طرف متوجّہ کیا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر روبینہ مختار نے ’’بریسٹ کینسر‘‘ آگہی مہم کی مناسبت سے بہترین مضمون تحریر کیا۔ مضمون میں خواتین کو بہترین مشورے بھی دیئے گئے۔ مَردوں میں بھی اس کینسر کی نشان دہی کی گئی، لیکن علامات پر روشنی نہیں ڈالی گئی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصّہ بیان ہوا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں رابعہ فاطمہ خوراک کی حفاظت و اہمیت پر روشنی ڈال رہی تھیں۔ مصباح طیّب نے سنتِ نبویﷺ کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے۔
رؤف ظفر نے بےروزگاری کے سبب مُلک چھوڑنے والوں کے حوالے سے بہت ہی فکرانگیز رپورٹ تیار کی۔ ’’انٹرویو‘‘ میں افضل مراد نے ایک جگہ فرمایا۔ ’’دو بہنوں کے بعد پہلی نرینہ اولاد تھے۔‘‘، پھرایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’میرے گھر والے، بہن بھائی میری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔‘‘، وحید زہیر کو اُن سے پوچھنا چاہیے تھا کہ کیا اُن کے اور بھی بھائی ہیں؟ اس طرح تو یہ انٹرویو ادھورا رہ گیا۔ ’’متفرق‘‘ میں گلاب رائے نے نسلوں کے معمار، سکھ رام داس کی داستانِ حیات بیان کی۔ بہت عُمدہ تحریر تھی اور اب آیئے، آپ کےصفحے کی طرف، اس میں ہمارا اور خادم ملک کا خط شامل تھا۔ بخدا جب خادم ملک کا خط شامل ہوتا ہے، جریدے کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ بھئی، ہم تو اُن کے بہت قدردان ہیں۔ ہمارا نعرہ ہے، ’’خادم ملک، عرف بے کار ملک، زندہ باد۔‘ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)
ج: ہماری دُعا ہے کہ خادم ملک سے آپ کا یہ بلاوجہ کاObsession سلامت تا قیامت رہے۔ رہی انٹرویو کے ادھورے ہونے کی بات، تو بھائی، پہلی نرینہ اولاد، کہنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ کوئی دوسری نرینہ اولاد بھی ہوگی۔ وگرنہ کزنز وغیرہ بھی ’’بھائی‘‘ ہی کہلاتے ہیں، مگر یہ کون سی اتنی اہم بات ہے کہ جس کا آپ کو پتانہیں چلا، توغضب ہوگیا۔ افضل مراد کا بھائی ہو یا نہ ہو، دونوں صُورتوں میں غالباً آپ کا کاروبارِ زندگی تو چلتا ہی رہے گا ۔
ہر تحریر ناقابلِ اشاعت نہیں
’’سنڈے میگزین‘‘ کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں جگہ دینے پر آپ کا بے حد شکریہ۔ بندے کی ذاتی رائے ہے کہ اُس کی بھیجی ہوئی ہر تحریر ناقابلِ اشاعت نہیں ہوسکتی۔ خیر، آپ کے تحریر شائع کرنے کا معیار اور کسوٹی اپنی جگہ، بندہ اپنے تیئں روزنامہ جنگ سے وابستگی نبھانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہیے گا، انشاء اللہ۔ (بابر سلیم خان، لاہور)
ج: جی بالکل، ہمارا اپنا بھی یہی ماننا ہے کہ آپ کی ہر تحریر ناقابلِ اشاعت نہیں ہوتی۔ جس پر آپ کچھ محنت کرتے ہیں، وہ یقیناً قابلِ اشاعت ہوتی ہے اور اِسی لیے شائع بھی کردی جاتی ہے۔
اسٹیٹس معلوم نہیں ہوسکا
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آس رکھتا ہوں کہ اہلِ بزم خوش و خرّم ہوں گے اور یہ کہ اللہ پاک، خاتم النبیّین حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ہماری لغزشیں معاف فرمائے گا۔ سرورق پہ روضہ رسولؐ دیکھ کر آنکھوں کو سرور حاصل ہوا۔ اے کاش کہ ہر بار ایسا ہی سرِورق ہو۔ بہت سے لوگ بزم میں لوٹ رہے ہیں۔ رونقیں، بہار کا سماں پیش کررہی ہیں اور ان ’’رونق افروز‘‘ ہونے والوں میں مجھے سراہنے والے بھی شامل ہیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں اپنا نام دیکھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ سچّا واقعہ لکھنے کے بعد اُس میں ترمیم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
ہاں، مَیں نے ’’میرے نانا‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ صفحے کے لیے بھیجی تھی، اُس کا بھی اسٹیٹس تاحال معلوم نہیں ہوسکا۔ ’’سفرِ وسط ایشیا‘‘ ڈاکٹر عبدالستار عباسی خُوب لکھ رہے تھے، جو اکتوبر میں مکمل ہوا۔ سفر نامے میں حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے عُمدہ معلومات فراہم کی گئیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی مسند ناز جعفری کے نام رہی۔ مبارک ہو بھئی۔ ویسے اس صفحے پر جتنے بھی نامہ نگاروں کے نام آتے ہیں، سب ہی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)
ج: ناقابلِ اشاعت کی فہرست چیک کرتے رہیں، جلد اسٹیٹس معلوم ہوجائے گا۔
پاؤں میں چوٹ…
تازہ سنڈے میگزین کے صفحے ’’یادداشتیں‘‘ میں ڈاکٹر قمر رضوی کا مصطفیٰ زیدی پر اور صلاح الدین ندیم کا آغا شورش کاشمیری پر مضمون پڑھا۔ دونوں تحریریں بہت اچھی لگیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سفرِ وسط ایشیا کی آخری قسط بھی کمال تھی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں مصباح طیّب کا واقعہ پسند آیا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں فیاض سومرو نے پیر الٰہی بخش سے متعلق جو وضاحت کی، بہترین تھی۔ اگلے جریدے میں ایک عرصے بعد عرفان جاوید کا مضمون پڑھنے کو ملا۔
انہوں نے امجد اسلام امجد پر بہت ہی شان دار مضمون تحریر کیا۔ آپ سے درخواست ہےکہ عرفان جاوید کی تحریریں شائع کرتی رہا کریں۔ سرِورق کی ماڈل چندا بخاری کے کیا پائوں میں چوٹ لگی ہوئی تھی، کیوں کہ سفید پٹّی بندھی نظر آرہی تھی۔ ’’پیارا وطن‘‘ میں نادیہ آصف نے وادیٔ سوات کی خوب سیرکروائی۔ اگرچیئر لفٹ کا ایک ٹکٹ800 روپے کا ہے اور یہ چھے افراد تھے تو 4800روپے تو اُن کے چیئرلفٹ ہی پر خرچ ہوگئے، اس کا مطلب ہے کہ پورے سفر کے لیے تو نوٹوں کا سوٹ کیس درکار ہوگا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں طارق بلوچ صحرائی بھی کافی عرصے بعد نظر آئے۔ ’’تریاق کا زہر‘‘ اچھا افسانہ تھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: لگتا ہے، حضرات محدّب عدسہ لے کر ’’اسٹائل‘‘ کا مشاہدہ و مطالعہ فرماتے ہیں۔ ہم ’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ کے لیے تصاویر کو اکثر حتیٰ الامکان اِن لارج، زُوم کرتے ہیں، مگر بخدا ہمیں چندا بخاری کے پائوں کی چوٹ اور پٹّی دکھائی نہیں دی، مگر آپ کو دکھائی دے گئی۔ ویسے ایک پٹّی حضرات کی آنکھوں پر بھی ہونی چاہیے۔
فی امان اللہ
؎ زندگی بیت گئی، گنتے ہوئے تاریخیں..... کھا گئی وقت کی دیوار کلنڈر کتنے۔ لیجیے، سال 2023ء کا کیلنڈر بھی تمام ہوا اور ہر سال کی طرح سالِ رفتہ بھی ’’سنڈے میگزین‘‘ کو کوئی چُھٹی نہ ملی۔ وہ میر طاہر علی رضوی کا شعر ہے ناں(یاد رہے، یہ شعر مومن خاں مومن سے غلط طور پر منسوب کیا جاتا ہے) ؎ مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا..... اُس کو چُھٹی نہ ملے، جس کو سبق یاد رہے۔
تو بھئی، ہم نے تو قارئینِ کرام سے عشق و جُنوں کا سبق ایسا ’’پکّا پانی‘‘ یاد کررکھا ہےکہ پورے سال کے52-53 اتوار ہمیں آنا ہی آنا ہے، یعنی ہماری چُھٹی بالکل بند ہے۔ سال بھر ’’سنڈے میگزین‘‘ شایع ہو اور اُس میں ہر دل عزیز صفحہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ موجود نہ ہو، یہ تو ممکن ہی نہیں۔ تو چلیں، حسبِ روایت سال کے اختتام پر ایک بار پھر ذرا سال بھر کی سند یافتہ ہفتہ وار چِٹھیوں اور چِٹھیوں کی چِٹھی (سال کی بہترین چِٹھی) کا سرسری جائزہ لیے لیتے ہیں۔
سالِ گزشتہ کا ہمارا سال نامہ (Annual edition) ٭ یکم جنوری 2023ء کو آیا اور اُس میں سال 2022ء کے بہترین خطوط کا تذکرہ کیا گیا۔ ٭ 8 جنوری کو تجزیوں، تبصروں پر مبنی، کلر آف دی ایئر 2023ء سے مرصّع ایڈیشن کی کرسیٔ صدارت بدین کی فضا ادریس نے سنبھالی۔ ٭ 15 جنوری کو سنڈے میگزین کی شان دار لکھاری، سیال کوٹ کی شائستہ اظہر آئیں اور بس، ’’وہ آیا، اُس نے دیکھا اور فتح کرلیا‘‘ کے مصداق ہوگیا۔ ٭22 جنوری، اقبال ٹائون، راول پنڈی کے صاحبِ طرز لکھاری، محمّد جاوید کی اعزاز یافتگی کا دن تھا۔٭29 جنوری کو ایک اور پیاری لکھاری، لاہور کی عشرت جہاں نے مسند پر قدم رنجہ فرمائے۔٭5 فروری (یومِ یک جہتیٔ کشمیر ایڈیشن) میں خیرپور میرس کی ڈاکٹر تبسّم سلیم کی تشریف آوری ہوئی۔ ٭ 12 فروری صادق آباد کی نٹ کھٹ سی نیناں اکبر کیانی کا دن تھا، تو٭ 19 فروری کے شمارے کی خاص چٹھی، جھڈّو، وادیٔ مہران کی نورالہدیٰ محمّد اسلم کے نام رہی۔ جب کہ ٭ 26 فروری کو یہ تمغہ، کورنگی، کراچی کی شیما فاطمہ کو پہنایا گیا۔ ٭ 5 مارچ کے ’’عالمی یومِ خواتین ایڈیشن‘‘ کی بزم کی صدارت کااعزاز ایک مرد، چشتیاں، بہاول نگر کے جاوید اقبال کے حصّے آیا۔ ٭ 12مارچ، میرپور خاص کے شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی کا دن تھا، تو ٭19 مارچ کو صادق آباد کی ’’ملکۂ جذبات‘‘ اقصیٰ منور ملک کی بھی آمد ہوگئی۔ ٭26 مارچ (مرحبا رمضان المبارک ایڈیشن) کی نورانیت ایک بار پھر راول پنڈی کے محمّد جاوید کا مقدّرہوئی۔ (یاد رہے، ’’آپ کا صفحہ‘‘کی اعزازی مسند پر دو دو ’’جاوید‘‘ زندۂ جاوید ہیں۔ ایک اقبال ٹائون، راول پنڈی کے محمّد جاوید اور دوسرے بلدیہ کالونی، چشتیاں، بہاول نگر کے جاوید اقبال)۔ ٭2 اپریل کے ’’رمضان ایڈیشن‘‘ کی پہلی کام یاب نامہ نگار کراچی کی شاہدہ تبسّم ٹھہریں۔ تو بالترتیب ٭9 اپریل اور ٭16 اپریل کی بزمِ خاص پر گلستانِ جوہر، کراچی کی خالدہ سمیع کی حُکم رانی رہی۔ اُس کےبعدکا شمارہ ٭ ’’عیدالفطر ایڈیشن‘‘ تھا، جس کی مہمانِ خصوصی ایک بار پھر بنیں، عشرت جہاں۔ تو ٭30 اپریل کو ہمارے مستقل نامہ نگار ضیاءالحق قائم خانی کے توسّط سے اُن کے شہر’’جھڈو‘‘کا نام بھی خُوب جگمگایا۔ ٭ 7 مئی کو شاہدہ تبسّم کے بعد، گلشنِ اقبال، کراچی کی شاہدہ ناصر نے بھی نشستِ اعزازی سنبھالی، تو ٭14 مئی (مدرز ڈے اسپیشل ایڈیشن) کی مسندِ خاص ایک بہت پیاری ماں، شبینہ گل انصاری کے حصّے آئی۔٭ 21 مئی شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی کی دوسری صدارت کا دن تھا اور ٭ 28 مئی، جاوید اقبال کی دوسری فتح کا۔ ٭4 جون کو بہت مہذّب و شائستہ سی شائستہ اظہرایک بار پھر بازی لے گئیں۔ ٭ 11 جون کو پنڈی والے محمّد جاوید نے تیسری بار فتح کا ڈنکا بجایا۔ ٭ 18جون (فادرز ڈے ایڈیشن) شہزادہ بشیر کو بھی تیسری بار فاتح کرگیا اور ٭ 25 جون (عیدالاضحیٰ ایڈیشن) پر کراچی کی ایمن علی منصور نے اینٹری دی۔ ٭2 جولائی کو شہزادہ بشیر چوتھی بار مسند نشیں ہوئے، تو ٭ 9 جولائی کو ڈاکٹر تبسّم سلیم دوسری بار۔ ٭16 جولائی کو ضیاء الحق قائم خانی کا نام دوسری بارجگمگایا، تو ٭23 جولائی (محرّم الحرام ایڈیشن اوّل) اور ٭29 جولائی (عاشورۂ محرّم ایڈیشن) میں یکے بعد دیگرے شہزادہ صاحب ہی کی لاٹری کُھلی۔ ٭6 اگست کو سنڈے میگزین کےبہت پرانے قاری، واپڈا ٹائون، لاہور کے ملک محمّد رضوان کی ایک طویل مدّت بعد واپسی ہوئی، تو ٭ 13اگست (جشنِ آزادی ایڈیشن) کی مہمانِ خاص ایک بار پھر شیما فاطمہ تھیں۔ ٭ 20 اگست کو شہزادہ صاحب ساتویں بار اور ٭ 27 اگست کو محمّد جاوید صاحب چوتھی بار نگرانِ بزم کے منصب پر فائزہوئے۔ ٭3 ستمبر کے ہمارے بہت ہی پیارے ’’عالمی یومِ حجاب ایڈیشن‘‘ کی خاص نشست پر، قابلِ قدر استاد پروفیسر سیّد منصور علی خان براجمان تھے، تو ٭10 ستمبر کو شہزادہ بشیر نے آٹھویں بار خود کو اس اعزاز کا حق دار ثابت کیا۔٭ 17 ستمبر کو سنجیدہ و متین سی عشرت جہاں نے ہیٹ ٹرک کی، تو ٭24 ستمبر (ربیع الاوّل ایڈیشن) کو خالدہ سمیع نے۔ ٭یکم اکتوبر، شاہدہ ناصر کے لیے دوسری کام یابی لیے آیا، تو ٭8 اکتوبر ڈاکٹر تبسّم سلیم کے لیے تیسری۔ ٭15 اکتوبر کو کراچی کے ایک دیرینہ قاری عروج عباس نے پہلی اینٹری دی اور ٭22 اکتوبر کو بفرزون، کراچی کی نار جعفری نے۔ جب کہ ٭29 اکتوبر کو محمّد جاوید کو چوتھی بار ’’تختِ طائوس‘‘ پر پائوں پسارنے کا موقع ملا۔ ٭5 نومبر کو قائم خانی نے جھڈو کے نام کو پھر چار چاند لگائے۔ ٭ 12 نومبر کو بزرگ پروفیسر سید منصور علی خان نےدوسری باربزم کی صدارت سنبھالی، تو ٭19 نومبر کو شہزادہ بشیر نے نویں بار۔ اور ٭26 نومبر کو ڈاکٹر تبسّم سلیم کی بھی ہیٹ ٹرک ہوگئی۔
سال 2023ء کی رخصتی کا وقت قریب آیا، تو ٭3 دسمبر کو ملک محمّد رضوان نے دوسری فتح بھی سمیٹ لی۔ تو ٭ 10 دسمبر کو شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی نے دسویں سیڑھی پر قدم رکھ دیا۔ ٭17 دسمبر کو پروفیسر صاحب نے تیسری بار بزم کو اعزاز بخشا، تو ٭ 24دسمبر کو جاوید اقبال بھی ہیٹ ٹرک کر گئے اور .....٭ 31 دسمبر سال کے آخری جریدے پر بہت عرصے سے خاموش، گلشنِ اقبال، کراچی کے چاچا چھکن نے تشریف آوری کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ یوں سال 2023ء کے 53 ہفتوں کے شماروں کے واحد مستقل سلسلے ’’آپ کا صفحہ‘‘ اور اعزازی چِٹھیوں کا سفر تمام ہوا۔
پورے سال کی چِٹھیوں، اُن میں سے بہترین چِٹھیوں اور پھر چِٹھیوں کی چِٹھی کا فیصلہ کرنے کے ضمن میں کچھ خاص مشکل یوں پیش نہ آئی کہ درحقیقت مقابلہ تھا ہی دو افراد، ایک سیال کوٹ کی شائستہ اظہر اور دوسرے راول پنڈی کے محمّد جاوید کے درمیان۔ شائستہ اظہر کے دو نامے جریدے کی زینت بنے، تو اس بار ایک نئی روایت کے تحت انہوں نے ہمارے 20 اگست کے شمارے کا ’’اسٹائل رائٹ اَپ‘‘ بھی لکھا، جب کہ محمّد جاوید صاحب کے 5 خطوط ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کے اعزاز سے سرفراز ہوئے اور سب ہی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ لیکن بہرحال ’’شائستہ اظہر، سیال کوٹ‘‘ کی 4 جون 2023ء کی چِٹھی کو ’’سال کی بہترین چٹھی‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ سالِ رفتہ محمّد سلیم راجا کی بزم میں عدم شرکت کے باعث کئی خطوط نگاروں کو مسند نشیں ہونے کا موقع ملا، خصوصاً شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی نے تو باقاعدہ ولی عہد ہونے کا حق ادا کیا، لیکن ساتھ ہی دیگر مستقل یا وقتاً فوقتاً شریک ہونے والے خطوط نگاروں مثلاً سیّد زاہد علی، رونق افروز برقی، شری مُرلی چند جی، پرنس افضل شاہین، نواب زادہ خادم ملک، نرجس مختار، نازلی فیصل، ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، سیّد شاہ عالم زمرّد، غلام اللہ چوہان، مبارک علی ثاقب، مریم طلعت محمود بیگ، شمائلہ نیاز، بابر سلیم خان، ایم عبدالرؤف، تجمّل حسین مرزا، ایم اے ہاشمی آف گلگت، ریحانہ ممتاز، اشوک کمار کولھی، شہنازسلطانہ، محمّدعثمان، منتہیٰ ریاض، ابنِ غلام نبی اور ماہ نور شاہد نیز، سب برقی خطوط بھیجنے والوں کے بھی ہم تہہ دل سے ممنون و شُکر گزار ہیں کہ وہ اپنے قیمتی وقت میں سےکچھ گھڑیاں نکال کر نہ صرف ’’سنڈے میگزین‘‘ کا باقاعدگی سے مطالعہ فرماتے ہیں، بلکہ مندرجات پر کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اپنا یک سرغیرجانب دارانہ تبصرہ بھی لکھ بھیجتے ہیں۔ یے شک، یہی قارئین، لکھاری، نامہ نگار ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کی متاعِ حیات بلکہ شہہ رگ ہیں۔ جب تک اِن کا ساتھ موجود، یعنی جسم و جاں کا رشتہ برقرار ہے، حالات کیسے ہی ناسازگار کیوں نہ ہوجائیں، ان شاء اللہ تعالیٰ بات بنی رہے گی۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk