• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امراض کا پھیلاؤ، پولیو ٹیمز پر حملے، طبی سہولتوں کا فقدان، ادویہ کی قیمتوں میں اضافہ

دُنیا بَھر میں ریاستیں اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہیلتھ سیکٹر پر ہر سال ایک خطیر رقم خرچ کرتی ہیں، لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کی طرح گزشتہ برس بھی مُلک بَھر میں صحتِ عامّہ کی صورتِ حال خاصی دِگرگُوں رہی۔ گرچہ 2022ء کے مقابلے میں پچھلے سال پولیو کیسز میں خاطر خواہ کمی آئی اور مُلک بھر میں مجموعی طور پر صرف 5کیسز رپورٹ ہوئے، لیکن سالِ رفتہ پولیو ورکرز پر حملوں میں تیزی دیکھی گئی۔ 

جنوری میں خیبرپختون خوا کے ضلع، ڈیرہ اسماعیل خان میں بعض شر پسندوں نے پولیو ورکرز کی حفاظت پر مامور پولیس وین پر حملہ کیا، جس میں 5پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔ مئی میں شمالی وزیرستان میں فائرنگ سے پولیو ورکرز کی سکیوریٹی پر تعیّنات ایک پولیس اہل کار شہید، جب کہ ایک زخمی ہو گیا۔ اگست میں بلوچستان کے دارالحکومت، کوئٹہ کے علاقے، نواں کلی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے انسدادِ پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور دو پولیس اہل کاروں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ 

اسی ماہ کوئٹہ ہی کے نواحی علاقے، کلی قنبرانی میں پولیس اہل کاروں نے پولیو ورکرز پر حملہ ناکام بنا دیا۔ اکتوبر میں پنجاب کے ضلع، سرگودھا میں بعض شر پسند عناصر نے خواتین پولیو ورکرز پر اینٹوں سے حملہ کیا اور انہیں ہراساں کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔ نومبر میں خیبرپختون خوا کے علاقے، بنّوں میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور ایک پولیس اہل کار شہید ہو گیا۔ ہر چند کہ 2023ء میں پولیو کیسز کی تعداد میں کمی واقع ہوئی، لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ گزشتہ برس سندھ میں پولیو کے 3کیسز سامنے آئے۔ 

واضح رہے کہ صوبۂ سندھ میں آخری مرتبہ 2020ء میں پولیو کے 22کیسز سامنے آئے تھے۔ صوبائی حُکّام نے سندھ میں پولیو کیسز سامنے آنے کا سبب افغانستان سے منتقل ہونے والے پولیو وائرس کو قرار دیا ، جب کہ 2023ء میں 5نئے کیسز کے بعد گزشتہ 16برس کے دوران پاکستان میں پولیو وائرس سے متاثرہ بچّوں کی تعداد 1357ہو گئی۔

2023 ء میں مُلک بھر میں ایچ آئی وی ایڈز کے 9ہزار نئے مریض رجسٹر ہوئے اور یوں موذی مرض سے متاثرہ رجسٹرڈ مریضوں کی مجموعی تعداد 63ہزار 202ہو گئی۔ ’’نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام‘‘ کے ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں اس وقت ایچ آئی وی ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد 2لاکھ 10ہزار ہے، لیکن ان میں سے صرف 63ہزار 202افراد میں مذکورہ مرض کی تشخیص ہوئی ہے اور ان میں سے 40ہزار 652مُلک بھر میں قائم 78مراکز سے اپنا علاج کروا رہے ہیں۔

تاہم، یہاں یہ اَمر تشویش ناک ہے کہ ایڈز سے متاثرہ کم و بیش ڈیڑھ لاکھ افراد خود کو لاحق موذی مرض کا علم نہ ہونے کی وجہ سے اسے دوسرے افراد میں منتقل کر رہے ہیں۔ ایسے افراد کی کھوج لگانے کے لیے قومی ایڈز کنٹرول پروگرام کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ گزشتہ برس پاکستان بَھر میں ہیپاٹائٹس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان دُنیا کا دوسرا بڑا مُلک بن گیا۔ ایک اندازے کے مطابق ہر 20میں سے ایک پاکستانی ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے ، جب کہ بالغ افراد میں اس کے پھیلائو کی شرح 11.55فی صد ہے۔

نیز، سالانہ تقریباً 9لاکھ افراد اس مرض کی وجہ سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ہوگئی ہے، لیکن رجسٹریشن نہ ہونے، ڈیٹا بیس کی عدم موجودگی اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کی کمی سے متاثرہ افراد کے دُرست اعداد و شمار سامنے نہیں آ رہے۔ 

واضح رہے کہ دُنیا بَھر میں سب سے زیادہ سرنجز پاکستان میں استعمال کی جاتی ہیں، جس کی بڑی وجہ شہریوں کا انجیکشن لگانے پر اصرار ہے اور استعمال شدہ سُرنجز کے دوبارہ استعمال ہی سے ہیپاٹائٹس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گرچہ متعلقہ حُکّام نے 2030ء تک مُلک سے اس مرض کے خاتمے کا عزم کرکھا ہے، لیکن ماضی کی طرح 2023ء میں بھی ہیپاٹائٹس پر قابو پانے کے اقدامات کا فقدان رہا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے آٹو لاک سرنجز کے استعمال کے احکامات کے باوجود تاحال وہی عام سرنجز استعمال کی جا رہی ہیں، جنہیں دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مُلک بَھر میں غیر محفوظ انتقالِ خون کا سلسلہ بھی جاری ہے، جس سے ہیپاٹائٹس اور ایڈز جیسےامراض پھیل رہے ہیں۔

تشخیص کا نظام بہتر نہ ہونے اور علاج معالجے کی ناکافی سہولتوں کے سبب مُلک بھر میں ٹی بی کے پھیلائو میں بھی اضافہ ہوا۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال ٹی بی کے 5لاکھ 10ہزار نئے کیسز رپورٹ ہورہے ہیں، جب کہ ملٹی ڈرگز ریزیسٹینٹ ٹی بی کے کیسز کی سالانہ تعداد اب بھی 15ہزار ہے۔ یاد رہے کہ ٹی بی اور ملٹی ڈرگز ریزسٹینٹ ٹی بی کے مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان دُنیا میں بالتّرتیب پانچویں اور چوتھے نمبر پر ہے۔ گرچہ قومی ٹی بی کنٹرول پروگرام کا مِشن 2035ء تک مُلک بَھر سے ٹی بی کا خاتمہ ہے، لیکن اس کے برعکس2023ء میں بھی عملی اقدامات کی بجائے زبانی جمع خرچ ہی سے کام چلایا جاتا رہا۔ 

نتیجتاً، ٹی بی سے متاثرہ افراد اور اس سے ہونے والی اموات میں اضافہ دیکھا گیا۔ اس مرض سے بچائو کے لیے عوام کو آگہی دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ برس لاکھوں افراد مچھر سے پھیلنے والی بیماریوں، ڈینگی، ملیریا اور لشمینیا سے متاثر ہوئے ، جب کہ مُلک میں سب سے زیادہ کیسز ملیریا کے رپورٹ ہوئے۔ عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں کے دوران دُنیا بھر میں ملیریا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس کا سبب موسمیاتی تبدیلیاں ہیں، جب کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جہاں یہ بیماری زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق 2022ء کے تباہ کُن سیلاب کے نتیجے میں پاکستان میں ملیریا کے مریضوں کی تعداد میں 5گُنا اضافہ ہوا، جس کے اثرات 2023 ء میں بھی نظر آئے اور ملیریا کے لاکھوں کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ صرف سندھ میں جنوری سے نومبر تک 5لاکھ 20ہزار 32مریض سامنے آئے۔ واضح رہے کہ مچھر مار اسپرے، لاروا سائیڈل ایکٹیویٹی سمیت دیگر رائج طریقۂ کار نہ اپنانے کی وجہ سے بھی ملیریا سمیت دیگر امراض میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔ 2023ء میں مُلک بھر میں ڈینگی کے بھی ہزاروں کیسز رپورٹ ہوئے۔ گزشہ برس پنجاب کے 36اضلاع میں ڈینگی کے 14ہزار335، بلوچستان میں جنوری سے اکتوبر تک 4ہزار 670، سندھ میں جنوری سے نومبر تک 2ہزار 515اور خیبر پختون خوا میں جنوری سے اکتوبر تک ڈینگی کے 629 کیسز سامنے آئے۔

ماہرینِ صحت کے ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت تھیلیسیما مائنر کے ایک کروڑ اور تھیلیسیما میجر کے ایک لاکھ سے زاید مریض موجود ہیں، جن سے یہ مرض اگلی نسلوں میں منتقل ہو رہا ہے اور اس مرض سے متاثرہ 10ہزار بچّے سالانہ پیدا ہو رہے ہیں۔ تھیلیسیما کے علاوہ ہیموفیلیا بھی ایک موروثی بیماری ہے۔ تاہم، ان سمیت خون کی دیگر بیماریوں پر قابو پانے اور متاثرہ افراد کے علاج کے لیے حکومت 2023ء میں بھی کوئی حکمتِ عملی بنانے یا نتیجہ خیز اقدامات سے قاصر رہی۔ گزشتہ برسوں کی طرح 2023ء میں بھی پاکستان میں ذیابطیس کے مریضوں میں اضافہ ہوا۔ ذیابطیس کی بین الاقومی تنظیم کے مطابق اس وقت پاکستان میں اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد 3کروڑ 30لاکھ ہے۔ 

یعنی ہر چوتھا پاکستانی ذیابطیس کا شکار ہے، جب کہ 97فی صد افراد مرض کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ایک یا ایک سے زاید پیچیدگیوں میں مبتلا ہیں اور ان میں سے 79فی صد افراد اس بات سے بھی لا علم ہیں کہ وہ ذیابطیس کے شکار ہیں۔ ماہرینِ صحت کا ماننا ہے کہ مرض کی جلد تشخیص، بروقت علاج اور پرہیز کے ذریعے ذیابطیس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو خاصی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ 2023ء میں ہڈیوں، پیٹ و معدے، غدود، مثانے، گُردوں، دل و دماغ اور خواتین کے امراض سمیت غذائی قلّت، ہیضے، ماں اور بچّے کے صحت اور حفاظتی ٹیکوں کی شرح بڑھانے سمیت مختلف بیماریوں کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات نہیں کیے جاسکے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں آبادی کے تناسب سے معالجین کی تعداد کم ہونے کے سبب ڈاکٹرز کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ معائنے کے دوران مریض کو بیماری اور اس کے علاج سے متعلق بھرپور آگہی فراہم کر سکیں، لہٰذا سرکاری سطح پر آگہی مہمات چلانے کی اشد ضرورت ہے، جس کے لیے اخبارات اور ٹی وی چینلز سمیت سوشل میڈیا، بِل بورڈز اور پوسٹرز سمیت دیگر ذرایع استعمال کیے جا سکتے ہیں، جب کہ اس ضمن میں سوشل موبلائزرز بھی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔

مُلک بَھر میں سرکاری اسپتالوں کی تعداد اور صحت کی سہولتوں میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ اتائی انسانی جانوں سے کھیلتے رہے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ، سیّد مُراد علی شاہ نے اپنی بجٹ تقریر میں اعلان کیا تھا کہ جون تک صوبے میں جاری صحت سے متعلق 14منصوبے مکمل کر لیے جائیں گے، لیکن ان میں سے کسی ایک منصوبے کا بھی افتتاح نہیں ہو سکا۔ اسی طرح گرچہ صوبے کے مختلف اسپتالوں میں تزئین و آرائش کے بعد نئے وارڈز قائم کیے گئے، لیکن کوئی نیا اسپتال قائم نہیں ہو سکا۔ دوسری جانب نگراں وزیرِ اعلیٰ، جسٹس (ر) مقبول باقر اور نگراں وزیرِ صحت،ڈاکٹر سعد نیاز کے درمیان روبوٹک سرجری کی مشینری کی خریداری کے حوالے سے سرد جنگ جاری رہی۔

نگراں وزیرِ اعلیٰ کا مؤقف تھا کہ روبوٹک سرجری کی مشینز کی خریداری کی اجازت گزشتہ حکومت نے دی ہے، جسے وہ روک نہیں سکتے، جب کہ نگراں وزیرِ صحت کا کہنا تھا کہ کروڑوں کی مشینری اربوں میں خریدی جارہی ہے، جس کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ اس رقم کو صحت کی سہولتوں کی بہتری کے لیے خرچ کیا جانا چاہیے۔ گزشتہ برس پنجاب کی نگراں حکومت نے گوجرانوالہ میں 100بستروں پر مشتمل ایک نئے اسپتال کا افتتاح کیا اور اس کے ساتھ ہی میو اسپتال، جناح اسپتال، چلڈرن اسپتال اور گنگا رام اسپتال سمیت دیگر اسپتالوں کے شعبۂ حادثات کی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا۔

تاہم، یہ سارے منصوبے کسی منصوبہ بندی کے بغیر شروع کیے گئے، جس کی وجہ سے شعبۂ حادثات میں آنے والے مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں کسی نئے سرکاری اسپتال کا افتتاح نہ ہو سکا۔ دوسری جانب گزشتہ برس خیبر پختون خوا اور سندھ میں میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ کے پرچے لیک ہونے پر طلبہ، والدین، ڈاکٹر تنظیموں اور سول سوسائٹی نے احتجاج کیا۔ اس دوران خیبرپختون خوا میں ایجوکیشن ٹیسٹنگ اینڈ ایویلوئیشن کے تحت لیے گئے انٹری ٹیسٹ میں اُس وقت ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا کہ جب ٹیسٹ کے دوران بڑی تعداد میں امیدواروں کو بلیو ٹوتھ ڈیوائس کے ذریعے نقل کرتے پکڑا گیا۔ 

اس دوران 44 امتحانی مراکز سے درجنوں امیدواروں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا گیا اور ان پر مقدّمات درج کیے گئے۔ صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔ بعد ازاں پولیس نے واقعے میں ملوّث گروہ کو گرفتار کیا، جس کے بعد ٹیسٹ دوبارہ لینے کے احکامات جاری کیے گئے۔ تاہم، دوبارہ ٹیسٹ لینے پر ایک بار پھر پیپر لیک ہونے کے الزامات سامنے آئے اور یہ پرچہ بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ اس موقعے پر وائس چانسلر، خیبر میڈیکل یونی ورسٹی، ڈاکٹر ضیاء الحق کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ کے دوران کوئی پیپر لیک نہیں ہوا۔ 

ٹیسٹ کے بعد پرچہ پبلک ڈاکیومنٹ بن جاتا ہے اور ممکن ہے کہ کسی نے اس کی تصویر لے کر وائرل کر دیا ہو۔ سندھ میں بھی میڈیکل کے انٹری ٹیسٹ کا پرچہ لیک ہوا، جس پر دوبارہ ٹیسٹ لیا گیا، لیکن دوسری مرتبہ پھر پرچہ لیک ہونے کے الزامات سامنے آئے، جس پر طلبہ نے احتجاج کیا۔ پہلا پیپر جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی سے لیک ہوا، جس پر تحقیقاتی کمیٹی نے ٹیسٹ دوبارہ لینے سمیت ملوّث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی۔ تاہم، واقعے میں ملوّث افراد کا تعیّن نہ ہوسکا اور اس ضمن میں ایف آئی اے بھی اپنی تحقیقات مکمل نہ کر سکی۔ دوسرا ٹیسٹ ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے تحت لیا گیا اور ایک مرتبہ پھر پیپر لیک ہونے کے الزامات سامنے آئے۔ اس مرتبہ امیدوار طلبہ نے عدالت سے رجوع کیا اور ڈاکٹر تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھی سخت ردِ عمل ظاہر کیا گیا۔

2023ء میں حکومت نے ادویہ کی قیمتوں میں مزید 20فی صد اضافہ کر دیا، جس سے غریب عوام کی مشکلات بڑھ گئیں۔ حکومت اور فارما سوٹیکل کمپنیز نے خام مال مہنگا ہونے کو ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کا سبب قرار دیا، جب کہ عوام نے مطالبہ کیا کہ انہیں ادویہ پر سبسڈی دی جائے۔ حکومت کی جانب سے ادویہ تو منہگی کی جا رہی ہیں، لیکن مقامی سطح پر ادویہ کی تیاری کو آسان نہیں بنایا جارہا۔ مقامی ادویہ کی تیاری اور ڈریپ سے منظوری کا عمل اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ اب مقامی طور پر ادویہ کی تیاری کی کوششیں بھی معدوم ہوتی جارہی ہیں، جب کہ بھارت میں بڑی تعداد میں مقامی ادویہ نہایت کم قیمت پر دست یاب ہیں۔ حکومت کو اس معاملے پر بھی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔