• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی معیشت قدرے بہتر، یوکرین جنگ، اسرائیلی سفاکیت نے تعمیر و ترقی کی راہ روک دی

سال2023 ء میں عالمی معیشت کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ پوسٹ کووِڈ دَور کی بحالی نہ صرف یقینی بنائے بلکہ اُسے تیز اور متوازن بھی کرے تاکہ دنیا کے ہر خطّے تک اس کے ثمرات پہنچ سکیں۔بلاشبہ، کووِڈ دَور میں طویل لاک ڈائونز کے سبب ترقّی پذیر اور ترقّی یافتہ ممالک کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا اور وبا پر تو نسبتاً کم عرصے ہی میں قابو پا لیا گیا، لیکن اس کے نتیجے میں دنیا بَھر کی معیشت بیٹھ گئی اور پھر اس معاشی زبوں حالی کے اثرات لگ بھگ تمام تر شعبہ ہائے زندگی میں بہت واضح نظر آئے۔2021ء کے بعد اقتصادی بحالی تو کسی حد تک ممکن ہوئی کہ جب دنیا کو پانچ، پانچ ویکسینز مفت ملنے لگیں، لیکن کِسے پتا تھا کہ ابھی ایک اور مصیبت ہلّا بولنے کو تیار ہے۔

فروری 2022ء کے آخری ہفتے میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرین پر حملہ کر کے جہاں دنیا کو حیران کیا، وہیں معاشی بحالی کے سب منصوبوں پر بھی پانی پھیر دیا۔ جس عالمی معیشت کی ترقّی کی رفتار3.5 سے آگے جارہی تھی، وہ2023ء میں نہ صرف3 فی صد تک محدود رہی، بلکہ ماہرین کے تخمینوں کے مطابق، 2024ء میں 2.9 فی صد کے اردگرد رہے گی، یعنی ترقّی میں پورے چھے پوائنٹس کی کمی کا خدشہ ہے۔

اگر دیکھا جائے تو یوکرین جنگ سے پیدا شدہ مسائل تین اقسام کے ہیں۔ ایک تو اس سے منہگائی میں ہوش رُبا اضافہ ہوا، جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا، مگر غریب ممالک کی تو گویا لُٹیا ہی ڈبو دی، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔پھر افراطِ زر، خوراک اور توانائی کی کمی الگ سِتم ڈھا رہی ہے، جب کہ بے روزگاری کا عفریت بھی ہر طرف قدم جما چُکا ہے، یہاں تک کہ ترقّی یافتہ ممالک میں اپنے عوام کو روزگار کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، اکتوبر میں شروع ہونے والا حماس، اسرائیل تصادم کیا رنگ دِکھائے گا، اس کا درست اندازہ لگانا تاحال مشکل ہے، کیوں کہ اسرائیلی بربریت نے پورے خطّے کے امن اور ترقّی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ 

گزشتہ پندرہ برس کا عالمی اقتصادی ریکارڈ دیکھا جائے، تو منظر نامہ حوصلہ افزا ہی رہا، کیوں کہ پہلے مالیاتی بحران اور پھر کورونا جیسی عالمی وبا پر عالمی مالیاتی اداروں اور ممالک کے اقتصادی مینیجرز نے بڑی مہارت سے قابو پایا اور اپنی حکمتِ عملی سے عالمی ترقّی کو ایک معیار سے نیچے نہیں گرنے دیا، حالاں کہ اُس وقت بہت سے خود ساختہ ماہرین اور افواہ ساز دنیا کی تباہی کی بڑھ چڑھ کر پیش گوئیاں کر رہے تھے۔

دیکھا جائے تو عوام کو کورونا وبا نے اِتنا بے حوصلہ نہیں کیا، جتنا انسان کی مسلّط کردہ یوکرین جنگ نے کیا ہے، جسے فروری24 ء میں دو سال ہوجائیں گے۔ پھر یہ کہ افراطِ زر پر قابو پانے کے لیے مانیٹری پالیسی میں ردّ وبدل اور اسے سخت کرنے سے بھی معاشی حالات گمبھیر ہوئے۔ پاکستان میں بھی شرحِ سود بڑھتے بڑھتے 22فی صد پر پہنچ چُکی ہے۔ نیز، مالیاتی سپورٹ میں کمی سے( جیسے مختلف شعبوں میں سبسڈیز کا خاتمہ) عوام کی زندگی مشکل ہوئی، تو عالمی معیشت سکڑنے سے مختلف ممالک کو قرضوں کے حصول میں بھی دشواری کا سامنا رہا۔دوسری طرف، موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں، سیلاب اور زلزلوں کی صُورت ہزاروں افراد کی ہلاکت اور اربوں روپوں کی املاک کی تباہی کا باعث بنیں۔اِس پس منظر میں ماہرین اگلے دو برسوں کو سختی کے سال بتاتے ہیں کہ معیشت میں بہتری تو آئے گی، لیکن یہ سب دھیرے دھیرے ہی ہوگا۔

عالمی اقتصادی ماہرین کے مطابق، اگر عالمی معیشت کو مدد فراہم کرنے کے غیرمعمولی اقدامات سامنے نہ آئے، تو یہ2024ء میں مزید سُست ہوکر2.9 تک گر سکتی ہے۔ اِن اقدامات میں یوکرین جنگ کا اختتام اور چین کی سُست رفتار معیشت میں تیزی سرِفہرست ہیں۔یاد رہے، ترقّی کی رفتار کووِڈ کے فوراً بعد3.8 تک پہنچ چُکی تھی اور دنیا بھر میں یہ اعتماد پختہ ہو رہا تھا کہ حالات جلد سنبھل جائیں گے، سیّاحت نے غیرمعمولی ترقّی دیکھی۔

تاہم، مشکل یہ ہوئی کہ ان ناگہانی مصیبتوں نے اُن ترقّی یافتہ معیشتوں کو دھچکا لگایا، جو عالمی معیشت اور ترقّی پذیر ممالک کے لیے انجن کا کام کرتی ہیں تاکہ وہ آگے بڑھ سکیں۔ کوئی کچھ بھی کہے، لیکن عالمی معاشی نظام انہی اصولوں پر چلتا ہے اور فی الحال اس میں کسی فوری انقلاب کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ سب کو اس نظام کا حصّہ بننا ہی پڑے گا۔ترقّی یافتہ معیشتیں عالمی وبا کے فوراً بعد2.6فی صد کے حساب سے ترقّی کر رہی تھیں، لیکن یوکرین جنگ نے اُنہیں2023 ء میں1.5 پر لاکھڑا کیا، جب کہ2024ء میں یہ مزید سُست رفتاری سے 1.4پر آسکتی ہیں۔

امریکا میں ترقّی توقّع سے زیادہ تیز رفتار رہی، جب کہ یورپ میں اُمید سے کم، کیوں کہ وہ براہِ راست یوکرین جنگ کی زَد میں ہے۔ترقّی پذیر معیشتیں، جو صدی کے اوائل میں تیزی کے ریکارڈ قائم کر رہی تھیں،2023 ء میں4 کی رفتار پر رہیں۔ماہرین، رواں سال بھی اِسی رفتار کے برقرار رہنے کی بات کرتے ہیں۔عالمی معیشت کو ایک اور روگ افراطِ زر کا لگا۔یہ بھی مسلسل اونچ نیچ کا شکار ہے۔ یہ کورونا کے بعد8.7 سے گر کر 6.9 پر آگیا، پھر بہتری کی اُمید بندھ چلی تھی کہ یوکرین جنگ نے اسے منہگائی کا دھچکا لگایا اور یہ5.8پر آگیا۔ معاشی ماہرین کے مطابق اسے سنبھلنے میں مزید ایک سال درکار ہے اور اب کہیں2025 ء میں جاکر کچھ بہتری نظر آئے گی۔

2023 ء میں بھی ایشیا پیسیفک عالمی ترقّی کا بنیادی محرّک رہا، اس کے باوجود کہ اسے مال کی سپلائی، سروسز کے شعبے اور سخت مانیٹری پالیسی کے دبائو کا سامنا تھا۔ علاقے کی مجموعی ترقّی کی رفتار4.6فی صد رہنے کی توقّع ہے۔ چین کی سُست رفتاری اسے ذرا سا کم تو کرسکتی ہے، تاہم افراطِ زر میں کمی ضرور آئے گی۔ مرکزی بینکس کے اقدامات سے صُورتِ حال پالیسی کے مطابق رہے گی اور جن مالیاتی اندیشوں کا اظہار کیا جا رہا تھا، وہ قابو میں رہیں گے۔چھے ماہ پہلے کے مقابلے میں صُورتِ حال اب زیادہ اُمید افزا ہے۔

یورپ میں افراطِ زر میں کمی آئی اور یہ تسلسل جاری رہے گا، حالاں کہ سال کے شروع میں اس کی شدّت دیکھ کر کساد بازاری کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا۔2023 ء میں ترقّی درمیانے درجے کی رہی اور توقّع ہے کہ رواں سال اس میں تیزی آئے گی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ترقّی کی دوڑ میں آگے رہنے والے ممالک وہی ہیں، جو براہِ راست یوکرین جنگ کی زَد میں آئے، اِسی لیے ترقّی کی رفتار2.7 سے گر کر 2023 ء میں1.3 پر آگئی۔توقّع ہے کہ یہ رواں سال بہتری کی جانب گام زن ہوگی، کیوں کہ بیماری کی جڑ، افراطِ زر قابو میں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیا میں عالمی معاشی تنزّلی کے اثرات صاف دیکھے جاسکتے ہیں کہ زیادہ تر ممالک اس سے متاثر ہوئے۔

حماس، اسرائیل جنگ اِس علاقے کے لیے بہت ہی حوصلہ شکن ہے اور اس سے معاشی ترقّی کے اُن اقدامات پر منفی اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں، جو گزشتہ ایک سال سے اِس علاقے کے اہم ممالک چین کی معاونت سے کر رہے تھے۔اگر حُکم ران صُورتِ حال قابو میں رکھنے میں کام یاب رہے، تو مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں اقتصادی ماحول معتدل رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔تاہم، مشکل یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا کے ممالک، بشمول پاکستان، مسلسل تنازعات اور سیاسی عدم استحکام کے شکار ہیں، نیز، یہ اُس معاشی ویژن سے بھی عاری ہیں، جو جنوب مشرقی ایشیا کو تیزی سے ترقّی دے رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت کی ترقّی تیز رہی، جس سے اس کی معاشی صُورتِ حال بہت بہتر ہوگئی۔

بنگلا دیش کو منہگائی اور تیل کی قیمتوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا، تاہم اس کی ترقّی بھی تسلّی بخش ہے کہ اس کے اہداف واضح ہیں۔ پاکستان میں آئی ایم ایف سے قرضے کی دو اقساط ملنے کے بعد کچھ بہتری نظر آئی، خاص طور پر نگران حکومت ڈالر اور اسمگلنگ پر کریک ڈائون کر کے کچھ بہتری لائی۔تاہم، الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد کوئی بڑا معاشی فیصلہ کرنا ممکن نہ ہوسکا۔اگر حکومت مانیٹری پالیسی سخت رکھتی ہے، تو نتیجتاً منہگائی اور افراطِ زر میں بہتری کے امکانات ہیں۔

اندازہ ہے کہ ترقّی کی رفتار تین سے اوپر ہوگی، مگر اس کے لیے مالیاتی ڈسپلن اور سیاسی استحکام ضروری ہے۔افریقا کے بیش تر ممالک گزشتہ برس بھی عالمی وبا کے منفی اثرات سے نکل نہ پائے۔ افراطِ زر، سُست معیشت، قرضوں کے حصول میں مشکلات اور منہگائی نے عوام کو بے حال کیے رکھا۔ افریقا میں سب سے زیادہ دباؤ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہے، جو وہاں دہائیوں سے جاری ہے۔

بڑی معیشتیں، چھوٹی اور ترقّی پذیر معیشتوں کو اپنے ساتھ آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، یہ نسخہ جنوب مشرقی ایشیا میں کام یابی سے آزمایا جا چُکا ہے۔جاپان اپنے ساتھ جنوبی کوریا، سنگاپور، تائیوان، تھائی لینڈ اور فلپائن کو لے کر آگے بڑھا، جب کہ چین نے ہانگ کانگ، بھارت، بنگلا دیش، ویت نام اور ذرا دُور،برازیل اور جنوبی افریقا کا ساتھ دیا۔( ماہرین کے مطابق، اگر2018 ء کے بعد معیشت کی تباہی نہ ہوتی، سی پیک رواں رہتا، تو پاکستان بھی ترقّی پذیر معیشتوں میں آچُکا ہوتا۔)دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا، یورپی ممالک کی ترقّی میں بنیاد بنا۔

چین نے اس صدی کے اوائل سے اپنی تیز رفتار اکانومی کی وجہ سے نہ صرف علاقائی ترقّی میں کردار ادا کیا، بلکہ دنیا بَھر میں ٹیکنالوجی اور سستا تیار مال پہنچایا۔اس نے مختلف ممالک کو قرضے دیئے اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت تجارتی راہ داریاں کھولیں، لیکن کووِڈ کے بعد چین کی اکانومی، جو ایک زمانے میں دس سے اوپر تھی، گر کر 6پر آگئی۔علاوہ ازیں، اس نے اپنی ڈومیسٹک مارکیٹ کو سہارا دینے کے لیے بھی گروتھ کو سُست کیا، جو4.5 پر آگئی۔چین میں سرمایہ کاری، معیشت اور روزگار کا سب سے بڑا سیکٹر پراپرٹی یا تعمیرات کا شعبہ ہے۔

ان شعبوں کی سُست روی ابھی تک اندرونِ مُلک تک محدود اور قابو میں ہے، لیکن چین جیسی دوسری عالمی معیشت کے اس بڑے سیکٹر کی سُست رفتاری کے اثرات بیرونی دنیا پر بھی مرتّب ہوسکتے ہیں۔تاہم، چین کی قیادت معاشی معاملات میں مہارت رکھتی ہے، البتہ کم ترقّی یافتہ اور غریب ممالک کے سروں پر خطرات بہرحال منڈلا رہے ہیں۔ ایک طرف منہگائی اور توانائی کی بڑھتی قیمتیں ہیں، تو دوسری طرف قرضوں کا غیر معمولی بوجھ بھی گزشتہ برس اُن کے لیے دردِ سر بنا رہا۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے جو تباہیاں مچائیں، وہ الگ ہی داستان ہے۔تُرکیہ میں فروری میں آنے والے زلزلے میں ساٹھ ہزار سے زاید افراد ہلاک ہوئے اور شہر کے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے۔ 

اس سے تُرکیہ کی معیشت، جو پہلے ہی دبائو میں تھی، مزید کم زور ہوئی اور اُس کی کرنسی، لیرا کی قدر کم ترین سطح پر آگئی۔یہ ایک مثال ہے کہ کس طرح اچھے خاصے مستحکم ممالک بھی اقتصادی دبائو کے سبب شدید مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔اور اگر کوئی مُلک تنازعات، فوجی تصادم یا جنگوں میں ملوّث ہو، تو مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ایسی صُورت میں جن ممالک کو مالی امداد درکار ہے، وہ بھی ملنا مشکل ہو جائے گی۔ماہرین کم ترقّی یافتہ ممالک کو اس طرح کی صُورتِ حال سے نکلنے کے لیے عوامی شعور اور رائے عامّہ کو منظّم کرنے کی تجویز دیتے ہیں۔اُن کے مطابق، ایسے ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کے پالیسی ساز اصلاحات پر آمادہ ہوں اور قرضوں کے بوجھ کم کرنے کے لیے آسان، قابلِ عمل میکنزم پیش کریں۔

عالمی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے اِس امر پر متفّق ہیں کہ مجموعی طور پر دنیا کی معیشت نے کورونا جیسی عالمی وبا اور یوکرین جنگ کے شدید منفی اثرات کے باجود، زبردست مزاحمت اور بہتر کارکردگی دِکھائی۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ توانائی اور خوراک کی غیرمعمولی بڑھتی قیمتوں کے باوجود عالمی معیشت کی بحالی کا عمل جاری رہا، گو یہ سُست تھا، جس سے اُن ممالک کی مشکلات میں اضافہ ہوا، جنہوں نے بُرے وقتوں کے لیے محفوظ بچت نہیں رکھی اور’’ کھائو، اُڑائو‘‘ کا طریقہ اپنائے رکھا۔

یہ وہ ممالک ہیں، جنہوں نے سیاست کو سیاست نہیں، دشمنی سمجھا، مُلک میں عدم استحکام رکھا اور معیشت کو صرف بیانات کا ہیرپھیر بنایا۔ خوراک اور توانائی کی مارکیٹس میں بار بار رکاوٹ اور سخت مالیاتی اقدامات سے (جس کی وجہ سے افراطِ زر ریکارڈ بلند سطح پر پہنچا) عالمی معیشت سُست ضرور ہوئی، لیکن منجمد نہیں ہوئی۔ ماہرین اور مالیاتی ادارے افراطِ زر کو کنٹرول میں لانے کے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں، جو عوام کے لیے یقیناً تکلیف دہ ہیں اور ان کے گھریلو بجٹ پر ناقابلِ برداشت دباؤ کا باعث بھی، لیکن اس تاریکی میں بھی روشنی کی کرن واضح طور پر نظر آرہی ہے کہ عالمی معیشت بہرحال بیٹھی نہیں، آہستہ آہستہ پیروں پر کھڑی ہوکر رینگ رہی ہے۔