• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانیو! آئو، نکلو، ہاتھوں سے ہاتھ ملائو، 8؍فروری آیا چاہتا ہے، عوامی عدالت لگنے کا دن، خلق خدا کے بڑے فیصلےکا دن کہ پاکستان اب کیسے چلانا ہے، کس نے چلانا ہے؟ یہ فیصلہ عدالت عظمیٰ کے قاضی القضاۃ نے لکھنا ہے نہ اسکے فل بنچ کے کسی سینئر جج نے اور نہ ہی کوئی ہم خیال بنچ یہ فیصلہ صادر کریگا۔ اب اسکی بنیاد قومی اسمبلی کے ماورا کورم اجلاس میں مکاری و فنکاری سے ہونیوالی دنیا کی پارلیمانی تاریخ کی تیز ترین ریکارڈڈ ’’قانون سازی‘‘ ہوگی، نہ سینٹ کے 12رکنی ہنگامی اجلاس میں سپریم کورٹ کے پتھرپر لکیر قرار دیئے گئے انتخاب کے انعقاد کو ملتوی کرنے کی شعبدہ بازی سے منظور کی گئی شرمناک قرارداد۔ اس سب کے برعکس ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ میں ڈھائی سال سے جاری مافیا راج اور خلق خدا میں جاری آخری نظر آتی معرکہ آرائی کے بعد یہ تاریخ ساز فیصلہ پاکستان کے ساڑھے بارہ کروڑ بالغ شہریوں کےبنیادی آئینی حق کو استعمال کرتے اللہ کے بندے اور ملکی شہری ووٹ دے کر کریں گے۔

قارئین کرام! وائے بدنصیبی، ہماری قومی زندگی کی تعمیر و تخریب کی 76 سالہ تاریخ سازی اور سیاسی عمل کے پہلے 25 سال میں ملک دولخت ہونے کے 52 سال بعد آج (باقیماندہ) پاکستان میں ہوئی ترقی کو لپیٹتی، طاقت پکڑتی سیاسی تخریب کاری کا مکمل غلبہ ہے۔ قومی امور میں عوام کی شرکت صفر ہے۔ ہر سطح پر موروثی و خاندانی سیاسی طاقت کا دور دورہ ہے۔ لیکن پاکستانی سیاسی تاریخ فریم میں برپا پیراڈائم شفٹ یوں برپا ہو رہا ہے کہ نئی نسل اور محروم و مقہور طبقات کو مسلط نظام بد بالکل ہضم نہیں ہو رہا، جبکہ ملکی مافیا راج اقتدار و سیاست ہر حالت میں اپنی اگلی موروثی وراثت میں ہی منتقل کرنے کیلئے پورا زور ہر حربہ و ہتھکنڈا استعمال کر رہا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ آئین پاکستان کا جو عدم اطلاق اسکی تکمیل و نفاذ (1973) سے ہی شروع ہوگیا تھا، 50 سال بعد اسکی شکست و ریخت اس خطرناک بلند درجے پر ہے کہ اس وقت ملک میں عملاً و حقیقتاً نگراں وفاقی اور صوبائی حکومتیں غیر آئینی اور ناجائز ہیں، لیکن انہیں بس ’’کام چلانے والے‘‘ نظام کو بچائے رکھنے کیلئے عوام و خواص کو قبول و ہضم کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ 16ماہی پی ڈی ایم کی شہباز حکومت اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض (جو اب ن لیگ کےٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں) کی مشترکہ تخلیق ہے۔ (کاکڑ انتظامیہ) پر ٹھوس واقعاتی شواہد، اسکی اولین آئینی ذمے داری شفاف الیکشن کے انعقاد بارے جانبدار نظر آتی گورننس اپروچ سوال بنی ہوئی ہے۔ ’’نگران حکومت میں بھی ن لیگی ملاوٹ‘‘ کے اعتبار سے مخالف سیاسی جماعتوں اور تجزیوں سے ایٹ لارج یہ واضح ہو رہا ہے کہ کاکڑ حکومت آئین کے مطلوب تقاضوں پر پوری نہیں اتر رہی جو الیکشن کے انعقاد میں قطعی غیر جانبدار معلوم نہیں دے رہی۔ اب تو اسکی تصدیق ببانگ دہل نگران وزیر اعظم صاحب نے خود ہی کردی۔ جیو نیوز کے پروگرام ’’ایک دن جیو کیساتھ‘‘ میں میزبان سہیل وڑائچ کو دیئے گئے انٹرویو میں فرماتے ہیں ’’2013ء اور 2018ء میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا، اب نہیں دوں گا‘‘۔ جناب انوار کاکڑ پاکستان کے شہری پہلے اور بعد میں سیاستدان اور اب نگران وزیر اعظم ہیں، ان حیثیتوں میں انکو اپنی پسند سے کسی بھی جماعت یا امیدوار کو ووٹ دینا انکا بنیادی حق ہے، لیکن اتنا ہی بنیادی فریضہ یہ نہیں کہ مکمل شعوری کوشش کرتے بطور نگران وزیر اعظم اپنی غیر جانبداری پر ہر دم محتاط رہیں۔ انکے اس بیان کا پی ٹی آئی کے ورکرز اور ووٹرز میں کیا پیغام جائیگا۔ جبکہ آپ کے زیر اہتمام ملک بھر خصوصاً پنجاب پولیس اور انتظامیہ پہلے ہی پی ٹی آئی کی انتخابی مہم میں مسلسل رکاوٹیں ڈالنے اور پی ٹی آئی رہنمائوں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ، الیکشن کی شفافیت اور سیاسی عمل میں تعطل کے فسطائی حربوں کے حوالے سے مکمل سوشل میڈیا کے ریڈار پر ہے۔ اب بھی پی ٹی آئی کے 24فیصد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہیں جوبہت بڑی تعداد ہے۔ ایسے میں شفاف اور مطلوب استحکام بخش انتخابات کے انعقاد میں عوام اور دنیاکو بڑی بے اعتباری اور شک تو پیدا ہوگئے ہیں۔جبکہ 8 فروری معمول کی انتخابی مہم کے بغیر سر پر کھڑی ہے۔ گویا پیش منظر میں اسٹیٹس کو نظام کے معمول کے ناقص کوالٹی الیکشن کی پرجوش و پررونق انتخابی مہم بھی موجود نہیں۔ اسکی جگہ کھلی جانبداری اور ڈ ر خوف اور دبائو سے بنے ماحول نے تو مکمل واضح کر دیا ہے کہ الیکشن۔24کا بنیادی مطلوب اعتماد بھی قائم نہیں ہوگا۔ سینٹ کے بارہ چودہ رکنی ہنگامی اجلاس سے پھر الیکشن ملتوی کرنے کے مطالبے کی جو قرار داد داغی گئی اس پر مولانا صاحب کا فوری تائیدی رسپانس انکے خوف و ہراس کا عکاس ہے۔ پھر یہ تذبذب پیدا کردیا گیا ہے کہ اعلان شدہ الیکشن شیڈول پتھر پرلکیر ہے یا نہیں، ایک بار پھر الیکشن آگے دھکیلے جائیں گے؟ اسلام آباد سے الیکشن کمیشن میں ’’کچھ بہت غیر معمولی ہونے‘‘ کی خبریں اور افواہیں آرہی ہیں جس سے الیکشن کے انعقاد کے پھر ڈگمگانے کے شک کو تقویت مل رہی ہے۔

حقیقت توہے کہ الیکشن۔24 اپنے پری پول بنے ماحول سے الیکشن سے زیادہ پاکستان میںطرز کہن (نظام بد) اور کروڑوں محرومین پاکستان کی ’’آئین کے مکمل اطلاق اور تمام شہریوں اور قانون کے یکساں نفاذ‘‘ کو روکنے اور حصول ہدف کی معرکہ آرائی نظر آ رہی ہے۔ شاید عوام اور مافیا راج کے درمیان آخری معرکہ آرائی۔ پس منظرکی 16ماہی شہباز حکومت کی قومی خزانے کی خالی حالت سے لاپروا حکومت کی پیدا کی گئی عوام کے کپڑے بیچنے والی نہیں، اتار دینے والی مہنگائی کے مارے عوام کیسے نہ اس حالت میں بھی مافیا راج کو اپنی پرچی کا ہدف بنائیں، اس حالت میں تو مرتا کیا نہ کرتا، یہاں تک عوام بیلٹ پیپر پر مہر ہی لگانے کی تگ و دو اور الیکشن کے انتظار میں ہیں۔ خوف کے بتوں کا ڈر کافور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اب تو اس سے زیادہ خوف مافیا راج میں پیدا ہوتا لگ رہا ہے جس نےالیکشن کے لئے آئین توڑا، عدلیہ تقسیم کی۔ مطلوب الیکشن بمطابق آئین نہیں ہونے دیئے اور ملک بھر میں غیر آئینی نگران حکومتیں مسلط کردیں جو اپنی بنیادی آئینی ذمے داری شفاف الیکشن کے علاوہ نہ جانے کیا کیا کر رہی ہیں؟ جس کی عوام کو مکمل سمجھ ہے،لیکن وہ کیا کیا کریں کہ اب پھر الیکشن سے فقط ڈیڑھ ماہ قبل مہنگائی کے بڑے تھپیڑے سےگر پڑ رہے ہیں۔ نہ پانی، نہ بجلی، گیس، نہ تعلیم۔ انڈے چار سو روپے، مرغی 600روپے، دال 350تا 520، پیاز، ٹماٹر 200تا 250۔ جائیں تو کدھر جائیں؟ لیکن ووٹ تو اگر ڈالنے دیئے گئے تو جوق در جوق ڈالیں گے نہ ڈالنے دیئے تو مزاحمت تو ہوگی۔ اس سیاسی عدم استحکام میں قومی معاش کا کیا ہوگا جیسے اولیگارکی بدمعاشی سے ملک کو کنگال کیا گیا۔ غربا کو آٹا تقسیم پر 20ارب کی چوری سے سالانہ اربوں کھربوں کی منی لانڈرنگ تک عوام کے چولہے ٹھپ کرنے والوں نے کیا کیا نہیں کیا؟جیسے الیکشن (اگر ہوئے) کی تیاری ہو رہی ہے اس کا نتیجہ تو پی ڈی ایم ماڈل حکومت ہی نظر آ رہی ہے۔ جو سمندر اور دریائوں کی ساری مچھلیاں کھا گئے وہ صحرا سے کیسے مچھلی نکالیں گے؟ اب بھی شفاف الیکشن نہیں؟۔

تازہ ترین