پروفیسر خالد اقبال جیلانی
اس کائنات میں دو حقیقتیں آفاقی سچائیUniversal Truth کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک خالق کائنات اللہ وحدہ لاشریک کا وجود اور دوسری حقیقت موت، موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار یا مفر ممکن ہی نہیں ، دنیا میں ہر ذی ر وح چاہے انسان ہو یا جانور و کیڑے مکوڑے سب کی زندگی طے شدہ ہے ہر ذی روح جو اس زمین کی پیٹھ پر آیا ہے، اسے ایک دن زمین کے پیٹ میں لازمی جانا ہے۔
کمزور ترین و بے بس انسان سے لےکر طاقتور ترین بادشاہ اور پہلوان تک ’’ہرجاندار کو موت کا مزا چکھنا ہے ‘‘ موت کا ایک دقت معین ہے، یہ معین وقت آجانے کے بعد ایک سانس کی بھی مہلت نہیں دی جاتی اور اس مقررہ وقت پر اس دنیا سے قبر والے گھر کی طرف جانا ہی جانا ہے۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے ’’ جب ان کا وقت آپہنچاتو پھر ایک سیکنڈ ادھر اُدھر نہیں ہو سکتا۔ (سورۂ اعراف 34:) سورۂ منافقون میں فرمایا گیا: جب کسی کا وقت مقرر آجاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے ہر گز مہلت نہیں دیتا۔ زندگی موت تیری منزل ہے …دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں۔
اسلام ایک ایسا دین (زندگی گزارنے کا طریقہ) ہے کہ جس نے اپنے ماننے والوں پر بے پناہ احسانات کئے اور انسان کو اس کی پہلی سانس یعنی زمین کی پیٹھ پر آنے سےلےکر آخری سانس یعنی زمین کے پیٹ میں جانے سے پہلے تک ہر سانس کے لئے احکام دیئے ہیں۔ ان میں بعض اعمال اور احکام بظاہر بہت معمولی اور مختصر ترین ہیں، مگر اپنی اہمیت و فضیلت اور اجر و ثواب میں پہاڑوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ انہی مختصر ترین اعمال میں سے ایک اہم ترین اجر و ثواب رکھنے والا عمل نمازِ جنازہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جو کوئی کسی مومن کے جنازے کے ساتھ اس وقت تک شریک رہے، جب تک کہ اس پر نمازِ جنازہ نہ پڑھ لی جائے کہ اس کے لئے ایک قیراط کا اجر ہے اور جو تدفین تک شریک رہے ،اس کے لئے دو قیراط کا اجر ہے۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ،قیراط کسے کہتے ہیں؟ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ دو بڑے پہاڑ۔ (صحیح بخاری) بخاری شریف ہی کی ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قیراط سے مراد اُحد پہاڑ ہے۔
یعنی نماز جنازہ کی ادائیگی پر اللہ اُحد پہاڑ کے برابر اجرعطا فرماتا ہے اور اس میں صرف پہاڑ کا وزن نہیں، بلکہ اس اجر میں پہاڑ کا وزن ، وسعت و جسامت سب شامل ہیں ،ہر پہلو سے ثواب ملے گا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اگر کسی جنازے میں سو مسلمان اور بعض روایات میں چالیس مسلمان شریک ہو کر نماز جنازہ ادا کریں تو اس میت کے حق میں ان افراد کی شفاعت یعنی دعائے مغفرت قبول کی جاتی ہے۔ (بخاری و مسلم)
بہ اعتبار عمل نماز جنازہ فرض کفایہ ہے، یعنی چند افراد پڑھ لیں تو باقی تمام مسلمانوں کی طرف سے یہ فرض ادا ہو جائے گا، لیکن جتنے زیادہ مسلمان ہوں گے، اتنا ہی زیادہ میت کے حق میں بہتر ہو گا کہ نجانے کس کی دعائے مغفرت میت کے حق میں قبولیت کا شرف حاصل کر لے اور میت کی مغفرت ہو جائے۔ دیگر علاقے کےجو مسلمان نماز جنازہ ادا کر لیں گے، بقیہ سب کی طرف سے یہ فرض کفایت کر جائے گا اور ان کی طرف سے یہ ادا ہو جائے گا، لیکن اس غلط فہمی کو دور کر لیں کہ آپ نماز فرض ظہر عصر وغیرہ میں موجود ہیں اور نماز جنازہ کا اعلان ہو گیا۔
آپ کو اس وقت کوئی فوری ضروری کام یا شرعی عذر و مجبوری بھی نہیں اور آپ یہ خیال کر کے نماز جنازہ تو فرض کفایہ ہے اتنے سارے لوگ نماز جنازہ پڑھ تو رہے ہیں، میرا پڑھنا ضروری نہیں۔ ان تمام کی طرف سے میرا فرض ادا ہو جائے گا۔ یہ آپ نے بلاوجہ بغیر کسی انتہائی مجبوری کے کسی ضروری کام کے نہ ہونے کے باوجود نماز جنازہ کو ترک کر دیا اور اسے غیر اہم سمجھتے ہوئے مسجد سے چلے گئے تو آپ کا یہ عمل آپ کو بے پناہ اجر و ثواب سے محروم کرے گا۔
نماز جنازہ کی عظمت و فضیلت اوراتنی اہمیت کے باوجود ہمارے معاشرے کا المیہ اور مسلمانوں کا یہ عالم ہے کہ جب نماز جنازہ ہوتی ہے تو جنازے کے شرکاء کی تعداد اگر سو ہے تو ان میں `60افراد نماز جنازہ سے باہر کھڑے ہوتے ہیں اور صرف چالیس افراد نماز جنازہ میں شریک ہوتے ہیں اور ان باہر کھڑے ہونے والوں میں میت کے ورثاء کی بھی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے۔
ان سب کا نماز جنازہ میں شریک نہ ہونے کا عذر یہی ہوتا ہے کہ ہمیں نماز جنازہ نہیں آتی اور عام مسلمانوں کی حد تک اکثیریت کا یہی عالم ہے۔ کتنے افسوس بد نصیبی اور محرومی کی بات ہے کہ باپ کا جنازہ رکھا ہے اور بیٹا اس سعادت محروم ہے کہ وہ باپ کے لئے بارگاہِ خداوندی میں کم از کم مغفرت کے دو الفاظ ہی بول دے۔ حالانکہ جنازے کی دعا اگر نہیں بھی آتی تو پھر بھی نماز جنازہ میں شریک ہوا جائے۔
یہ دراصل والدین کا قصور غفلت اور کوتاہی ہے کہ ہم اپنی اولاد کو دنیا کی اچھی اور مہنگی سے مہنگی تعلیم دلاتے ہیں، لیکن نمازِ جنازہ جیسا دین کا مختصر ترین عمل جو بمشکل دو منت سے بھی کم دورانیے کا ہے، نہیں سکھاتے اور انہیں دین کی اتنی مختصر سی تعلیم بھی نہیں دیتے وہ کہ وہ والدین کے انتقال کے بعد ان کی میت پر کھڑے ہو کر مغفرت کے دو الفاظ ہی بول دیں۔ نتیجہ یہ کہ والدین مرنے کے بعد اپنے حق میں اولاد کی دعائے مغفرت سے بھی محروم رہتے ہیں۔
دوسری طرف ہمارے بچوں کی یہ بہت بڑی کوتاہی اور غفلت ہے کہ وہ دنیا کے سارے علوم سیکھ کر ڈاکٹر ، انجینئر تو بن جاتے ہیں، مگر وہ از خود ہی اتنا بھی دین کا علم حاصل نہیں کرتے کہ والدین کی نماز جنازہ خود نہ پڑھاسکیں توکم از کم پڑھ ہی لیں۔ دین سے اس غفلت کوتاہی اور عدم توجہی کا نتیجہ اس محرومی ، بدنصیبی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ڈاکٹر، انجینئر نوجوان اپنے باپ کی میت پر مغفرت کے دو الفاظ ’’اللهم اغفر لِحَيِّنَا ومَيِّتِنَا‘‘ کہنے کی سعادت سے محروم رہ جاتا ہے، یہ محرومی اور بدنصیبی دوطرفہ ہے جس میں والدین اور اولاد دنوں برابر کے شریک ہیں اور یہ دوطرفہ محرومی ہمارے پورے معاشرے کی اجتماعی محرومی اور بد نصیبی ہے۔
نمازِ جنازہ جنازہ کی اس دینی فضیلت کے ساتھ اس کا ایک اہم ترین پہلو نماز جنازہ کی معاشرتی اہمیت بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان چھ معاشرتی حقوق بیان فرمائے، جن میں سب سے اہم حق مسلمان بھائی کے جنازے میں شریک ہونا ہے۔ (صحیح بخاری) نماز جنازہ ایک اہم عبادت ہونے کے ساتھ ایک معاشرتی فریضہ بھی ہے کہ اپنے پڑوسی، رشتے دار، محلے دار، دوست احباب میں سے کسی کا انتقال ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کر کے اخوت و بھائی چارگی کی فضا کو فروغ دیا جائے۔
نماز جنازہ میں شرکت یہ ظاہر کرتی ہے کہ مسلمان صرف انتقال کر جانے والوں کی دعائے مغفرت ہی میں شریک نہیں ہیں۔ بلکہ وہ غم زدہ خاندان اور ساتھیوں کے دکھ اور غم کی اس کیفیت میں بھی برابر کے شریک اور نماز جنازہ ادا کرنے والے غم زدہ خاندان کے ساتھ ان کی دل جوئی میں برابر کے شریک ہیں ۔ اس سے معاشرے میں باہمی اخوت و یگانگت کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ نماز جنازہ مسلمانوں کے باہمی معاشرتی اتحاد کی علامت ہے۔ اس سے موت پر ایمان اور آخرت پریقین پختہ ہوتا ہے۔