آپ کے مسائل اور اُن حل
سوال: چکّی والے کو گندم دے کر آٹا لینا اس صورت میں جب کہ وہ بعینہ اسی گندم کا آٹا فراہم نہیں کرتا بلکہ پہلے سے موجود آٹا دیتا ہے اور آٹا، گندم کی مقدار سے کم دیتا ہے، مثلاً اگر پانچ کلو گندم ہو تو بدلے میں تین کلو آٹا دے گا اور کچھ نقدی رقم بھی لیتا ہے، کیا یہ صورت جائز ہے؟
اسی طرح بعض اوقات وہ اسی وقت آٹا فراہم کرنے کے بجائے بعد میں دینے کا وعدہ کرتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ مندرجہ بالا صورتیں اگر ناجائز ہیں تو ان کے جواز کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟
جواب: واضح رہے کہ گندم کا آٹے کے ساتھ تبادلہ کرنا یعنی گندم دے کر آٹا لینا یا آٹا دے کر عوض میں گندم لینا جائز نہیں ہے، اس میں برابری ممکن نہیں، لہٰذا سود کا شبہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں چکّی والے کو گندم دے کر اس کے بدلے گندم کا آٹا لینا شرعاً جائز نہیں، اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پہلے اپنے پاس موجود گندم، چکی والے کو فروخت کرکے اس سے رقم وصول کی جائے پھر اس نقد رقم سے چکی والے سے آٹا خرید لیا جائے یا اپنی دی ہوئی گندم چکی والے سے پسوا کر بعینہ وہ ہی گندم لے کر اس کی اجرت چکّی والے کو ادا کردی جائے۔
نیز اگر چکی والا اسی وقت آٹا فراہم کرنے کے بجائے بعد میں دینے کا وعدہ کرے تو اس میں یہ صورت اختیار کی جائے کہ چکی والے کو اپنی گندم پسوانے کے لیے دے دی جائے اور اس کی اجرت نقد میں طے کر لی جائے، پھر بعد میں پیسنے کی اجرت ادا کرکے اپنی دی ہوئی گندم کا آٹا وصول کرلیا جائے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "سونے کو سونے سے، چاندی کو چاندی سے، کھجور کو کھجور سے، گیہوں کو گیہوں سے، نمک کو نمک سے اور جو کو جو سے برابر برابر بیچو، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا، اس نے سود کا معاملہ کیا۔
سونے کو چاندی سے نقداً نقد، جیسے چاہو بیچو، گیہوں کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو، اور جو کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو۔" (سنن الترمذی، أبواب البيوع عن رسول اللہ ﷺ، باب ما جاء أن الحنطۃ بالحنطۃ مثلا بمثل و کراھيۃ التفاضل فيہ، ج: 3، ص: 93، ط: دار الرسالۃ العالميۃ – نیز ملاحظہ کیجیے: المبسوط للسرخسی، کتاب البیوع، بیع السویق بالدقیق، ج: 12، ص: 179، ط: دار المعرفۃ -بدائع الصنائع، کتاب البیوع، فصل فی شرائط صحۃ البیوع، ج:5، ص: 188، ط: دار الکتب العلمیۃ - الاختيار لتعليل المختار، کتاب البیوع، باب الربا، ج: 2، ص: 32، ط: دار الکتب العلميۃ)