پروفیسر خالد اقبال جیلانی
اسلام ایک مکمل دین یعنی ضابطہء حیات ہے جو علمی، عقلی اور منطقی بنیادوں پر قائم ہے۔ اسلام میں توہّم پرستی کی قطعاََ کوئی گنجائش نہیں ہے توہّم پرستی کا مطلب ہے بغیر کسی ٹھوس وجہ یا مضبوط علمی و عقلی دلیل کے کسی بھی چیز کو منحوس سمجھنا۔
یہ فکر و خیال اسلام کی تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ کہ مسلمان ہی اس مرض کا سب سے بڑا شکا ر نظر آتے ہیں۔ یہ ایک طے شدہ امرہے کہ دنیا میں ہر چیز کا فیصلہ اللہ کی مرضی اور اس کی مقرر کی ہوئی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے انسان کو صرف اپنے عمل پر توجہ دینی چاہیے اور اچھے کام کرتے رہنا چاہیے۔
توہّم پرستی انسان کو بے بنیاد خوف میں مبتلا کرتی ہے اور اسے اللہ پر توکل سے روکتی ہے۔ عدم آگہی کی بناء پر کسی چیز کے بارے میں اپنے خیالات یا دیگر افسانوں کو حقیقت کے طور پر قبول کرنا توہّم پرستی کہلاتا ہے یعنی توہّمات و ہ خیالات ہیں جو کوئی شخص بلا کسی تحقیق اور ثبوت کے قبول کرتا ہے اور پھر ان کو کسی ٹھوس حقیقت سے بھی زیادہ حقیقی جاننے اور ماننے لگتا ہے۔ لوگوں میں توہّم پرستی کی بنیاد کسی چیز کے بارے میں علم اور تحقیق کا فقدان ہے۔
کیونکہ ایسے لوگوں کو کسی چیز کے بارے میں جو بیانیہ بنا کر دیا جائے اس کو بلا تحقیق قبول کر کے آہستہ آہستہ اسے اپنے عقیدے کا حصہ بنانے لگتے ہیں اور اس پر قائم رہنا ایمان و عقیدے کی بنیاد قرار پاتا ہے۔ جبکہ اس بارے میں تجسس اور سوال کرنے والے کو مطعون اور بد عقیدہ قرار دیا جاتا ہے۔
توہّم پرستی سے مذہب کے نام پر استحصال کرنے والوں کا رزق وابستہ ہوتا ہے اس لئے وہ اس کا تحفظ جان و دل سے کرتے ہیں یہاں تک کہ لوگ اپنے مسائل اور پریشانیوں کا حل ڈھونڈنے نام نہاد مجذوبوں کے پاس جاتے ہیں اور عقل مندوں کے بجائے مخبوط العقل لوگوں کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ عوام الناس کی اس ذہنی پسماندگی کا فائدہ نام نہاد عامل اٹھاتے ہیں اور توہّم پرستی کے نام پر اپنا دھندہ بھر پور انداز میں چلاتے ہیں۔
غرضیکہ اوہام پرستی ایک مذموم اور غیر شرعی رسم ، عقید ے کی ناپختگی اور ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ تو ہّما ت کی غلامی ایک ایسا سنگین مرض ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کے مختار کل اور قادر مطلق ہونے کا عقیدہ کمزور کردیتی ہے۔ انسان کی جبین شرافت کو داغ دار اور رسوا کر دیتی ہے، اور انسان کے لئے در در کی ٹھوکر یں کھانے کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ یہ توہّمات ہی کی اسیری ہے جس کی وجہ سے انسان بعض مخلوقات کو نفع نقصان کا مالک سمجھنے لگتا ہے۔
خاص اوقات، مخصوص ایام یا مہینوں کو کامیابی و ناکامی اور عزت و ذلت میں موثر حقیقی سمجھ لینا اور ان سے نفع و نقصان کو وابستہ کرنا ایک طرح کی غلامی ہے، اور زمانہ ء جاہلیت کے لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کے مترادف ہے۔ زمانہ ء جاہلیت میں عرب کے لوگ بہت سے توہّمات میں گرفتار تھے اور اللہ جل شانہ کی پیدا کردہ بعض چیزوں کو نفع و نقصان کا مالک خیال کرتے تھے، مثلاََ پرندے اڑا کر فال نکالنا، اگر پرندہ دائیں جانب اڑتا تو اس کو نیک شگون اور اگر بائیں جانب اڑتا تو بدفال یا بد شگونی مراد لیتے، اسی طرح تیروں سے فال نکالنے کا طریقہ بھی رائج تھا۔ نیز عورت ، گھوڑے ، الو اور بہت سی دیگر جاندار اور بے جان اشیاء کو منحوس تصور کرتے تھے۔
اسی طرح اہل عرب ماہ صفر کے حوالے سے بھی عجیب و غریب قسم کے مافوق العقل توہّمات میں مبتلا تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس مہینے میں بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں لہٰذا اس مہینے میں جو کام بھی شروع کیا جائے وہ ناقص اور ناتمام ہی رہتا ہے۔ لیکن جب اسلام کا آفتاب رشدوہدایت طلوع ہوا تو اسلام نے زمانہء جاہلیت کے ان تمام بیہودہ خیالات و تصورات اور توہّمات پر قدغن لگائی اور پیغمبر اسلام ﷺ نے ان باطل عقائد اور توہّمات کی بیخ کنی کرتے ہوئے انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اور لوگوں کے ان شرک پر مبنی باطل عقائد اور غلط تصورات کی اصلاح فرمائی۔
آپ ﷺ نے سب سے پہلے مسلمانوں کے دلوں میں توحید باری تعالیٰ کا بے غبار، خالص اور دو ٹوک عقیدہ بٹھایا ، کہ اللہ جل شانہ اپنی ذات و صفات میں یکتا و تنہا ہے، کوئی بھی مخلوق اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہمسر نہیں اورنفع و نقصان کا اختیار اللہ وحدہ لا شریک کے ہاتھ میں ہے۔
پوری دنیا کی مخلوق کسی انسان کو فائدہ پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے لیکن اللہ جل شانہ کا منشا نہ ہو تو اس کو نفع نہیں پہنچا سکتے، اسی طرح پوری کائنات کے جن و بشر کسی فرد بشر کو نقصان پہنچانے کے لئے اکھٹے ہوجائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت نہ ہو تو اس انسان کا بال بھی بیکا نہیں ہوسکتا۔
یہ وہ بنیادی تعلیمات ہیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ اپنے پیرو کاروں کودیتے رہے، ظاہر ہے کہ عقیدۂ توحید حقیقی معنی میں انسان کے دل میں رچ بس جائے اور اس آفاقی تصور کا رنگ انسان کے دل و دماغ پر چڑھ جائے تو اس طرح کے بیہودہ تصورات و خیالات کا وہ کبھی بھی اسیر نہیں ہوسکتا۔ جاہلی توہّمات اس کے عزم و ارادے میں کبھی رکاوٹ نہیں بن سکتے۔
بد قسمتی سے آج بھی ہمارے مسلم معاشروں میں بہت سے بیہودہ جاہلی توہّمات اور تصورات پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ہماری معاشرتی زندگی کا چین و سکون رخصت ہو گیا ہے اور ایک عجیب و غریب قسم کی بے اطمینانی اور انتشا رمیں ہمارا معاشرہ مبتلا ہے۔ چناچہ ماہ صفر کو لوگ آج بھی منحوس اور نامبارک سمجھتے ہیں، اور اس مہینے میں خوشی و غمی کی تقاریب منعقد کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ صفر کے ابتدائی تیرہ دن بہت سخت، تیز اور منحوس ہوتے ہیں۔
ان دنوں میں بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اسی لئے لوگوں میں یہ ایام ’’تیرہ تیزی‘‘ کے جاہلانہ نام سے مشہور ہیں۔ ان تیرہ دنوں کے منحوس ہونے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ ان تیرہ ایام میں علیل رہے جو (نعوذباللہ) ان تیرہ دنوں کی نحوست کا اثر تھا۔ حالانکہ تاریخی روایات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مرض الوفات کا آغاز ماہ صفر کے آخری دنوں میں ہوا تھا جو ربیع الاول کے ابتدائی بارہ دنوں تک رہا، پھر اللہ کے رسول ﷺ وصال فرما گئے۔
لہٰذا اس واقعے کو بنیاد بنا کر صفر کے ابتدائی تیرہ دنوں کو منحوس تصور کرنا کسی بھی طرح درست نہیں۔ دوسرے اگر تسلیم کر لیا جائے کہ اللہ کے رسول ﷺ ان دنوں میں بیمار رہے تب بھی ماہ صفر کی نحوست کا تصور غلط اور جاہلیت پر مبنی ہے۔ اسی طرح صفر میں رسول اللہ ﷺ کی بیماری اور پھر آخری ایام میں صحتیابی، غسل صحت، باغ میں جانا من گھڑت روایات ہیں نہ ہی آخری بدھ کی کوئی حقیقت ہے اور صفر کے آخری بدھ کو مٹھائی تقسیم کرنا یہودیوں کی پیروی ہے۔
واضح رہے کہ بیماری اور تکلیف اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے بندوں کے حق میں رحمت ہے اور انسان کے لئے سراپا خیر کا ذریعہ ہے، رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’مسلمان کو جو بھی رنج ، غم ، دکھ اور تکلیف پہنچتی ہے حتیٰ کہ اگر اسے ایک کانٹا بھی چبھ جائے تو اس کی وجہ سے اللہ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے ‘‘ (بخاری) اسی طرح بخار کی تکلیف کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’بخار پر صبرکیا کرو کیونکہ بخار آدمی کے گناہوں کو اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کر دیتی ہے‘‘ (الترغیب والترہیب)