• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: جامع مسجد حبیبیہ 1960ء میں تعمیر کی گئی تھی، اب اس کی عمارت خستہ ہے اور انجینئر کی رپورٹ کے مطابق عمارت غیر محفوظ ہے ، یہ منہدم کر کے دوبارہ تعمیر کی جانی چاہیے۔ مسجد انتظامیہ کا ارادہ ہے کہ مسجد کو منہدم کرکے، نئی تعمیر کی جائے، جس میں خواتین کے لیے باپردہ نماز باجماعت ، مجالسِ وعظ ودروس میں شمولیت کی گنجائش نکالی جائے، کیا ان وجوہات کے پیشِ نظر مسجد کو شہید کرکے اس مسجد کی توسیع کی اجازت ہے یا نہیں ؟ (انتظامی کمیٹی جامع مسجد حبیبیہ، کراچی)

جواب: اگر طویل عرصہ گزرنے کی وجہ سے مسجد بوسیدہ ہوجائے یا نمازیوں کے لیے جگہ تنگ ہوجائے اور اُس کو اَزسرِ نو تعمیر کرنے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہو ، تو اُسے شہید کرکے تعمیرِ نو جائز ہے، لیکن نیچے سے اوپر تک اُس کی مسجد کی حیثیت ہی بحال رکھی جائے گی۔

اگر اَہلِ محلّہ یا انتظامیہ اپنے پیسے سے مسجد دوبارہ تعمیر کرانا چاہتے ہیں ،تو کراسکتے ہیں ، وقف کی رقم تعمیر کی مَد میں صرف نہیں کرسکتے۔ اور اگر ماہر انجینئرکسی مسجد کی عمارت کو مخدوش قرار دیدے کہ کسی بھی وقت اچانک گرسکتی ہے ، جیساکہ ہمارے شہر کراچی میں پرانی عمارتیں بارانی موسم میں یا ویسے بھی زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے اچانک گرجاتی ہیں اور اس سے کافی جانی نقصان ہوتا ہے، تو مسجد کی ایسی عمارت کو منہدم کرکے ازسرِ نو تعمیر کرنا لازم ہے۔

تنویر الابصار مع الدّرالمختار میں ہے :’’ اہلِ محلہ یہ چاہتے ہوں کہ مسجد کو گراکر پہلے سے زیادہ عمدہ ومستحکم بنائیں اگر وہ اسی محلے سے ہوں تو ایساکرسکتے ہیں ورنہ نہیں ، ’’بزازیہ‘‘،(حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد13)‘‘۔ علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ’’کُبریٰ ‘‘ میں ہے : ایک مسجد بنی ہوئی ہے، پھر کسی شخص نے اسے توڑ کر نئی مضبوط مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا، تو وہ ایسا نہیں کرسکتا ،اس لیے کہ اسے ولایت حاصل نہیں ہے، یہ ’’مُضمرات‘‘ میں ہے۔ ’’نوازل‘‘ میں ہے کہ اگر مسجد منہدم ہوجانے کا خوف ہو تو اُسے منہدم (کرکے نئی تعمیر) کرسکتاہے، جیسا کہ ’’تتارخانیہ ‘‘ میں ہے، اس مسئلے کی تاویل یہ ہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب بنانے والا اس محلے کا نہ ہو۔ 

محلے والوں کو اختیار ہے کہ وہ مسجد کو گرا کر اُس کی جدید تعمیر کرائیں، اُس میں فرش بچھائیں ،قندیل لٹکائیں، لیکن یہ سب اپنے ذاتی مال سے کریں، مسجد کے مال سے ایسا کرنا چاہیں تو انہیں اختیار نہیں مگرجبکہ قاضی / حاکم انہیں اس کی اجازت دیدے، جیسا کہ ’’خلاصہ ‘‘ میں ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد )‘‘۔

پرانی مسجد کے تعمیر کرانے والوں کے اجر وثواب میں کمی واقع نہیں ہوگی ،اللہ تعالیٰ بے حساب اجر عطا فرمانے پر قادر ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے ،جس نے سات بالیں اگائیں، ہر بالی میں سو دانے ہیں اور جس کے لیے چاہے، اللہ بڑھا دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت علم والاہے ،(سورۃالبقرہ:261)‘‘۔

ہمارے قدیم فقہائے کرام کی عبارات اس پر مبنی ہیں کہ قُرونِ اُولیٰ ووسطیٰ میں بالعموم افراد مسجد کے لیے اپنی ملکیتی زمین وقف کرتے تھے اور بعض صورتوں میں تعمیر بھی خود کرتے تھے اور اس کو چلانے کے لیے وقف بھی قائم کرتے تھے۔

آج کل خاص طور پر بڑے شہروں میں اہلِ محلہ میں سے چند افراد مل کر انجمن یا ٹرسٹ بناتے ہیں اور پھر عام چندے سے یہ کام کرتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ انجمن ی اٹرسٹ کے ذمے داران بدلتے رہتے ہیں، لہٰذا تغیروتبدّل یا انہدام و تعمیرِ نویا توسیع و تزئین وتحسین کے حوالے سے انہیں یہ حق حاصل ہے ، چندہ دینے والے بھی ان تمام امور کو دیکھ کر چندہ دیتے ہیں ،سو یہ ان کی رضامندی کی دلیل ہے۔ 

مسجد کی تعمیرِ نو کی صورت میں بانی یا پہلے عمارت کے تعمیر کنندگان کو اجر ملتا رہے گا، کیونکہ ان کا فعل تعمیر نو یا مرمت یا توسیع کے لیے دالّ اور محرک ہے اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :ترجمہ:’’ نیکی کی راہ دکھانے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہے (یعنی دونوں عنداللہ ماجورہیں)، (سُنن ترمذی:2670)‘‘۔

کسی بھی مسجد کی بنائے اول یا موجودہ عمارت کے لیے کوئی ضمانت نہیں ہے کہ یہ عمارت قیامت تک قائم رہے گی، حادثات وآفات بعید ازامکان نہیں ہیں، طویل مدت گزر نے کے بعدعمارتیں بوسیدہ بھی ہوجاتی ہیں اور ان کا اس حال پر قائم رکھنا خطرناک ہوجاتا ہے، پس تعمیرِنو، مرمت، تغیروتبدُّل اور توسیع کے سلسلے چلتے رہیں گے۔

بیت اللہ شریف کی عمارت کے مخدوش ہونے کے بعد اس کی تعمیر جدید کی جاتی رہی ہے، بعض روایات میں کعبۃ اللہ کی موجودہ تعمیر دسویں ہے، اس طرح حرم ِکعبہ اور حرم نبوی یعنی مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع کا سلسلہ بھی مختلف ادوار میں ہوتا رہا ہے اوراب بھی جاری رہتا ہے، لہٰذا آپ اپنی مسجد کو منہدم کرکے تعمیرِ نو کرسکتے ہیں۔

نیز یہ بھی خوش آئند ہے کہ آپ مسجد کی تعمیر نو میں خواتین کے لیے محفوظ اور باپردہ جگہ بناناچاہتے ہیں، یہ امر ملحوظ رکھیں کہ ہمارے دور میں خواتین کو مساجد میں باجماعت نمازوں میں شمولیت کی اجازت ضرورت کے تحت دی ہے، یہ رخصت اس امر کے ساتھ مشروط ہے کہ خواتین کی نماز کی جگہ مکمل باپردہ ہو اور آمد ورفت کا راستہ مردوں سے علیحدہ ہو ، ستر وحجاب کی مکمل پابندی ہو۔ 

آج کل مختلف مسالک کے لوگ عورتوں کے لیے خصوصی اجتماعات کا اہتمام کر رہے ہیں، ملک کے اندراور باہر مخصوص ریڈیو چینل اس مقصد کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ 

مساجد میں بھی باجماعت نمازوں، نمازِ تراویح اور جمعہ اور دُروسِ قرآن وحدیث کے اجتماعات میں اُن کی باپردہ شرکت کا اہتمام ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دینی ذوق رکھنے والی اہلسنت کی خواتین کے لیے جب اپنے مسلک کے مطابق اس طرح کے انتظامات نہیں ہوتے تو وہ دوسری مجالس میں جاتی ہیں اور علم کی کمی کی وجہ سے اُن کے عقائد ونظریات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ (جاری ہے)