• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر نعمان نعیم

اسلام میں’’احسان‘‘ کی فضیلت و اہمیت بہت زیادہ ہے، یہ عبادت کا اعلیٰ درجہ اور حسنِ سلوک کی انتہا ہے۔ احسان کا مطلب ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرنا جیسے اسے دیکھ رہے ہوں، یا کم از کم یہ احساس رکھنا کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ احسان، حسن سے ماخوذ ہے جس کے معنی خوبی اور رعنائی کے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں احسان حقوق ﷲ اور حقوق العباد کو نہایت خوب صورتی اور رعنائی کے ساتھ ادا کرنے پر کہا جاتا ہے۔ دینِ اسلام میں عبادت صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے ادا کرنے کا نام نہیں بلکہ ﷲ تبارک و تعالیٰ کے سامنے کامل فرماں برداری کا نام ہے۔ اسلامی احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے والے کو محسن بھی کہا گیا ہے۔

حدیث مبارکہ جو حدیث جبرائیلؑ سے بھی مشہور ہے ، حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے، اس حدیث میں احسان کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ ’’احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔نبی اکرمﷺ کے اس فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے جس میں بندے کو دیدار الٰہی کی کيفیت نصیب ہوجائے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزیں ہو جائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔

امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بندہ اپنی عبادت کو پورے کمال کے ساتھ انجام دے گا اور اس کے ظاہری ارکان آداب کی بجا آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا۔غرض عبادت کی اس اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کيفیت کو ’’احسان‘‘ کہتے ہیں۔

احسان دین اسلام کی بنیادوں میں سے ہے۔ تمام تر حالات اور معاملات میں احسان اختیار کرنے کا حکم ہے۔ احسان کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اور وہ اس کے محبوب بندوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز میں احسان کی فضیلت کو قرآن میں بیان فرمایا۔ ارشادِ ربّانی ہے ’’سو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس (مومنانہ) بات کے عوض انہیں ثواب میں جنتیں عطا فرما دیں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور یہی احسان کرنے والوں کی جزا ہے‘‘(سورۃالمائدہ: 85) 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اللہ تعالیٰ عدل کا، احسان کا اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (سورۃالنحل : 90) احسان کرنے والے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرفراز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’اور احسان کرو اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ (سورۃالبقرۃ : 195)

احسان کرنے والے ہی اللہ تعالیٰ کی معیّت، اس کی نگہبانی، عنایت و رحمت اور لطف و کرم کی سعادت پانے والے ہیں۔’’یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں اور احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘یہ لوگ دنیا و آخرت میں نعمتیں پانے والے ہیں اور یہی لوگ رضائے الٰہی کے حصول میں کامیاب ہونے والے ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :’’ بےشک پرہیزگار باغوں اور چشموں میں (لطف اندوز ہوتے) ہوں گے، اُن نعمتوں کو (کیف و سرور) سے لیتے ہوں گے جو اُن کا رب انہیں (لطف و کرم سے) دیتا ہوگا، بےشک یہ وہ لوگ ہیں جو اس سے قبل (کی زندگی میں) صاحبانِ احسان تھے ‘‘ (سورۃالذّاریات :15۔16)

احسان کا لفظ ایک خاص مفہوم کا حامل ہے۔ نیتوں کو اپنے مفادات سے پاک اور بلند تر کر کے اللہ کے لیے خالص کر دینے کے باعث احسان عبودیت یعنی بندگی کا اعلیٰ ترین درجہ بن جاتا ہے۔ اس لیے احسان فی الحقیقت اپنی سوچ و فکر اور ارادہ و مقصد کو مکمل طور پر اللہ کے لیے خالص کر دینے کا نام ہے اور یہ عقیدہ و عمل میں سنت محمدﷺ کی اتباع کر تے ہوئے نیک اعمال بجا لانے سے حاصل ہوتا ہے۔

احسان کا ایک عام مفہوم دوسروں پر انعام کرنا ہے۔ دراصل احسان دین اور دنیا کے ہر معاملے میں عمدگی برتنے کا نام ہے۔ مخلوق کے ساتھ اپنے تمام اقوال و افعال میں حسن اخلاق سے پیش آنے کا نام احسان ہے، سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنا حرام قرار دے دیا ہے۔

احسان، کتاب و سنت کی نصوص کے مطابق انسان کے اپنے بھائی سے حسن معاملات کا جوہر ہے۔ احسان کا دائرۂ کار انسان کے خود اپنے آپ پر، اس کے ماتحتوں پر اس کے خاندان اور عزیز و اقارب پر اور اس کے بعد تمام انسانی معاشرے پر پھیلا ہوا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق ایک بدکار عورت نے شدّتِ پیاس سے ہانپتے ایک کتے کو گیلی مٹی چاٹتے ہوئے دیکھا تو اس نے اپنا موزہ اتار کے اس کے ذریعے، کنویں سے پانی نکال کے پیاسے کتے کو پلا دیا۔ اس عمل کے بدلے اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش فرما دی۔

اسلام کی رو سے احسان زندگی کے ہر گوشے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس میں نباتات بھی شامل ہیں، حیوانات بھی اور جمادات بھی۔ ارشاد ربّانی ہے:’’ زمین میں فساد برپا نہ کرو، جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ، یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے ‘‘ (سورۃ الاعراف :56) رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اگر کسی چڑیا کو بھی بے مقصد قتل کیا گیا تو قیامت کے دن وہ رب کےحضور فریاد کرے گی کہ اے میرے رب! اس شخص نے مجھے اپنے کسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ بلاوجہ ہی قتل کر دیا تھا۔

واجب احسان میں سے مسلمانوں کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرنا اور ان سے مثالی تعلقات رکھنا بھی ہے۔ بالخصوص والدین اور اولاد باہم احسان کرنے والے ہوں، میاں بیوی کے آپس میں تعلقات اچھے ہوں اور رشتے داروں کے ساتھ حسن اخلاق کے ساتھ پیش آیا جائے۔ ارشاد ربانی ہے : ’’اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔‘‘

حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں دنیا و آخرت کے سب سے زیادہ کریم اخلاق کے متعلق آگاہ نہ کروں؟ وہ یہ ہے کہ تم اس شخص سے تعلق جوڑو جو تم سے توڑتا ہے اور تم اسے دو جو تمہیں محروم رکھے اور یہی احسان ہے۔‘‘

احسان یہ بھی ہے کہ آدمی دوسروں کے ذمے اپنے واجب حقوق سے بھی اللہ کی خاطر دست بردار ہو جائے۔ ارشاد ربانی ہے:’’ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں ‘‘۔احسان کی سب سے بڑی صورت یہ ہے کہ مخلوقات کے ساتھ ہر طرح سے نیکی کی جائے۔ انسانیت کو احسان اور رحمت سکھانے والے رسولﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہر نیکی صدقہ ہے۔‘‘

احسان اپنے خوبصورت معانی کے ساتھ ہر حال میں مطلوب ہے۔ ملاقات و گفتگو کی مجلسوں میں بھی احسان ہی ہونا چاہیے۔ جھگڑوں اور تنازعات میں اس کی بالخصوص تاکید ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ اور اے محمدؐ، میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات فرمایا کریں جو بہترین ہو دراصل یہ شیطان ہے جو انسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے کی کوشش کرتا ہے ‘‘ (سورۃالاسرا ء: 53) پھر فرمایا:’’ نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو ‘‘ (سورۂ فصّلت : 34)

غیر مسلموں اور اہل کتاب کے ساتھ مکالمہ میں بھی احسان ہی لازم ہے تاکہ ان سے کیا جانے والا مباحثہ مطلوبہ اغراض و مقاصد اور نتائج و ثمرات پر سے ہمکنار ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو، مگر عمدہ طریقے سے‘‘ (سورۃالعنکبوت : 46)

تاجروں کے لیے لازم ہے کہ وہ احسان اور رحم کی راہ اپنائیں اور مسلمانوں کے معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہیں۔ وہ اس استحصال سے باز رہیں جس کا موجودہ زمانے میں چلن عام ہو چکا ہے۔ وہ ذخیرہ اندوزی نہ کریں اور زائد قیمت لینے سے احتراز کریں۔ یہ بات انھیں ہمیشہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ ان کا عظیم رب ان کی نیتوں ، ان کے اقوال اور ان کے افعال کی خوب نگرانی کر رہا ہے۔ یہ بھی ان کے ذہن نشین رہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ 

ایک مومن اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ سو لازم ہے کہ تاجر حضرات لوگوں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آئیں اور صرف معقول منافع لیں۔ اسی میں ان کے لیے برکت ہوگی اور دنیا و آخرت میں اچھا انجام ہوگا۔آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے بعض ملکوں میں غربت کی شرح بڑھ گئی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تاجروں نے غریبوں کی حاجت مندی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کا استحصال کرنا شروع کر رکھا ہے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں کے لوگ امن و امان سے محروم ہوگئے۔ 

ہم اللہ تعالیٰ سے تمام مسلمانوں کے لیے امن و امان کی دعا کرتے ہیں۔ واجب احسان کی ایک شق یہ بھی ہے کہ ہر ذمہ دار خواہ وہ حکمران ہو، وزیر ہو یا اس کے علاوہ کسی ذمے داری پر ہو، اس پر لازم ہے کہ وہ عدل اور احسان کے ساتھ اپنی رعایا پر حکمرانی کرے۔ وہ ان کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا سلوک کرے، وہ چھوٹوں سے باپ بن کر، بڑوں سے بیٹا بن کر اور اپنے جیسوں سے بھائی بن کر پیش آئے۔ ارشاد ربّانی ہے:’’ اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ ۔‘‘(سورۃالشعراء)

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ ارشاد فرما رہے تھے اور آپ ﷺپر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی تھی۔ انھیں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کے ذریعے معلوم تھا کہ ہمارے زمانے میں کیا ہونا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’اے اللہ جو بھی میری امّت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور امّت کو مشقت میں ڈالے تو تو اس پر سختی کر اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور ان پر نرمی کرے تو تو اس پر نرمی فرما۔‘‘

حضرت معقل بن یسارؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ کسی رعایا کا والی بنائے اور پھر وہ اس حال میں مرے کہ رعایا سے بددیانتی کا مرتکب ہو رہا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔‘‘

احسان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نیکی کے کاموں میں اولو الامر کی اطاعت کی جائے اور ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ولی الامر کے لیے سچی نصیحت کی جائے جس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی ن المنکر میں اس کا تعاون کرنا، ایمان اور تقویٰ کی بنیاد پر اسلام کے اصولوں کے مطابق مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کا حریص ہونا بھی احسان ہی ہے۔ ہم اللہ عزّوجل سے سوال کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں اور آپ کو ہر کام میں احسان کرنے والوں میں سے بنا دے۔