اگلے ماہ ملک اپنی تاریخ کے مشکل ترین انتخابی مراحل میں داخل ہونے والا ہے،اس وقت ریاست اور سیاست دونوں ہی سنگین نوعیت کے بحران سے دوچار ہیں۔ قومی سیاست درست سمت کی طرف پیش قدمی کی بجائے مسائل در مسائل کا شکار ہے۔ سیاست اور جمہوریت راستہ نکالنے کی بجائے بند گلی کی جانب بڑھتی جارہی ہے، ایوان بالا میں انتخابات کو روکنے کے لئے قرارد اد کا منظور ہونا حیرت انگیز ہے۔ سیاسی تقسیم محض ملک میں سیاسی جماعتوں یا سیاسی فریقین تک محدود نہیں، ریاست کے مختلف ادارے ، سول سوسائٹی اور میڈیا بھی بٹے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، اس رسہ کشی میں آئین اور قانون ، سیاسی و جمہوری اقدار پیچھے رہ گئے ہیں، عوام مشکلات سے دوچار ہیں، ان کی اہمیت ایک فٹ بال کی مانند ہے جسے ہر کوئی لات مار رہا ہے ، اقتدار کے اس کھیل کا کوئی اصول نہیں بلکہ واحد اصول جائز و ناجائز بنیادوں پر اقتدار کی جنگ میں خود کو ایک بڑے حصہ دار کے طور پر منوانا ہے،ملک اس وقت جن مسائل سے گزر رہا ہے، ا س بارے میں سیاسی ،معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کے بعدجو نئی حکومت آئے گی اسے انتخابات کے متنازع ہونے کی بحث کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشی، سیکورٹی سطح کے سنگین مسائل سے نمٹنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،انتخابات سے قبل روزانہ کی بنیادوں پر نئے نئے سیاسی تضادات کو جنم دیا جارہا ہے ، انتخابات کو بنیاد بنا کر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز کا کھیل جار ی ہے۔حالات کی سنگینی کاکسی کو احساس نہیں کہ یہ سیاسی مہم جوئی کا کھیل سیاسی، جمہوری اور ریاستی نظام کو کیسے خرابی کی طرف دھکیل کرہماری ترقی کےعمل کوآگے کے بجائے پیچھے کی طرف لےجائے گا۔حالات ریاستی بحران کی نشاندہی کررہے ہیں۔ اس لیے اس بحران کا حل اجتماعی سطح کی دانش سے نکالنا ہو گا۔ ان مسائل کا حل ٹکراؤ یا سیاسی دشمنی پر مبنی حکمت عملی سے ممکن نہیں اور نہ ہی یہ جنگ سیاسی مخالفین کو ختم کرنے یا ان کو دیوار سے لگانے یا سیاسی عمل سے باہر نکالنے سے جیتی جا سکے گی،پاکستان کو سال رواںکیلئے معاشی محاذ پر جن اہم ترین چیلنجز کا سامنا ہے ،ان میں سب سے اہم سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں تباہ شدہ معیشت کی بحالی ہے، عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر خود انحصاری کی منزل کی درست سمت کا تعین کرنا ہو گا۔ دیگر چیلنجوں میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کو سخت حالات میں مکمل کرنا، مہنگائی اور شرح سود کی تاریخی بلند ترین سطح، اندرونی قرضوں پر سود کی مد میں ادائیگیوں میں ہوشربا اضافہ، بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا شدید بحران، معیشت کی سست روی، بے روز گاری ، پیداوار میں جمود، بجلی اور گیس کے شعبوں میں بدحالی، ان تمام مسائل سے نئی حکومت کے لئے نبرد آزما ہونا اس کے سیاسی مستقبل کو بھی دائو پر لگا سکتا ہے،حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کاکوئی تھنک ٹینک نہیں ،جس نے تحقیق پر مبنی پلان تیار کیا ہو،پاکستان کو دوبارہ خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے عملی حل حکمت عملی بنائی ہوئی ہو۔ یہ جمہوریت کی نہیں بلکہ حکمران جماعت سمیت تمام جماعتوں کی ناکامی ہے۔ اچھی معاشیات اچھی سیاست ہے، لیکن انہوں نے کبھی اس کی فکر نہیں کی۔اب وقت آ گیا ہے کہ عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں سبز انقلاب کیلئے ایک قومی منصوبہ تیار کریں۔ انہیں پیداواری صلاحیت اور معیار میں اضافہ کرنا چا ہئے، لاگت کو کم کرنا چا ہئےاور مقامی ضروریات کو پورا کرنے اور ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹ ایبل سرپلس پیدا کرنے کے قابل زرعی صنعتوں کو قائم کرنا چاہئے۔ ہمارا زور ترقی، پیداواری صلاحیت کے ذریعے برآمدات کو بڑھانے پرمرکوزہونا چا ہئے۔ آئی ٹی سیکٹر کو عروج کی جانب لے جانا چاہئے، اس وقت ملک میں مایوسی کی لہر ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، امن وا مان کی صورت حال ابتر ہوتی جارہی ہے، انتخابات سےقبل ہی امیدواروں پر حملے ہورہے ہیں، بھارت اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ افغانستان کی جانب سے پاکستان میں مداخلت بڑھ رہی ہے، جس کا مقصد آرمی چیف عاصم منیر کی جانب سے دئیے گئے معاشی منصوبے کو ناکام بنانا ہے، انتخابات سے قبل لیول پلینگ کا مطالبہ کیا جارہا ہے،آزادانہ، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ قومی انتخابات، قیام پاکستان سے ہی عوام کا خواب ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس بار جب عدلیہ بھی آزاد ہے، ملک میں ایک ایسے انتخاب کا انعقاد ممکن ہو گا جو تمام سیاسی جماعتوں کے لئے قابل قبول ہو،تاحیات نااہلی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند اور مثالی ہے، اس فیصلے سے عدالتی ناانصافی کےسیاہ دور کا خاتمہ ہوگیا۔دوسری طرف پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے پرپشاورہائیکورٹ کےحالیہ فیصلے کے خلا ف الیکشن کمیشن سپریم کورٹ گیا ہے جس کی سماعت تادم تحریر جاری ہے ۔
اگلی آنے والی حکومت کو جہاں ملک کے معاشی حالات میں بہتری لانی ہوگی وہیں اسے ملک کے مفاد میں اس قسم کی قانون سازی بھی کرنا ہوگی جس میں مہنگائی کی روک تھام کی جاسکے، بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکے۔ملک اس وقت جس معاشی بحران اور سیاسی افراط و تفریط کا شکار ہے اس سے نجات کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئےمنصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرائے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام آئے ، جو معاشی بحالی کی سب سے بڑی اورمضبوط ضمانت ہے۔