مجھے یہ جاننے میں بہت وقت لگا کے مسلسل جدوجہد کا نام ہی زندگی ہے۔ ترقی اور کامیابی کا راز صرف انسان کی مستقل مزاجی اور شعورمیں پنہاں ہے۔ مگر مجھے جس بات جس چیز نے سنبھلنا سکھایا وہ ایک ایسا کردار ہے جو میری ہمیشہ سے حوصلہ افزائی بنا تھااور بنا ہےوہ میرا خون کا رشتہ مولانا محمد علی جوہر اور بی اماں کے ساتھ۔
جس گھرانے میں میں نے آنکھ کھولی اس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تہذیب پر بھی زور دیا جاتا تھا۔ خاص کر کے بیٹی کی تعلیم پر۔ اگر میں یاد کروں تو میرے والد صاحب کو صبح صبح ،جب ہم اسکول کیلئے اٹھا کرتے تو سرکاری گھر کے برآمدے میں ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر اخبار کا مطالعہ کرتے پایا۔بی اماں کے نام سے جانی جانے والی ہستی جن کا اصل نام آبادی بیگم تھا میرے پر دادا کی جانب سے ان سے خون کا رشتہ نکلتا ہے۔بچپن میں جب بی اماں اور مولانا محمد علی جوہر کا ذکر گھر میں فخرسے کیا جاتا تھا تب شاید اتنا شعور نہیں تھا مگر وقت اور بڑھتی عمر اور تعلیم حاصل کرنے کےساتھ ساتھ گھر کے ماحول کی وضع داری نے جہاں ہم کو ان سے تعلق اور رشتے نے باعث فخر بنایا تو وہیں کئی ذمے داریاں بھی عائدکر دیں ۔مجھے جس بات نے سب سے زیادہ بچپن سے متاثر کیا وہ تھا بی اماں کا کردار جو میرے والد ، چچا اور بزرگوں سے سننے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ کتابوں میں پڑھنے کو ملا۔ اُس زمانے میں اتنی باہمت اور با کردار عورت ۔بحییثتِ ماں میرے لیے ایک رول ماڈل بن گئی۔بی اماںمحض ستائیس سال میں بیوہ ہو گئی تھیں اور شوہر کا وظیفہ ان کو نواب آف رام پور کی جانب سے ملتا تھا کیونکہ ان کے شوہر عبدالعلی خان ، نواب آف رام پور کی فوج میں تھے اور بہت قابل اور پڑھے لکھے انسان تھے ۔شوہر کے انتقال کے بعد ملنے والے وظیفے اور اپنے زیورات اور زمین بیچ کر کسمپرسی کی حالت میں بھی بی اماں نے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم سے روشناس کیا، جب زندگی کےایک دور میں ،میں اٹھائیس سال کی عمر میں دو بچوں کے ساتھ اکیلی ہوئی تو مجھے بی اماں کے کردار سے ان کی عظمت ، ہمت اور شعور سے وہ انجانی طاقت ملی اور خاص کر جب محسوس ہوا کہ میری رگوں میں اس خاندان کا خون دوڑ رہا ہے۔ اس خون کا قرض بہت بڑا ہے اس قابل نہیں کہ ادا کر سکوں مگر اپنے حصے کی شمع تو روشن کی جا سکتی ہے ،میں نے اسکو اپنی طاقت بنایا اور سوچا کے تعلیم کااستعمال شعور کے بنا ادھورا ہے۔ بی اماں بہت جوانی میں امروہہ سے بیا ہ کر رام پور آئیں ، تب تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں تھیں مگر چند ہی سالوں میں شوہر کی رفاقت میں عربی، فارسی اور اردو پر مہارت حاصل کی اور غدر میں جب ہمارے خاندان کے کئی افراد شہید ہوئے تو انھوں نے اپنے بیٹوں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کو تلوار کی جگہ قلم کو طاقت بنانے کو کہا۔ اولاد کی اسیری میں ڈھلتی عمر کے باوجود باحوصلہ رہیں۔
یوں تو ہسٹری کی کتابوں میں ان عظیم ہستیوں کے سب واقعات موجود ہیں ۔ مگر میرے لیے اس تعلق سے وابستہ میرے والد اور بزرگوں کی نشستوں میں اپنے آبائو اجداد کی کہانیاں اور واقعات ایسے ذہن نشین ہوئے کے زندگی کا حصہ بن گئے۔ جب جب میرے حوصلے پست ہوئے تب تب مجھے بی اماں کے مضبوط کردار نے ہمت اور حوصلہ دیا۔ مجھے رستے کا تعین کرنے میں مدد دی۔ارادوں میںمستقل مزاجی دی۔ انسان جیتا بھی ایک بار ہے اور مرتا بھی ایک بارمگر مر کے بھی جو زندہ رہے اصل زندگی وہ ہے۔یہ احساس کہ زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے کامیابی تو نیت اور محنت پر منحصر ہوتی ہے۔ بحیثیت انسان اور خاص کر ایک خاتون ہونے کے ناطے مجھ پر فرض ہے کہ میں ان عورتوں کی ہمت بنوں جو کمزور پڑ جاتی ہیں اپنے حصے کی شمع روشن کروں اور کچھ نہیں تو کم از کم کسی کیلئے ہمت اور حوصلے کا باعث بن سکوں ۔ میرے ذہن میں والدین اور خاص کر بزرگوں کی تہذیب سے بھرپور نشستوں کے نقش وقت کے ساتھ ساتھ پختہ ہو گئے،رام پور سے جڑے اس رشتے کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یہ نقش محض یادیں نہیں بلکہ ہمت ہیں ،شعور ہیں اور آگے بڑھنے کی وجہ ہیں ۔ بی اماں ایک ایسا باہمت کردار ہیں جن کی عظمت بیان کرنے کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں ۔
میں توان سےخون کے رشتے میں بندھی ہوں مگر میں چاہوں گی کہ ہر عورت کو بی اماں کی زندگی جدوجہد اور عزم کے بارےمیں پڑھنا چاہیے ہے۔ آج تک اس حوصلے ہمت اور کردار کی ماں نہیں دیکھنے کو ملی ۔ خاص طور پر عورتوں کیلئے وہ ایک رول ماڈل ہیں ۔