ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے ایمازون جنگل کے گھنے اور سرسبز درختوں میں ہزاروں سال سے چھپا ہوا ہے شہر دریافت کر لیا۔
جنوبی امریکی ملک ایکواڈور میں 2 دہائی قبل زمین میں دبی سڑکیں اور مٹی کے ٹیلے دریافت ہوئے جو ماہرینِ آثار قدیمہ کے لیے ناقابلِ یقین دریافت تھی۔
اب حال ہی میں’جرنل سائنس‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق اس حوالے سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ اسٹیفن روسٹین اور دیگر ماہرین نے لیزر سنسر ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک نقشہ تیار کیا ہے۔
اس نقشے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کسی زمانے میں گنجان بستیاں اور سڑکیں موجود تھیں جو کوہ انڈیز کے دامن تک پھیلی ہوئی تھیں۔
اس خطے پر 500 قبل مسیح میں اُپانو قبیلے نے قبضہ کر لیا تھا اور وہ وہاں 300 سے 600 صدی عیسوی تک موجود رہے۔
تحقیق کے دوران اس خطے میں رہائشی اور مذہبی عمارات کو مٹی کے ٹیلوں سے باہر نکالا گیا۔
ان عمارات کے گرد کھیت اور نہروں کا نظام بھی موجود تھا جبکہ وہاں کی طویل ترین سڑکیں 33 فٹ چوڑی اور 6 سے 12 میل لمبی تھیں۔
ویسے تو اس خطے کی آبادی کا تخمینہ لگانا مشکل ہے مگر ماہرین کے خیال میں وہاں کم از کم 10 ہزار افراد مقیم تھے۔
ماہرین کے مطابق تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ شہر کافی گنجان آباد تھا جس کا معاشرہ کافی پیچیدہ تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ایمازون میں رہنے والے افراد کے پاس عمارات تعمیر کرنے کے لیے پتھر نہیں تھے تو وہ مٹی سے عمارتیں تعمیر کرتے تھے۔
عرصے سے خیال کیا جا رہا تھا کہ ایمازون جنگل میں بہت کم افراد مقیم رہے ہیں مگر حالیہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ اس خطے کا ماضی اندازوں سے زیادہ پیچیدہ ہے۔