• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علمی معیشت کا قیام دنیا بھر کی قوموں کیلئے ایک اہم چیلنج اور ترقی کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کے معاملے میں، یہ تبدیلی نہ صرف لازمی ہو چکی ہے بلکہ پائیدار سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے ایک ناگزیرحکمت عملی بھی ہے۔ ہمیں پاکستان کو ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت میں تبدیل کرنے کیلئے زرعی اور صنعتی ترقی کے مختلف پہلوؤں پر انقلابی اقدامات کرنا ہونگے ۔ اس سلسلے میں میں نے ایک جامع منصوبہ تیار کیا تھا جس کو 2007ءمیںکا بینہ نےمنظور کیا تھا اس پر فوری عمل درآمد ہونا چاہئے ۔اس منصوبے میں سائنس، ٹیکنالوجی،جدت طرازی اور پیداوار کو کلیدی ستونوں کے طور پر شامل کیا گیا ہے جو معیاری تعلیم اور ایک ماحولیاتی نظام کی بنیادوں پر قائم ہوں گے جو نجی شعبے میں جدت طرازی اور کاروبار کو تیز کرسکتے ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی پر منحصرعلمی معیشت کے حصول کیلئے، پاکستان کو سائنس، ٹیکنالوجی، جدت طرازی اور پیداوار کو پائیدار اور مساوی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے اپنی قومی منصوبہ بندی کی حکمت عملی میں ضم کرنا چاہیے۔ قومی پالیسی پرنجی شعبے کے ماہرین اور مخالف جماعتوں سمیت حکومت کےتمام عہدیداروں کیساتھ جامع مشاورت کے بعدعمل درآمد ہونا چاہیے۔ اسکی تاثیر کو یقینی بنانے کیلئے قومی اتفاق رائے ضروری ہے۔اس پالیسی کے تحت شروع ہونیوالے عملی منصوبے معیاد کے پابند ہونے چاہئیں، جن میں تمام متعلقہ سرکاری وزارتیں اور ادارے شامل ہوں جو سائنس، ٹیکنالوجی،جدت طرازی اور پیداوار میں اضافے کی ذمہ دار ہوں۔ ٹیکنالوجی کی موجودہ صورت حال اور آئندہ ہونیوالی اہم تبدیلیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔تنظیمیں قائم کی جائیں۔ تمام سرکاری وزارتوں اور نجی شعبوںکو اس اہم پروگرام میں شامل ہونا ہوگا۔ اس کوشش میں، عالمی معیار کے ادارے کا قیام انتہائی اہم ہے، جو شواہد پر مبنی منصوبہ بندتحقیق اور سائنسی مشاورتی کو فروغ دیتا ہو۔ کلیدی شعبوں جن پر ہمیں توجہ مرکوز کرنی چاہیے، ان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، روبوٹکس، بگ ڈیٹا، اور جامع انٹرنیٹ پر زور کیساتھ، جدید زراعت، معدنیات نکاسی و تیاری کے ساتھ ساتھ متبادل توانائی شامل ہیں۔ اس طرح کے قومی پروگرام پر عملدرآمد کرنے کیلئے ہمیں اسکول، کالج اور جامعات کے تعلیمی نظام کی مکمل تنظیم نو کرنا ہوگی تاکہ طلبہ کو اپنے طور پرسوچنے، اورجدید طریقے سےحقیقی زندگی کے مسائل کو حل کرنے اور جو کچھ کتابوں میں چھپا ہے اس پر اندھا یقین کرنے کی بجائے اپنی عقل اور سمجھ بوجھ کو استعمال کرنے کی ترغیب دینا ہوگی۔ تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، اور جدت طرازی کو فروغ دیا جانا چاہئے تاکہ ہر فارغ التحصیل طالب علم نیا کاروبار شروع کر سکے۔ اب بڑے پیمانے پر کھلے آن لائن کورسزوسیع پیمانے پر دستیاب ہیں اور یہ معیاری تعلیم فراہم کرنے میں ایک اہم قدم ثابت ہوئےہیں ۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک بہت بڑی کامیابی حاصل کی، جب ہم نے MOOCs کا ایک مربوط انداز تیار کیا اور اسکا آن لائن آغاز کیا جو اب اسکول، کالج اور جامعات کی سطح پر 73000کورسز فراہم کررہا ہے۔ اسے www.lej4learning.com.pk پرمفت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان اقدام کے ساتھ ساتھ اعلیٰ معیار کی ، تکنیکی تعلیم، اور اعلیٰ تعلیمی نظام قائم کرنا ہوگا ، جس میں اساتذہ کی ترقی انکی کارکردگی سے مشروط ہو۔ دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ تکنیکی ماہرین کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کی تقریباً پچیس کروڑ کی آبادی میں سے 67فیصد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے، پاکستان کو چاہئے کہ وہ مختلف صوبوں میں موجود ہزاروں سرکاری اور نجی تکنیکی تربیتی درسگاہوں میں معیار کو یقینی بناتے ہوئے فنی تعلیم کو مضبوط کرے،ان کی بین الاقوامی معیار کی مہارت کو یقینی بنائے۔ صرف ان اقدام سے ہی غیر ممالک میں کام کرنے والے ایسے پیشہ ور تکنیکی طور پر تربیت یافتہ افراد کے ذریعے اربوں ڈالرکا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ ہماری جامعات میں فیکلٹی کو مضبوط کرنے کا ایک انقلابی پروگرام 2002 میں بطور چیئرمین ایچ ای سی میری سرپرستی میں شروع کیا گیا تھا جس کے تحت تقریباً 11000 طلباء کو غیر ملکی تربیت کیلئے بھیجا گیا۔ اس سے تدریس اور تحقیق کے معیار کو بلند کرنے میں بہت مدد ملی یہاں تک کہ پاکستان نے 2017ءمیں ویب آف سائنس کے اعداد و شمار کے مطابق فی کس تحقیقی پیداوار میں ہندوستان کو پیچھے چھوڑ دیا، جب کہ ہم 2002 ءمیں ہندوستان سے تقریباً 400فیصد پیچھے تھے۔ اساتذہ کی تربیت کے اس پروگرام کو میں نےٹاسک فورس برائے علم پر مبنی معیشت کےنائب چیئرمین کی حیثیت سے مزید مضبوط کیا اور13 ارب کا پروگرام عمل درآمد کیلئے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو دیا ۔ ہمیں اس کوشش کو مزید بڑے پیمانے پر جاری رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اگلے 15 سال میں ہماری کم از کم ایک دو جامعات دنیا کی 100 بہترین جامعات میں شامل ہو جائیں۔ آج ہماری کوئی بھی جامعہ اس فہرست میں نہیںہے۔پاکستانی طلباء کو ڈگریاں پیش کرنے والی غیر ملکی انجینئرنگ جامعات کے قیام کا اقدام ہم نے 2005 ءمیں شروع کیا تھا لیکن حکومت نے 2008 ءمیں اسے ترک کر دیا تھا۔اگرہم ایک مضبوط علمی معیشت کو فروغ دینا چاہتے ہیں تواس میں نجی شعبے کا کلیدی کردار ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی اداروں میں ٹیکنالوجی میں جدت پیدا کرنے کے لئے افرادی قوت کی تربیت کے ذریعے نجی شعبے کی تحقیق اور ترقی کو فروغ دے تاکہ وہ ہماری تیار کردہ اشیا کی برآمد کیلئے بین الاقوامی منڈیوں کے مطلوبہ معیار پر پوری اتر سکیں ۔ ٹیکس مراعات،مماثل گرانٹس اور عوامی خریداری کی پالیسیاںاعلی تکنیکی صنعتوں اور پائیدار ترقی کے اہداف مقرر کرنے چاہئیں ۔ CPEC کو تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیتی اداروں کے ساتھ درمیانی اور اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی تیاری اور برآمد پر بھی توجہ دینی چاہئے۔

حکومت کو چاہئے کہ وہ خصوصی بیمہ اسکیموں کے ذریعے اعلیٰ ٹیکنالوجی کے سامان کی تیاری میں نجی صنعتوں میں اگر لا قانونیت کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے تو کاروباری نقصان کی ذمہ داری لے ۔ سرکاری اور نجی شعبوں میں کلیدی ٹیکنالوجیز کو اپنانے اور ان کو سہولت فراہم کرنے کیلئے ایک قومی جدت طرازی فنڈ قائم کیا جانا چاہیے۔ میٹرولوجی، اسٹینڈرڈز، ٹیسٹنگ، اور کوالٹی کیلئے اعلیٰ معیار کا بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جانا چاہیے تاکہ بین الاقوامی معیارات اور معیار کی تشخیص کو یقینی بنایا جا سکے۔سافٹ ویئر/ہارڈ ویئر کی سرکاری خریداری میں مقامی صنعتکاروں کو ترجیح دینی چاہیے، ٹیکنالوجی کی منتقلی کو یقینی بنانے میں حکومت کی خریداری کی پالیسیوں میں ایسی تبدیلی بہت بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔ لہٰذا تمام ترقیاتی منصوبوں کی منظوری سے قبل ٹیکنالوجی کی منتقلی کا عنصر لازمی شامل ہونا چاہیے، جس سے خود انحصاری اور برآمدی صلاحیتوں میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان کا علمی معیشت بننے کا سفر ایک کثیر جہتی عمل ہے جس کیلئے مستقل بنیادوں پرجامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ایک ایسے تکنیکی ماہرین کی حکومت کی ضرورت ہےجو قابل ترین سائنسدانوں اور انجینئر وں پر مشتمل ہو ۔لہٰذا علمی معیشت میں منتقلی کے اقدامات اکیسویں صدی میں پاکستان کی خوشحالی اور عالمی مسابقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔

تازہ ترین