• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک گھر والے اپنی ملازمہ پر خفا ہوئے اور اسے اٹھا کر چوتھی منزل سے نیچے پھینک دیا۔ یہ واقعہ اخباروںمیں چھپا۔ چند روز بعد ایک اور گھر والوں نے اپنی ملازمہ کو دوسری منزل سے نیچے پھینک دیا۔ دو تین دن گزرے ہو ںگے کہ ایک صاحب جو خیر سے پروفیسر بھی تھے اور جن کا مکان ایک منزلہ تھا اور چھت پر جانے کا راستہ نہیں تھا، وہ ملازمہ کو نیچے پھینکنے سے معذور رہے ۔انہوں نے غریب لڑکی کو اتنا مارا کہ وہ جان سے گئی۔ یہ وہ تین واقعات ہیں جو اخباروں یا ٹی وی پر بیان ہوئے۔ وہ تیس واقعات ان کے علاوہ ہیں جن کی دنیا کو خبر ہی نہیں ہوئی۔ یا تو پولیس نے ہاتھ کی صفائی دکھائی یا بے رحم آقاؤں نے کسی کو واقعے کی ہوا بھی نہ لگنے دی۔ خاص طور پر جہاں عزت آبرو کا سوال آجائے وہاں ایک سے ایک گھناؤنے جرم پر بھی اس صفائی سے پردہ ڈالا جاتا ہے کہ نامہ اعمال لکھنے والوں کو ہو تو ہو ، کسی اور کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ تو کیا یوں نہیں ہے کہ جیسے بیماری اُڑ کر لگتی ہے، جرم بھی اُڑ کر لگتا ہے۔کیا کسی واقعے کی رپورٹنگ سے دوسرے لوگوں کے ذہن میں وہی واقعہ دہرانے کا خیال نہیں پیدا ہوتا؟۔ اس پر کچھ عرصہ پہلے کی ایک واردات یاد آئی۔ کراچی میں کسی ادھیڑ عمر شخص نے جو پیشے کے اعتبار سے چوکیدار تھا ، ایک کمسن لڑکی پر مجرمانہ حملہ کیا اور بچّی کو مار کر اس کی لاش کسی گڑھے میںپھینک دی۔وہ پکڑا گیا اور دو چار جوتے مارے گئے تو اس نے سارا سچ اگل دیا ۔ اس سے یہی پوچھا گیا کہ یہ تم نے کیا کیا۔ چوکیدار نے سیدھا سا جواب دے دیا۔’’ صاحب میں آئے دن ایسے ہی واقعات کی خبریں سنتا تھا۔ ایک روز جی چاہا کہ میں بھی یہ کرکے دیکھوں کہ کیسا لگتا ہے‘‘۔
ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ جرم لہر کی شکل میں آتا ہے۔ پہلے بینک کہاں لٹتے تھے۔ اکا دکا واقعات ہوتے تھے۔ اب تو یہ حال ہے کہ ایک روز ایک گھنٹے کے اندر تین بینک لٹے۔ کسی بینک کا کچھ پتہ نہیں کہ کب لٹیرے اس پر ہاتھ صاف کردیں۔ باہر جو محافظ کھڑے ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر اعتماد تو کم، ترس زیادہ آتا ہے کہ ان کے بھی بیوی بچّے ہوں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی انہی کی مدد سے بینک کی تجوریوں میں جھاڑو پھیری جاتی ہے۔
بات دور نکل گئی جو شروع ہوئی تھی گھریلو ملازموں، خصوصاً عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کی۔میں نے ابھی حال ہی میںغریب بستی کی نادار لڑکیوں کے ایک اسکول کا احوال لکھا تھا جہاں مزدوروں کی کچی بستیوں کی لڑکیاں پڑھنے آتی ہیں۔ یہ لڑکیاں ماں باپ کو مالی سہارا دینے کے لئے اسکول کے اوقات کے بعد مختلف گھروں میں جاکر چھوٹے موٹے کام کرتی ہیں۔ ان گھروں میں ان کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے، خصوصاً گھر کے ندیدے مرد اُن پر کیسی رال ٹپکاتے ہیں اور دست درازی کرتے ہیں، بچیوں کی زبانی یہ سب کچھ سن کربے چاری استانی اپنا سر پیٹ کر رہ گئی۔یہ روز روز کا قصہ ہے لیکن بظاہر یہ چھوٹی سی بات کیاایک بہت بڑے المیہ کی طرف اشارہ نہیں کرتی ۔ کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بُردہ فروشی اور وہ غلاموں کی تجارت کا زمانہ چوری چھپے موجود ہے۔ ہمارے معاشرے اور ہمارے ماضی میں سب جانتے ہیں کہ غلاموں کے بازار لگا کرتے تھے ،بولیاں لگتی تھیں اور نیلامی ہو تی تھی۔ خود میں نے ایک منظر دیکھا۔ میں حیدرآباد دکن کے ہوائی اڈے پر اپنے طیارے کا انتظار کررہا تھا۔ اسی پرواز سے جانے کے لئے ایک شیخ صاحب تشریف لائے جو اپنے ساتھ دو نو جوان لڑکیوں کو لے جارہے تھے۔ شیخ کی داڑھی سفید ہوچلی تھی ۔ لڑکیاں صاف نظر آتا تھا کہ مسلمان تھیں۔ جو بات مجھے حیران کر گئی وہ یہ کہ دونوں لڑکیاں بہت خوش نظر آرہی تھیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان کے گھر والے جو انہیں رخصت کرنے آئے تھے اور جو یقیناً لڑکیوں کے والدین تھے ان ہی کی طرح مسرور دکھائی دیئے۔ یہ تھی جدید زمانے کی بُردہ فروشی۔ بعد میں مجھے بتایا گیا کہ دولت مند عرب اکثر جوان لڑکیوں اور لڑکوں کو لے جاتے ہیں جو پھر عرب ملکوں سے اپنے گھر والوں کو پیسہ بھیجتے ہیں۔ میں نے تاریخ میں پڑھا ہے ، جب انگریزو ں نے سنہ 1843 ء میں اپنی ساری ہی نوآبادیوں میں غلاموں کی خرید وفروخت کے خلاف قانون بنایا اور کچھ عرصے بعد اس قانون کو تعزیراتِ ہند کا حصہ بنا کر اس کاروبار کو جرم قرار دیا تو کچھ حلقوں سے یہ آواز اٹھی کہ اس طرح ہمیں اپنی شریعت پر عمل درآمد میں دشواری ہو گی کیونکہ جہاں کہیں ہمیں غلام آزاد کرنے کا حکم ہے وہاں آزاد کرنے کے لئے ہم غلام کہاں سے لائیں گے۔ بات تو معقول تھی مگر انگریزوں کی سمجھ میں نہ آنی تھی نہ آئی۔
یادداشت بھی کبھی کبھی ایک انبار جیسی لگتی ہے، اس میں سے عجیب و غریب باتیں نکل آتی ہیں۔ میرے ہم عمر قارئین کو شاید یاد ہو۔سنہ پچاس کے شروع برسوں کی بات ہے ، کراچی میں ریاست جونا گڑھ کی بڑی بیگم منور جہاں بیگم پر ایک مقدمہ چلا تھا جس کی چٹ پٹی خبریں ہر روز چھپتی رہیں اور سارا ملک انہیں بڑے انہماک سے پڑھتا رہا۔ اب تفصیل میں جانا اچھا نہیں لگتا لیکن تاریخ کی طرف سے آنکھیں موندنا بھی اچھا نہیں۔ ہو ا یہ کہ بیگم کو محسوس ہو ا کہ ان کا کچھ زیور لاپتہ ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی دہقان کی تیرہ سال کی دہشت زدہ بیٹی بانو کی حرکت ہے۔ بیگم تو پھٹ پڑیں اور پہلے بانو کو لاتیں ماریں پھر ایک بید منگائی اور لڑکی کی چمڑی ادھیڑی۔ بیگم کی ایک ملازمہ کے اس بیان کی ذرا ذرا سی تفصیل اخباروں نے چھاپی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اس کے بعد لڑکی کے بدن میں پسی ہوئی مرچیں داخل کی گئیں وہ بھی اس طرح کے بانو تین دن بعد مر گئی۔ کچھ روز بعد بیگم گرفتار کرلی گئیں۔ان کے اور پولیس کے مکالمے بھی شائع ہوئے۔ پھر وہ کس شان سے جیل میں رہیں، اس کی تفصیل بھی لوگوں نے مزے لے لے کر پڑھی۔ پھر اورغضب ہوا۔ عدالت میں جیوری بیٹھی جس نے پورے دس روز تک شہادتیں سنیں۔مجھے یاد ہے۔ اخباروں کے کالم کے کالم سیاہ ہوتے تھے ان گواہیوں سے۔ آخر جیوری نے انہیں صرف شدید اذیّت دینے کی مجرم قرار دیا۔ اس پر ان کے وکیل صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہر مجسٹی پہلے ہی ذہنی اذیت بھگت چکی ہیں ، براہ کرم عدالت اس بات کو پیشِ نظر رکھے۔جج نے اتفاق کیا۔ بیگم پر چھ ہزار روپے جرمانہ کیا اور عدالت کے اٹھنے تک قید کی سزا دیتے ہی عدالت اٹھ گئی۔ سنا ہے کہ بیگم نے اﷲ اکبر کا نعرہ لگایا اور اپنی نیلے رنگ کی مرکری کار میں بیٹھ کر یہ جا اور وہ جا۔ پیچھے رہ جانے والے شہریوںنے ان کی شان میں جو کچھ کہا ، اخباروں نے اِتنی رعایت کی کہ اس کی تفصیل نہیں چھاپی۔البتہ ٹائم میگزین نے اپنی 2 مارچ سنہ 1953 کی اشاعت میں’بے رحم بیگم‘ کے عنوان سے لکھ ڈالا۔انسانی روئیے کبھی کبھی بہت حیران کرتے ہیں۔ اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم فطرتاً ظالم اورسفّاک ہیں۔ وہ درد مندی جس کا قصے کہانیوں میں بہت ذکر ہوتا ہے کبھی کاغذ کے اوراق سے نکل کر ہماری حقیقی زندگیوںمیں نہیں آتی۔ اب حالت یہ ہے کہ سڑک پر کوئی قتل ہو رہا ہو یا سمندر میں کوئی ڈوب رہا ہو،لوگ ایک طرف کھڑے اس کی تصویریں اتار رہے ہوتے ہیں۔ کوئی گر پڑے تو راہ گیر ذرا فاصلے سے گزر جاتے ہیں، کوئی مدد کے لئے پکار رہا ہو تو لوگ یوں ظاہر کرتے ہیں جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔ انسان ایک لمحے میں سپاٹ دیوار بن جاتا ہے، دیوار بھی وہ جس کے کان نہیں ہوتے۔ بے رحمی کے ایسے ایسے منظر اتنی کثرت سے دیکھنے میں آتے ہیں کہ دل انہیں روز کا معمول سمجھ بیٹھتا ہے۔ اندر سے کوئی کہتا ہے کہ سب چلتا ہے۔ کیا واقعی سب چلتا ہے یا یہ سب کچھ رک جانے کی علامتیں ہیں اور وہ بھی شدید جھٹکے کے ساتھ۔
تازہ ترین