• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات 2024: سیاسی عدم استحکام بمقابلہ تجرباتی تدریجیت

دور جدید کی قومی ریاست میں ریاستی اسٹیبلشمنٹ (سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ) نظام کے استحکام کی حفاظت کرتی ہے۔ ریاست کے آئینی ڈھانچہ کے مفادات اس طریقے سے وضع کیے جاتے ہیں تا کہ یہ ادارے استحکام برقرار رکھ سکیں ۔ بدقسمتی سے ہماری اسٹیبلشمنٹ ماضی میں اپنے فیصلوں کے ذریعے نظام کے عدم استحکام کا باعث بنتی رہی ہے۔ اس کی گزشتہ عشرے میں مثال تحریک انصاف رہی ہے جسے فوجی و عدالتی اسٹیبلشمنٹ نے مدد اور سہولت کاری کے ذریعے 2018ء میں اقتدار تک پہنچایا۔ انہوں نے عمران خان کی صورت میں ایک طلسماتی لیڈر پیدا کرنے کی کوشش کی جس کا ماضی میں گورننس کا کوئی تجربہ نہ تھا تو دوسری جانب اس کا واحد ایجنڈا نفرت پر مبنی سیاست کو فروغ دیکر نظام میں ہل چل اور عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔ فوجی و عدالتی اسٹیبلشمنٹ کو اس غلطی کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی۔ عمران خان نظام میں عدم استحکام اور بگاڑ پیدا کرنے کیلئے فعال رہے۔ انہوں نے پاکستان کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا جس میں ملک کے خارجی تعلقات کو بھی انہوں نے اپنے انانیت اور ضد کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس دوران عام پاکستانیوں کی زندگی اجیرن ہوگئی کیونکہ انکے بنیادی مسائل جیسے کہ مفاد عامہ اور روزگار سیاسی اور میڈیا کی بحثوں میں ثانوی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ اس صورتحال کو بدلنا ہوگا کیونکہ پاکستان میں بسنے والے لوگ اس کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز ہیں اور سیاست کی افسانوی کہانیوں کی بجائے انکی زندگیوں میں بہتری اور خوشحالی کو سیاست اور میڈیا کی بحثوں میں مرکزی موضوع ہونا چاہئے۔ 2047ء میں پاکستان اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ آزادی کا 100واں برس منائے گا۔ اگر ہم یونہی عدم استحکام کے کی راہوں پر گامزن رہے تو پاکستان کم آمدنی والا ملک ہی بن پائے گا۔ ہمارے دو پڑوسی ممالک چین اور ہندوستان 2047ء میں دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہو چکے ہوں گے۔ ہمیں بھی اس وقت تک انکے ہم پلہ ہونے کیلئے عزم و تہیہ کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں اگلے چوبیس سال ہمارے لیے بے حد اہم ہیں۔ آٹھ فروری کے نتائج ہماری صد سالہ آزادی کی جانب سفر کی بنیاد رکھیں گے۔ کیا عوامی فیصلہ ملک کو اندرونی خلفشار اور انتشار کی راہ پر ڈالے گا یا اس سے امن، استحکام، اصلاحات اور پالیسیوں میں تسلسل کی ایک نئی صبح طلوع ہوگی اگر ہم چین کی ترقی پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ گوانزی ( Guanzi ) کے اصولوں پر مبنی ہے جس میں استحکام کو ہر چیز پر فوقیت حاصل ہے۔ چین کی سماجی و معاشی ترقی میں قدیم چینی متن گوانزی کا کلیدی کردار رہا ہے جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ نظام کو مستحکم کیے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں شاک تھراپی یا نظام میں بگاڑ کی بجائے گوانزی تجرباتی تدریجیت کی ترویج کرتا ہے یعنی نظام میں بتدریج اصلاحات کو متعارف کرانا اسکی منشا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن واحد سیاسی جماعت ہے جو جو گوانزی کے تجرباتی تدریجی اصولوں پر مبنی سماجی و اقتصادی ایجنڈا کی حامل ہے۔ پاکستان کے معاملے میں سول ملٹری تناؤ نظام میں عدم استحکام پیدا کرتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن گوانزی فلسفے کی روشنی میں اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے آگے بڑھنے کا راستہ پیش کرتی ہے کہ ہم اپنے مقاصد کے حصول کیلئے نظام کے استحکام پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ اسکی بجائے ہم بتدریج اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، یعنی کوئی ادارہ، سیاسی جماعت یا کوئی فرد پاکستان کو موثر اور تنہا نہیں چلا سکتا۔ اسکی بجائے ہمیں ایک باہمی تعاون اور اشتراک کی ضرورت ہے۔ اس وقت یہ روشن حقیقت کی طرح ظاہر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایک مضبوط اسٹیک ہولڈر ہے اور تاریخ نے مسلسل ثابت کیا ہے کہ کوئی ایک ادارہ بشمول اسٹیبلشمنٹ مطلق طاقت کا استعمال نہیں کر سکتا ہے اور اس کی وجہ پاکستان کی متحرک اور فعال سیاسی اور سول سوسائٹی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ ہم پاکستان کی سلامتی کے تقاضوں کو بھی سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے نمایاں کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ہماری تاریخ کے بیشتر حصے میں سیاست دان اسٹیبلشمنٹ سے خائف رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں سے اور عدلیہ ان دونوں سے۔ تاہم اب یہ بدل رہا ہے کیونکہ فوج نے سیاست سے دوری کا اعلان کیا ہے اور عدلیہ نے پارلیمان کے کردار کو تسلیم کیا ہے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ریاست کے تمام ستون ایک دوسرے سے ڈرنے کی بجائے ایک نئی شروعات کریں جو باہمی احترام اور ہم آہنگی پر مبنی ہو۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے دور میں 2013 ءسے 2018ء تک ہم نے اسٹیبلشمنٹ کو سلامتی اور قومی ایشوز پر غیر متزلزل مدد فراہم کی جس کے ذریعے ملک میں دہشت گردی کا قلع قمع کیا۔

2018 ء کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر شدید تحفظات کے باوجود ہم نے اسے اہم سلامتی ایشوز پر حمایت فراہم کی۔ ہم بھی انتشار اور عدم استحکام کا راستہ اپنا سکتے تھے تاہم ہم نے اپنے سیاسی مفادات کو سماجی و معاشی ترقی اور نظام میں سیاسی استحکام کیلئے قربان کیا۔ پاکستان 2047 تک دنیا کی پندرہ بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے جو ایک باہمی تعاون کی گورننس کے ذریعے ممکن ہے۔ ہم نظام کے ہر اسٹیک ہولڈر کیساتھ ملکر کام کرینگے اور گوانزی تصور کے نظام میں زیادہ سے زیادہ آئینی توازن برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔ اسی طرح ہم باہمی اشتراک پر مبنی گورننس کے ذریعے چھوٹے صوبوں کے تحفظات کے ازالے اور لسانی اقلیتوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے کام کریں گے۔ ہم پاکستان میں کثیر الجہتی کلچر کو فروغ دیں گے جہاں ہم جدا گانہ شناخت اور اختلاف رائے کے ساتھ ایک قوم بن کر رہ سکیں۔ مختصراً، آنے والے انتخابات میں دو متضاد تصورات ایک دوسرے کے خلاف پاکستان کے مستقبل کیلئے برسر پیکار ہوں گے۔ ایک تصور انتشار، عدم استحکام کا ہے جو عمران خان اور ان کے پیروکاروں کا ہے۔ متبادل تصور ایک ترقی پسندانہ شمولیتی اور مستحکم پاکستان کا ہے جس کی داعی پاکستان مسلم لیگ ن ہے۔ 2024ء میں ہم جو فیصلہ کرینگے اس کے دور رس نتائج مرتب ہونگے کہ ہم 2047ء میں کہاں کھڑے ہوں گے ۔

تازہ ترین