• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ 1967ءکے آخری دن تھے جب ڈاکٹر مبشر حسن کی کوٹھی میں پچیس سے تیس افراد جمع ہوئے تھے۔ ان افراد میں ڈاکٹر مبشر حسن کے لان میں ہونے والا یہ اجلاس متبادل کے طور پر ہورہا تھا۔ جلسہ موچی گیٹ پر ہونا تھا لیکن انتظامیہ نے موچی گیٹ پر جلسے کی اجازت نہ دی۔ پھر یہ اجلاس ڈاکٹر مبشر حسن کے لان میں ہوا جس میں چیدہ چیدہ افراد مدعو کئے گئے۔ جس سے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے خطاب کیا اور نئی پارٹی کا منشور پیش کیا۔اس کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی نے ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز بھی کردیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھایا۔این ایس ایف نے بھٹو کو مدعو کیا اور ڈائو میڈیکل کالج کی کینٹین میں طلبا کا اجلاس بلایا لیکن یہاں بھی ایوب سرکار سامنے آگئی اور ڈائو کے پرنسپل نے اجلاس کی صبح کالج کے گیٹ پر نوٹس لگایا کہ کالج کے گیٹ آج بند رہیں گے لیکن نوجوان بڑے بڑے پانے لے آئے اور انہوں نے گیٹ کھول دیئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے طلبا سے خطاب کیا اور وہیں پر بھٹو کے مغربی پاکستان کے دوروں کا اعلان بھی ہوا لیکن اسکی نوبت نہ آسکی ، بھٹو کو گرفتار کرلیا گیا لیکن جو کچھ ایوب خان چاہتا تھا نہ ہوسکا جیل میں ہونے کے باوجود اسکی مقبولیت بڑھتی چلی گئی۔اس دوران صدر ایوب کی طبیعت اس قدر خراب ہوگئی کہ انہوں نے صدارت چھوڑنے کا فیصلہ کیا لیکن انہوں نے اقتدار اس وقت کے آرمی چیف کے حوالے کیا جبکہ 1964ء کے آئین کے تحت انہیں اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حوالے کرنا تھا ۔ یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا اور اقتدار سنبھالتے ہی ون یونٹ ختم کردیا اور مغربی پاکستان کے چار صوبے بنادیئے۔ دوسرا اعلان یہ کیا کہ بنیادی جمہوریت کے تحت ہونے والے انتخابات کے بجائے ون مین ون ووٹ کے تحت ملک میں عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ اس اعلان پر مشرقی پاکستان میں خوشیاں منائی گئیں۔ کیونکہ آبادی میں وہ زیادہ تھے۔ اور انہیں یقین تھا کہ ان انتخابات کے نتیجے میں وزیراعظم ان کے صوبے کا ہوگا۔ ان جذبات کا فائدہ عوامی لیگ نے اٹھایا اور انہوں نے عوامی لیگ کے سربراہ کو ملک کا اگلا وزیراعظم کہنا شروع کردیا۔ جو ایوب دور میں اگر تلہ سازش کیس میں جیل میں تھے۔ اس سے عام بنگالی تو متاثر ہوا ہی لیکن شیخ مجیب بھی اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنے جلسوں میں خود کو آئندہ کے وزیراعظم کہنا شروع کردیا جس کے ساتھ انہوں نے عوامی لیگ کی جانب سے چھ نکات پیش کردیئے۔ ان نکات کی بنیاد نفرت پر تھی ۔ ایک چھوٹے واقعے سے شیخ مجیب کی مغربی پاکستان سے نفرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب شیخ مجیب مغربی پاکستان کے دورے پر آئے اور اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تو انہوں نے جہاز سے اترتے ہی ایئرپورٹ کی زمین پر ہاتھ پھیرا اور کہا ’’اس میں سے مجھے پٹ سن کی خوشبو آرہی ہے‘‘ پٹ سن جو اس وقت مشرقی پاکستان میں اگائی جاتی تھی اور پاکستان کی برآمدات میں اس کا بڑا حصہ ہوتا تھا۔

شیخ مجیب الرحمن کہنا چاہتا تھا کہ پٹ سن سے کمائی ہوئی دولت سے اسلام آباد بنایا گیا ہے۔ شیخ مجیب ایک شعلہ بیان مقرر تھا اور جلسوں میں اس کی ہر تقریر کا محور بنگالی زبوں حالی ہوتا۔ اس طرح عوامی لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ جبکہ یحییٰ خان مغربی پاکستان میں جماعت اسلامی کی سرپرستی فرمارہے تھے۔

پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کو جیل بھیجا جارہا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان کے واحد سیاسی سیاست کار تھے جنہیں معاملات کی سنجیدگی کا اندازہ ہوچکا تھا۔ وہ مغربی پاکستان میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرچکے تھے۔ وہ 23؍مارچ یعنی یوم پاکستان سے قبل شیخ مجیب سے مذاکرات کے لئے پیپلزپارٹی کا اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ ڈھاکہ پہنچ گئے ان کا قیام ڈھاکہ کے انٹرکانٹی نینٹل میں تھا۔1970ء میں انتخابات ہوئے اور مشرقی پاکستان کی دو کے علاوہ تمام نشستیں عوامی لیگ کے حصے میں آئیں۔ بھٹو 23؍مارچ کے بعد بھی ڈھاکہ میں رہے۔شیخ مجیب کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا۔ اس بار ان پر بغاوت کا کیس بنایا گیا۔ شیخ مجیب نے اپنی گرفتاری کسی قسم کی مزاحمت کے بغیر دے دی۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر کمال بھی گرفتار کئے گئے۔ ان دونوں کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کرکے اسلام آباد لایا گیا۔ اس دوران عوامی لیگ میں مجیب کے بعد سب سے بڑا لیڈر سمجھے جانے والا ملا تاج الدین گرفتاری سے بچ کر انڈیا فرار ہوگیا۔ انڈیا میںمکتی باہنی کی تشکیل کے ساتھ ہی اس نے اس وقت کی انڈیا کی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ملاقاتیں کی اور انہیں مکتی باہنی کی ٹریننگ دینے پر راضی کرنے کی کوشش کی بالآخر انہیں اس پر تیار کرلیا۔ جب مکتی باہنی کی ٹریننگ مکمل ہوگئی تو انڈیا نے پاکستان پر حملہ کردیا جس میں انڈین فوج ان کے پیچھے تھی مکتی باہنی اولین صفوں میں تھی۔پاکستان نے ان کی بھرپور مزاحمت کی۔ بھٹو نے برسراقتدار آتے ہی مشرقی پاکستان پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت محسوس کی اور جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا کمانڈر مقرر کیا اور ساتھ ہی سلامتی کونسل میں فوری جنگ بندی کی قرارداد پیش کرنی چاہی مگر اس سے پہلے پولینڈ نے جنگ بندی کی قرارداد پیش کردی یہ قرارداد انہیں چھ نکات کی تشریح تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس قرارداد کی بھرپور مخالفت اور ساتھ ہی اس ایشو پر پرجوش تقریر کی۔جب وہ سلامتی کونسل سے واک آئوٹ کرکے باہر آئے تو ملک کے دائیں بازو کے ترجمان اخبارات نے بھٹو پر الزام لگایا کہ بھٹو کو پولینڈ کی قرارداد کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے تھی لیکن بھٹو نے اس سازش کو سونگھ لیا تھا کہ پولینڈ روس کا اتحادی ہے اور بھارت نے روس کی مدد سے پیش کروائی۔ لیکن دائیں بازو کے ترجمان اپنے مضامین لکھتے رہے کہ بھٹو نےجنگ بندی قرارداد پھاڑ کر پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیا یہ منفی پروپیگنڈہ اس وقت تک جاری رہا جب تک سیکریٹری خارجہ عزیز احمد کی کتاب سامنے نہ آگئی۔عزیز احمد نے لکھا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پولینڈ کی قرارداد نہیں پھاڑی تھی بلکہ اپنے وہ نوٹس پھاڑے تھے جو رات بھر جاگ کر پولینڈ کی قرارداد کی مخالفت کیلئے تیار کئے گئے تھے۔

(مضمون نگار سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی ہیں)

تازہ ترین