دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کارکنوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کا غزہ کی پٹی کی جانب مارچ جاری ہے۔
اس مارچ کو عالمی مارچ برائے غزہ (Global March to Gaza) کا نام دیا گیا ہے جس کا مقصد اسرائیل کے تباہ کن اور غیر انسانی محاصرے کو ختم کروانا اور غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف عالمی ضمیر کو بیدار کرنا ہے۔
مارچ کے ایک اہم قافلے صمود کارواں (Sumud Convoy) نے تیونس سے روانہ ہو کر لیبیا میں پڑاؤ کیا، اس قافلے میں ایک ہزار سے زائد افراد شامل ہیں جس کا تعلق شمالی افریقہ کے مختلف ممالک سے ہے، قافلہ 9 بسوں پر مشتمل ہے جو مصر کے دارالحکومت قاہرہ کی جانب رواں دواں ہے، جہاں دیگر 50 ممالک سے تعلق رکھنے والے کارکنان بھی شامل ہوں گے۔
تیونس کے صحافیوں، وکلا، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور مزدور یونینوں سمیت کئی اہم اداروں نے مارچ میں شمولیت اختیار کی ہے، مارچ کی قیادت جوائنٹ ایکشن فار فلسطین نامی اتحاد کر رہا ہے۔
قافلے کی حتمی منزل مصر کے شمالی علاقے رفح کی سرحد ہے، جہاں سے وہ غزہ میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے، تاہم ابھی قافلے کو مشرقی لیبیا میں داخلے کی اجازت درکار ہے۔
قاہرہ پہنچنے کے بعد یہ قافلہ 3 روزہ مارچ کے ذریعے رفح بارڈر کی جانب بڑھے گا، لیکن اس راستے کو مصری حکام نے فوجی زون قرار دے رکھا ہے جہاں عام افراد کے داخلے پر پابندی ہے۔
تیونس کی ایک نوجوان صحافی غایہ بن مبارک، جو اس مارچ کا حصہ ہیں، انہوں نے عرب میڈیا کو بتایا کہ اگر ہمیں سمندر، فضا یا زمین پر روک دیا جائے تب بھی ہم رُکیں گے نہیں، ہم ہزاروں کی تعداد میں آئیں گے، صحرا عبور کریں گے تاکہ بھوک سے مرتے بچوں کو بچا سکیں۔
مارچ میں شامل کارکنوں کو توقع ہے کہ انہیں غزہ میں داخل ہونے کی اجازت شاید نہ ملے لیکن ان کا مؤقف ہے کہ یہ اقدام عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ضروری ہے، قافلے میں امریکا، برطانیہ، یورپ، شمالی افریقہ، ترکی اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک سے افراد شامل ہیں۔