ایران ہمارا برادر ہمسایہ ملک ہے۔ جس کے ساتھ ہمارے تہذیبی و ثقافتی تعلقات صدیوں پر محیط ہیں پاکستان قائم ہونے کے بعد بھی اچھی خاصی گرم جوشی قائم رہی ہے علمی،ادبی،تجارتی اور بالخصوص مذہبی حوالے سے بھی ایران کی خصوصی حیثیت ہے ہمارے ایک مذہبی فرقے کے لوگ بالخصوص زیارتوں کے لیے ایران جاتے رہتے ہیں اس طرح طلباکے اسکالرشپ پر بھی ہر دو اطراف کی یونیورسٹیز میں داخلے ہوتے ہیں ہمارے اس خطہ ہند پر تاریخی حوالے سے فارسی زبان کے اچھے خاصے اثرات رہے ہیں، 11 فروری 1979 ءکو جب امام خمینی کی قیادت میں ایرانی اسلامی انقلاب بپا ہوا تو پاکستان میں بڑھ چڑھ کر اس کی حمایت کی گئی یہاں سے سرکاری و غیر سرکاری سطح پر بہت سے وفود تہران گئے،انقلاب کے فوری بعد عراق ایران جنگ شروع ہو گئی تو پاکستان نے عرب ممالک کے ساتھ اپنے بہت قریبی تعلقات اور مجبوریوں کے باوجود کبھی ایران کی مخالفت نہیں کی بلکہ ضیاء الحق مرحوم کی قیادت میں جو امن مشن تشکیل پایا اس نے دونوں ممالک کے دورے کرتے ہوئے جنگ بندی کی بھرپور کاوشیں کی اگرچہ انہیں کامیابی نہ مل سکی مگر پاکستان نے ایسے نازک حالات میں ایران کی مخالفت نہیں کی بعد ازا ں بھی کئی حساس مواقع آئے بالخصوص یمن کے حوثی باغیوں نے جس طرح سعودیوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا اور سعودی قیادت بجاطور پر پاکستان سے یہ توقع رکھتی تھی کہ ہم غیر جانبداری کا لبادہ اوڑھنے کی بجائے ایران کی پشت پناہی میں حوثی باغیوں کے بلاجواز حملوں پر سعودی عرب کی معاونت میں کھڑے ہوں اس وقت پاکستان میں سیاسی طور پر نواز شریف کی حکومت تھی اور ہماری پارلیمنٹ نے باضابطہ غیر جانبداری کی قرارداد منظور کر لی۔ پاکستان پر انڈیا کو سعودی فوقیت میں ایک عنصر ہماری حد سے بڑھی ہوئی احتیاط یا غیر جانبداری تھی حالانکہ ہمیں جب بھی عالمی سطح پر مشکل پیش آئی، آئی ایم ایف سے امداد دلوانے میں یا اقتصادی معاونت میں سعودیوں نے ہمیشہ سفارتی حوالوں سے ہی نہیں مادی امداد کی صورت میں بھی ہماری دستگیری کی حال ہی میں یمن کے حوثی باغیوں نے جس طرح بحر احمر میں مسائل کھڑے کر رکھے ہیں محض ایرانیوں کی خوشنودی کے لیے ہم سعودیوں کے ساتھ غیر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں جبکہ انڈین وزیراعظم مودی سعودی کراؤن پرنس کو تعاون کی یقین دہانیاں کروا رہے ہیں۔ اس تصویر کا دوسرا منظر نامہ یہ ہے کہ یہ ایران ہی تھا جہاں سے ایک وقت میں اس نوع کی بلند آہنگ آوازیں اٹھ رہی تھیں کہ جب پاکستان کے ٹکڑے ہوئے تو ایران پاکستانی بلوچستان سے اپنا حصہ وصول کیے بغیر نہیں رہے گا جب امام خمینی کا اسلامی انقلاب تازہ دم تھا تو ایرانی میڈیا پاکستان کے خلاف منافرت پھیلانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتا تھا مرگ بر امریکہ کے نعروں میں پاکستان کو استعماری طاقتوں کا کارندہ و گماشتہ تک قرار دیا جاتا رہا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر مذہبی حوالوں سے یہاں اشتعال انگیزی کو ہوا دی جاتی رہی۔
اس تناظر یا پس منظر میں ہم آج کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں مانا کہ دوستانہ تعلقات کا بھرم رکھنے کے باوجود ہر دو اطراف شکایات بھی ہیں جس طرح ایرانیوں کو اس نو ع کی شکایات رہی ہیں یا اب بھی ہیں کہ پاکستان ایران کے دشمن مذہبی اور جہادی شدت پسندوں یا دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے بالخصوص سنی العقیدہ تنظیم جند اللہ کی توایک پوری تاریخ ہے اس کے لیڈر عبدالمالک کو ایرانیوں نے جس طرح جہاز سے اتار کر پکڑا اور پھانسی پر لٹکایا پاکستان نے تو اس نوجوان کی سفاکانہ موت پر رسمی احتجاج بھی نہ کیا ایران کے اندر انسانی حقوق کی جو شدید ترین خلاف ورزیاں روا رکھی جاتی ہیں جس طرح حجاب کے نام پر معصوم بچیوں کو مارا جاتا ہے فرقہ وارانہ مذہبی حوالوں سے بھی شکایات کے ایک سو ایک مواقع ہیں مگر پاکستان نے کبھی کوئی ایشو نہیں اٹھایا ایرانی بلوچستان وسیستان میں بی ایل اے اور بی ایل ایف یا دیگر نان اسٹیٹ ایکٹرز جو کارروائیاں کرتے ہیں یا پاکستانی بلوچستان میں بے چینی کے پیچھے ان کا جو بھی ہاتھ ہے یا انڈین کلبھوشن یادیو کی پوری کہانی میں ایرانی سرزمین بالخصوص ایرانی بلوچستان کا جس طرح استعمال ہوتا رہا ہے پاکستان نے تو اس پر کبھی سفارتی سطح پر بھی اپنے غم و غصے کا اظہار نہیں کیا۔
ٓآج اگر جنداللہ کے جہادی ونگ”جیش العدل“ کی سرگرمیوں کے حوالے سے ایرانی انقلابیوں کو شکایات تھیں تو انہیں یہ مسئلہ پاکستان کے ساتھ سفارتی سطح پر اٹھانا چاہیے تھا،ایک طرف ایرانی وزیر خارجہ ڈیووس فورم میں پاکستانی وزیراعظم سے ملاقاتیں کر رہے تھے جس میں اس نوع کا قطعی اظہار خیال تک نہیں کیا گیا دوسری طرف پاکستانی بلوچستان کے اندر میزائل داغ دیے گئے جن میں دو معصوم بچیاں جاں بحق اور چار بچے زخمی ہوئے ایک مسجد کو نقصان پہنچا اس پر پاکستان نے بھی ”مرگ برسرمچار“ کا جواب دینا ہی تھا ۔ آئی ایس پی آر کا موقف ہے کہ ہم نے ایرانی بلوچستان میں بی ایل اے کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا ہے جس میں کچھ دہشت گرد مارے گئے ہیں ایرانی حکومت کے بقول ہم نے تو پنجگور میں صرف ایرانی دہشت گردوں کو نشانہ بنایا تھا جبکہ پاکستان نے ہماری قومی سلامتی پر حملہ کر دیا ہے اس کا ہم جواب دیں گے اور پاکستانی بلوچستان کے ساتھ اپنا دفاعی میزائل سسٹم مضبوط بنائیں گے،انھوں نے یہاں فوجی مشقوں کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔اب حالت یہ ہے کہ دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات اختتام پذیر ہوگئے ہیں۔ ایرانی سفیر کو بھی کہہ دیا گیا کہ وہ اب پاکستان نہ آئے، دونوں ممالک کے طے شدہ دورے معطل کر دیے گئے ہیں پاکستان نے اپنی تمام فضائی ایجنسیوں کو ہدایت جاری کر دی ہے کہ وہ ایرانی فضاؤں کا استعمال نہ کریں پوری دنیا میں ایرانی جارحیت کی مذمت کی جا رہی ہے اور ایران کے منفی عالمی کردار پر بحث ہو رہی ہے۔