• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعر: شوکت عابد

صفحات: 255، قیمت: 500 روپے

ناشر: ہما پبلشنگ ہاؤس، کراچی۔

فون نمبر: 2539605 - 0300

1970ء کے آس پاس کے برسوں میں کراچی ادب وثقافت کا بڑا مرکز تھا۔ درس گاہوں میں شعرو ادب کا چرچا تھا، ریڈیو پاکستان میں’’ بزمِ طلبہ‘‘ کا پلیٹ فارم نوجوان شعراء اور ادباء کے لیے موجود تھا، جہاں وہ متعارف بھی ہوتے اور اُنہیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے سنوار کا موقع بھی ملتا۔ یہی وہ زمانہ تھا، جس میں شوکت عابد نے شاعری کا آغاز کیا اور وہ پہلی بار ایک نوعُمر اور تازہ کار شاعر کی حیثیت سے اہلِ ادب کے سامنے آئے۔ قمر جمیل نے جب نثری نظم کی تحریک چلائی، تو شوکت عابد اُس میں ایک فعال نظم نگار اور مترجّم کی حیثیت سے شامل تھے۔ 

اُنہوں نے جامعہ ملیہ(کراچی) سے گریجویشن اور جامعہ کراچی سے صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔مغربی شعر وادب کے گہرے مطالعے نے انہیں نوجوانی ہی میں معتبر بنا دیا تھا، اِس لیے کہ اُنہیں بہترین اساتذہ کی سرپرستی اور اپنے عہد کے سینئر اور مقتدر ادیبوں کی رہنمائی میسّرتھی۔ قمر جمیل نے اپنی کتاب’’ جدید ادب کی سرحدیں‘‘ کی جلد دوم میں انہیں’’ نئے امکانات کا شاعر‘‘ لکھا ہے۔ شوکت عابد نے ہسپانوی نظموں کے اُردو میں بہت متاثر کُن تراجم کیے، جو نثری نظم کے حلقوں میں بے انتہا مقبول ہوئے۔ احمد ندیم قاسمی، سلیم احمد، قمر جمیل، منیر نیازی، سراج منیر، اطہر نفیس، عبید اللہ علیم، محمّد سلیم الرحمان، ڈاکٹر سجّاد باقر رضوی، پروین شاکر اور نصیرترابی جیسے اہم قلم کاروں نے ان کی شاعری کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔

شوکت عابد، اردو کے ممتاز ومعتبر شاعر، ثروت حسین کے چھوٹے بھائی ہیں، لیکن ان کی شاعری پر ثروت حسین کے اسلوب کا کوئی اثر نہیں۔زیرِ نظر کتاب شوکت عابد کا اوّلین شعری مجموعہ ہے، جس میں چالیس نثری نظمیں اور بانوے غزلیں شامل ہیں۔ احمد جاوید، فراست رضوی، محمّد اظہار الحق اور ڈاکٹر طاہر مسعود کے تنقیدی مضامین بھی کتاب کی زینت ہیں۔ شعرو ادب کے زوال کے اس دَور میں یہ شعری مجموعہ ایک معیاری شعری سرمایہ ہے۔ شوکت عابد کے تخلیقی لہجے میں اُردو کلاسیک کے ساتھ، جدید مغربی شاعری کے اثرات بھی بہت نمایاں ہیں۔

بلاشبہ وہ ایک صاحبِ طرز شاعر ہیں اور’’دل‘‘ کا لفظ ان کی شاعری کا بنیادی استعارہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شوکت عابد نے تصوّف کے خانقاہی نظام کا حصّہ بننے کے بعد شاعری سے اپنا تعلق توڑ لیا ہے۔اے کاش! وہ دوبارہ کوچۂ سنحن میں واپس آئیں، جیسا کہ ممتاز صاحبِ اسلوب شاعر، ظفر اقبال نے اپنے فلیپ میں تحریر کیا ہے کہ’’ شوکت عابد نے اپنے لیے ایک جگہ مخصوص کرکے اپنی بستی الگ بسائی ہوئی ہے، جس میں وہ خُود بھی آتا جاتا رہتا ہے اور اس کے چاہنے والے بھی۔ یہ مٹر گشت جاری رہنی چاہیے، کیوں کہ ہم سب کو اس کی ضرورت بھی ہے، اِسی لیے وہ میری دعاؤں میں شامل رہتا ہے‘‘۔