ذکی طارق بارہ بنکوی
مَیں دے رہا تھا نئے سال کی مبارک باد
کہ میرے دل میں دَر آئی اِک لطیف سی یاد
نگاہِ حال سے ماضی کے کچھ اشارے ہوئے
کھڑے ہی رہ گئے، بانہوں کو ہم پسارے ہوئے
وہ یاد، جس نے کہ احساس کو جھنجھوڑ دیا
وہ یاد، جس نے کہ حالات ہی کو موڑ دیا
جو یاد آئی مُجھے، وہ تھی اُن دِنوں کی یاد
ہر ایک دل میں تھا، جب پیار کا جہاں آباد
وہ یاد، جس میں بسی تھی محبتوں کی مہک
وہ یاد، جس کے دریچوں میں تھی وفا کی دھنک
وہ یاد، جس کا تھا پَل پَل نشاط کا موسم
تھا جس کی گود میں ہر انبساط کا موسم
وہ عہد، پیکرِ انسانیت تھا جب انساں
وہ عہد، جب تھی ہراِک دل میں دولتِ ایماں
وہ عہد، جس میں اشارے کلام کرتے تھے
حجاب و شرم و حیا کے چراغ جلتے تھے
وہ عہد، جس کی ہر اِک رُت تھی گویا پیار کی رُت
وہ عہد، جس کی تھی آغوش میں بہار کی رُت
یہی تمنّا ہے، وہ عہد پھر سے آجائے
ہر اِک عمل پہ ہمارے خلوص چھا جائے
مگر وہ عہدِ گزشتہ تو صرف خواب ہی ہے
بنے یہ خواب حقیقت، فقط سراب ہی ہے
’’یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر ‘‘
یہ خوف کھائے ہوئے پَل، یہ سہمی سہمی پہر
یہاں پہ ہوگیا نایاب بھائی چارہ اب
نہ ہوگا پیار کا شاید یہاں گزارہ اب
الٰہی خیر! ہوئی برف بھی شرارہ اب
کہ آگ آگ ہے کشمیر کا نظّارہ اب
اندھیرے، امن کا سورج نگل رہے ہیں آج
الاؤ ظلمتِ باطل کے جل رہے ہیں آج
ہیں آنکھیں اشکوں سے بھیگی، تو چہرہ چہرہ اداس
شکستہ پا ہوئی جاتی ہے زندگی کی اساس
سکوت، تیرہ شبی، بے بسی و مجبوری
کراہیں، چیخیں، تڑپ، درد اور لاچاری
ہمارے عہد کی یہ سب علامتیں ہیں ’’ذکی‘‘
جو نسلیں آئیں گی، ان کی امانتیں ہیں ’’ذکی‘‘
تمہارے دل میں جو امن و اماں کی خواہش ہے
مسرّتوں کے گلِ جاوداں کی خواہش ہے
دُعا کرو کہ گزشتہ بہار چھا جائے
دُعا کرو کہ وہی عہد پھر پلٹ آئے