• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکیم حارث نسیم سوہدروی

موسمِ سرما میں سردی کے اثرات سے بچائو کے لیے خُشک میوہ جات بڑی رغبت سے کھائے جاتے ہیں، جن میں پستہ سرِفہرست ہے۔ اس کا استعمال ہمارے مدافعتی نظام کے علاوہ دل، دماغ، جگر اور معدے کو بھی تقویّت بخشتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ خُشک میوہ کولیسٹرول کی سطح کم کرتا اور شریانوں کو کھولتا ہے۔ 

تاہم، پستہ کھاتے وقت اعتدال سے کام لینا چاہیے اور ہائی بلڈپریشر کے مریضوں کو نمک لگے پستے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یاد رہے، مغربی ایشیا، شام اور افغانستان کو پستے کا آبائی علاقہ قرار دیا جاتا ہے اور قدیم فارس میں اسے نہ صرف ایک بیش قیمت میوہ بلکہ خوش حالی کی علامت بھی تصوّر کیا جاتا تھا۔

پستے میں کیلوریز، لحمیات، چکنائی، فائبر، کاربوہائیڈریٹس، میگنیشیم، پوٹاشیم، وٹامن بی اور تھیا مین سمیت دیگر اجزا پائے جاتے ہیں اور اس کا شمار اُن گِری دار میوہ جات میں ہوتا ہے، جن میں امینو ایسڈز، معدنیات اور حیاتین کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں، پوٹاشیم، فاسفورس اور میگنیشیم کی بھی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ پستہ اینٹی آکسیڈینٹس خصوصیات کا حامل ایک قوّت بخش میوہ ہے۔ یہ انتہائی مفید چربیلے تیزابوں (فیٹی ایسڈز) سے بھرپور ہوتا ہے، جو جلد کو صحت مند، نرم و ملائم اور چمک دار رکھتے ہیں۔ 

اس کا باقاعدگی سے استعمال سورج کی شعائوں کے جلد پر مضر اثرات کو روکتا اور سرطان سے محفوظ رکھتا ہے، جب کہ اس میں موجود بائیوٹن بالوں کو گرنے سے روکنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ 2017ء میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، فائبر کی موجودگی کے سبب پستہ آنتوں کے سرطان سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں، ایک تجربے کے دوران ماہرین نے جب مختلف افراد کو شکر بڑھانے والی غذائوں کے ساتھ پستے دیے، تو اس سے اُن کے خُون میں شکر کی مقدار میں اضافہ نہیں ہوا۔ 

یوں یہ تصوّر کیا جاتا ہے کہ پستہ خُون میں شکر کی مقدار متوازن رکھتا ہے۔ پھر اس کے استعمال سے وزن میں بھی اضافہ نہیں ہوتا، کیوں کہ اس میں بہت کم کیلوریز پائی جاتی ہیں اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 50پستوں میں محض 159کیلوریز موجود ہوتی ہیں۔ پستے میں موجود لیوٹین اور زی ایلنتھسن نامی اینٹی آکسیڈینٹس موتیا سمیت بڑھاپے کے دیگر امراض سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پستہ ہمارے جسم میں لحمیات یا پروٹین کی کمی پوری کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

ایک پستے میں عموماً 21فی صد پروٹین پایا جاتا ہے، لہٰذا گوشت خریدنے کی استعداد نہ رکھنے والے افراد اس کے استعمال سے جسم میں پروٹین کی کمی دُور کر سکتے ہیں۔ پستے میں موجود فائبر کی بڑی مقدار معدے اور آنتوں کے افعال کو دُرست رکھتی اور قبض کو دُور کرتی ہے۔ نیز، یہ معدے کے لیے مفید بیکٹیریا کی تعداد میں بھی اضافہ کرتا ہے، جس کے صحت پر مثبت افراد مرتّب ہوتے ہیں۔ 2012ء میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پستے کا استعمال موٹاپا کم کرتا ہے ، کیوں کہ اس میں فائبرز کی موجودگی کی وجہ سے دیر تک شکم سیری کا احساس رہتا ہے۔

آج اس قدیم میوے کے درخت ایران، یونان، اسپین، اٹلی، امریکا، تُرکی، آسٹریلیا اور مغربی افریقا سمیت دُنیا کے دیگر ممالک میں اُگائے جا رہے ہیں، جب کہ دُنیا بھر میں پستے کی رسد میں تُرکی کا نصف حصّہ ہے۔ موسمِ سرما میں سردی کی شدّت کا مقابلہ کرنے اور ٹھنڈ سے لاحق ہونے والے عوارض سے محفوظ رہنے کے لیے قدرت کے عطا کردہ دیگر خُشک میوہ جات کی طرح پستے کا بھی استعمال کریں اور ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کریں۔