تحریر: نرجس ملک
ماڈل: ایم عائشہ خان
عکّاسی: عرفان نجمی
پہناوے: منزّہ امجد
آرایش: دیوا بیوٹی سیلون
لے آؤٹ: نوید رشید
اٹھارویں صدی کے معروف امریکی لکھاری، سماجی رہنما، تھامس وینٹورتھ ہیگینسن نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ہم ایمان اور خُوب صُورتی کےکتنے اہم سبق کھودیتے، اگر ہماری زندگیوں میں موسمِ سرما نہیں ہوتا۔‘‘ بات تو درست ہے، لیکن اِک موسمِ سرما کے نہ ہونے ہی پہ کیا موقوف، سال کے چاروں موسم، یہ آتی جاتی، کئی کئی رنگ بدلتی رُتیں، برکھا، ساون، بسنت، بہار، پت جَھڑ، خزاں، حتیٰ کہ موسمِ گرما بھی نہ ہوتا، تو ہم اپنی زندگیوں میں کیسے کیسے رُوپ رنگ، حُسن و دل کشی اور اِن رُتوں سے وابستہ کن کن باتوں، حکایتوں، اسباق و دروس سے محروم رہ جاتے۔
جیسا کہ موسمِ سرما کو فطرت کی نیند، خزاں کو حُزن و ملال، بہار کو قدرت کی مُسکراہٹ اور موسم گرما کو جوش و جلال سے تشبیہہ دی جاتی ہے، تو سوچیں، اگر پورے سال کے اُفق پر کسی ایک ہی رُت کا قبضہ، گھیرا، بسیرا رہتا، تودنیاکےرنگ ڈھنگ، طور اطوار میں بھی کیسی یک سانیت سی دَر آتی۔ اور ایسی یک سانیت دنیا کے کئی خِطّوں میں ملتی بھی ہے۔ جیسا کہ کہیں سال بَھر موسم گرم رہتا ہے، تو کہیں سرد۔ یہ تو ہم پر قدرت اتنی مہربان ہے کہ ہم ہر سال پورے طور پر چاروں موسموں سے خُوب محظوظ اور لُطف اندوز ہوتے ہیں۔ سردی کا دورانیہ کچھ کم ضرور ہے، لیکن تاحال اِس کے آنے اور جانے کا باقاعدہ احساس ہوتا ہے۔
آج ماہِ جنوری کا آخری اتوار ہے، لیکن تاحال مُلک بھر میں شدید، جب کہ کراچی میں ہلکی، میٹھی میٹھی سی سردی محسوس ہو رہی ہے۔ معروف فرینچ لکھاری، فلاسفر، البرٹ کاموس کا قول ہے کہ ’’موسمِ سرما کے عین وسط میں آخر کار مَیں نے دریافت کیا کہ میرے اندر ایک ناقابلِ تسخیرموسمِ گرما ہے۔‘‘ اور فرانس ہی کے رومانی لکھاری، وکٹر ہیوگو کا ایک مقولہ ہے کہ ’’ہنسی وہ سُورج ہے، جو انسانی چہرے سے سردی بھگا دیتا ہے۔‘‘ مطلب، ہر دوسرے مفکّر، شاعر، لکھاری کے بقول سردی کے ساتھ اداسی و فسردگی گویا مشروط ہے۔ لیکن، ہمارا ماننا ہے کہ ہم چاہیں، تو ہر موسم میں اپنی پسند کے رنگ بَھر کے، اُسے اپنے لیے موافق و موزوں بنا سکتے ہیں۔
یوں بھی خوشی و مسرت فطرت سے لڑکر نہیں، ہم آہنگ ہوکے ہی کشید کی جاتی ہے۔ اب اگر آپ سخت گرمی میں لحاف، کمبل لپیٹ لیں، برکھا رُت میں ساری کھڑکیاں، دروازے بند کرکے بیٹھ جائیں۔ بسنت میں پُھولی سرسوں، بہار میں پھولوں کے کُنج، سُرخ و سبز، اودے، نیلے، پیلے رنگوں کے معطّرگُلوں کی طرف سے آنکھیں موند لیں۔ خزاں رسیدہ، کُرلاتے پتّوں کی آواز سےسمع خراشی ہوتی ہو اور سفید دوشالہ اوڑھے، پوتّر و پاک، ٹھنڈے ٹھار موسمِ سرما کے سب رنگ و آہنگ، سارے ذائقوں، لذّتوں سے دانستہ، ارادتاً لطف و حَظ نہ اُٹھانا چاہیں، تو یہ آپ کی نادانی و بدقسمتی ہے۔ قدرت نے تو مہربانی و کرم فرمائی، سخاوت و فیّاضی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔
چلیں، ذرا آج کی بزم پر نظر ڈال لیں، جو موسمِ سرما کے بہت ہی حسین و دل کش رُوپ سروپ ہی سے خُوب آراستہ و پیراستہ ہے۔ دیکھیے، بوٹ نیک گلے کی مورپنکھ پرنٹ سے مزیّن قدرے لانگ سی مخملیں رائونڈ شرٹ، سیاہ جینز کے ساتھ کیسا اسمارٹ لُک دے رہی ہے۔ اِسی ڈریس پر ریڈ ویلویٹ اوورکوٹ کا جلوہ ہے، تو سیاہ شرٹ، جینز کے ساتھ سیاہ رنگ ہی کے ڈبل بٹن کوٹ کی دل آویزی کے بھی کیا ہی کہنے۔ سیاہ و گندمی رنگ کی اسٹرائپڈ شرٹ کے ساتھ اِسکن رنگ لیدر جیکٹ خُوب لگّا کھا رہی ہے، تو سیاہ جینز کے ساتھ سیاہ رنگ کی اسکرین پرنٹڈ ہُڈی کا بھی جواب نہیں۔
بلیو جینز کے ساتھ سُرخ رنگ اسٹائلش اونی شرٹ کی جاذبیت کمال ہے، تو کارڈرائے اسٹائل لیدر فیبرک شرٹ کے ساتھ سیاہ رنگ مفلر اسکارف اور اسکن رنگ ہائکنگ بُوٹس کی ہم آہنگی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ وصی شاہ نے کہا تھا ناں کہ ؎ جو اُس کے سامنے میرا یہ حال آجائے… تو دُکھ سے اور بھی اُس پر جمال آجائے… مِرا خیال بھی گھنگرو پہن کے ناچے گا…اگر خیال کو تیرا خیال آجائے… ہر ایک شام، نئے خواب اُس پہ کاڑھیں گے… ہمارے ہاتھ اگر تیری شال آجائے… انہی دِنوں وہ مِرے ساتھ چائے پیتا تھا… کہیں سے کاش مِرا پچھلا سال آجائے… ہر ایک بار نئے ڈھنگ سے سجائیں تجھے… ہمارے ہاتھ جو پھولوں کی ڈال آجائے… یہ ڈوبتا ہوا سورج ٹھہر نہ جائے وصی… اگر وہ سامنے وقتِ زوال آجائے۔ ذرا اِن رنگ و انداز سے سج دیکھیں، کسی کے بھی اندر کا وصی شاہ جاگ سکتا ہے۔ وگرنہ نظیر اکبر آبادی کی نظم ’’جاڑے کی بہاریں‘‘ کا تو یہ شعر سو فی صد موزوں ہی ہے کہ ؎ مُنہ اُن کے چاند کے ٹکڑے ہوں، تَن ان کے روئی کے گالے ہوں… پوشاکیں نازک رنگوں کی، اور اوڑھے شال، دوشالے ہوں۔