• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

کھلکھلاتی دھوپ میں یہ جنوری اور چند پھول ...

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: فروا

ملبوسات: میران کلیکشن

آرائش: دیوا بیوٹی سیلون

عکاسی: عرفان نجمی

لے آؤٹ: نوید رشید

’’دسمبریں شاعری‘‘ کےتوچہارسُوخوب چرچے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ لوگ باگ ماہِ نومبر ہی میں کمر کس لیتے ہیں کہ بس اِدھر دسمبر کا آغاز ہوا، اُدھر ’’دسمبرانہ اشعار‘‘ کے تابڑ توڑ حملے شروع۔ حالاں کہ مستند شعرائے کرام نے تو کسی بھی ماہ کو نہیں بخشا۔ جنوری تا دسمبر ہر مہینے کی مناسبت سے بیسیوں ہی اشعار مِل جاتے ہیں اور چوں کہ ہمارے ’’رنگ و انداز‘‘ کی اس بزم کا موسم، ماحول، گیت سنگیت اور شعروشاعری کے ساتھ گویا چولی، دامن کا سا ساتھ ہے، تو عین جنوری سے ہم آہنگ اس بزم میں کچھ ’’جنوریں اشعار‘‘ کا بھی ذکر ہوجائے۔ 

بقول ناصر بشیر ؎ ’’جنوری میں، کبھی دسمبر میں… ذکر تیرا تمام سال رہا۔ تو سوریا بھانو کا شعر ہے ؎ برف گرتی ہے، میرے چہرے پر… اُس کی یادیں ہیں جنوری کی طرح۔ تنویر غازی کہتے ہیں۔ ؎ اے جنوری! تُو کسی سے یہ بات مت کہنا… کوئی مِلا دسمبر کی سرد راتوں میں۔ تو چندر شیکھر ورما کا شعر ہے ؎ ہمارے عشق کا آیا دسمبر… تمہارا رُوپ اب بھی جنوری ہے، جب کہ سعدیہ صفدر نے تو ایک شعر میں جیسے پورے دو ماہ سمیٹ دیے ہیں۔ ؎ تیری آنکھوں میں تپش ہے جُون کی… تیرا چہرہ جنوری سے کم نہیں۔ اور اعجاز عبید کا تو دُکھ ہی الگ ہے کہ ؎ گرم الائو میں سلگتی سردیاں… دھیمے دھیے ہیر گاتی شام تھی… عرش پر ہلتے ہوئے دو ہاتھ تھے… ساحلوں کی بھیگی بھیگی شام تھی… سولہویں زینے پر سورج تھا عبید… جنوری کی اک سلونی شام تھی۔ ویسے تو دسمبر، جنوری کے ماحول میں اُنیس، بیس ہی کا فرق ہوتا ہے، لیکن دسمبر کے ساتھ اُداسی و فسردگی، حُزن و ملال اور یاسیّت و اضمحلال کو جیسے مشروط کردیا گیا ہے، تو جنوری گویا صبحِ نو، اُمیدِ نو کا استعارہ ہے اور اِس کی بڑی وجہ یقیناً اک نئے سال کا آغاز، اِک نئی ابتدا، نیا سفر، نئی مسافتیں، نئے سرے سے شروعات، نیا عزم و حوصلہ، نئی اُمنگ و ترنگ، نئی منزلوں کی سمت اُٹھتے قدم اور اِک طرح سے ایک نیا جنم ہی ٹھہرا۔

سرماکی سُرمگیں شاموں کی کڑاکے کی سردی سے مقابلے کا ایک بڑا ہی موثر ہتھیار ’’مخملیں کوٹس‘‘ ہیں اور اگر ساتھ اِنرز، مفلرز اور جینز کی بھی ہم آہنگی و ہم آمیزی ہو، تو کیا ہی کہنے۔ وہ5 ایوارڈ یافتہ کتابوں کی بھارتی مصنّفہ انامیکا مشرا کا قول ہے ناں کہ ’’سردی، ایک موسم نہیں ہے۔ سردی تو ایک سلیبریشن (جشن) ہے۔‘‘ تو اِن دِنوں لگ بھگ پورے مُلک ہی میں اِس جشن کا سماں ہے۔ گرچہ کراچی نے ہنوز سائبریا،کوئٹہ کی ہوائوں ہی پر قناعت کر رکھی ہے، لیکن اِس جشن میں شرکت کا دل تو سب ہی کا کرتا ہے۔ 

سو، ہم نے تو اپنے تیئں یہی کوشش کی کہ ماہِ دسمبر اور جنوری کو سرما ہی کے رنگ و آہنگ سے خُوب آراستہ و پیراستہ رکھیں۔ یوں بھی عمومی طور پر اِس رُت میں سُستی و کاہلی جیسے پورے وجود کا احاطہ سا کیے رکھتی ہے۔ چہار اطراف اِک آلکسی ہی سی بکھری دکھائی دیتی ہے۔ اِدھر پنچھیوں، پکھیروئوں نے پنکھ سمیٹے، رین بسیروں، گھونسلوں کی سمت پرواز شروع کی، اُدھر حضرت انسان کا بھی دل رضائیوں، دلائیوں، کھیسوں، کمبلوں میں جا گُھسنے کو مچلنے لگا اور اکثر چُھٹی والے دن تو یہ لحاف تہہ کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔

پہلے دن چڑھے تک کسلمندی سے پڑے رہو اور پھر سرِشام ہی دوبارہ سر منہ لپیٹ لو۔ کہتے ہیں کہ ’’موسمِ سرما فطرت کی نیند ہے۔‘‘ اور واقعی، سرما رُت میں جیسے ہر شے سو سی جاتی ہے۔ معروف برطانوی شاعرہ، ایڈیتھ سیٹ ویل کی ایک نظم کا مفہوم ہے کہ ’’موسمِ سرما درحقیقت آرام کرنے، اچھے کھانے کھانے، عُمدہ پہناوے پہننے، گرم جوش، دوستانہ ہاتھوں کا لمس محسوس کرنے اور حدّت دیتی انگیٹھی کے گرد بیٹھ کر ڈھیروں باتیں کرنے کا موسم ہے۔ یعنی یہ اپنے گھر میں وقت گزارنے کا موسم ہے۔‘‘ اور یہ کیسی سو فی صد درست بات ہے۔

بہرکیف، پوری رُت تو کسی بند کمرے میں بیٹھ کےگزاری نہیں جاسکتی۔ اور کچھ نہیں، بوڑھے درختوں، گھنے سایا دار پیڑوں کی نیم برہنگی کا اضمحلال ُدور کرنے، اُن کی دل جوئی و دل داری کی خاطراُترتی شاموں میں باغوں کی سیر کو تو نکلا ہی جاتا ہے، تو ایسے میں اگر ہماری بزم کے رنگ و آہنگ سے استفادہ ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے۔ ذرا دیکھیں، جینز کے ساتھ مختلف رنگ دبیز، مخملیں کوٹس کی کیسی بہار سی چھائی ہے، تو رنگا رنگ اِنرز، مفلرز کا بھی جلوہ ہے۔ 

جو رنگ، انداز آپ کی آنکھوں کو بھا جائے، آپ کا ہوا۔ اور یوں یاسر رضا آصف کا کلام بھی آپ ہی آپ امر ہوجائے گا کہ ؎ ساتھ لے کر آئے ہیں، وہ روشنی اور چند پھول… منسلک باہم ہوئے ہیں، زندگی اور چند پھول… تذکرہ شامل رہا، اِن میں تمہارے حُسن کا… راس ہم کو آگئے ہیں شاعری اور چند پھول… اِک مسلسل روگ ہے، یہ منتظر آنکھوں کا روگ… یاد کے جنگل میں چمکے پھر ہنسی اور چند پھول… میری آنکھوں سے ٹپک کر اشک پتھر بن گئے… تیرے لہجے کی کھنک ہیں، چاندنی اور چند پھول… جی یہ چاہے، کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوں۔ کِھلکھلاتی دھوپ میں یہ جنوری اور چند پھول… کوئی بتلائے گا آصف، اِس کی ہے تعبیر کیا… خواب میں دیکھے ہیں اکثر اِک پَری اور چند پھول۔