• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کی مودی حکومت میں وزیر اقلیتی امور سمرتی ایرانی کا دورہ سعودی عرب، مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ اور دیگر مقامات مقدسہ کے دورے نے مجھ سمیت ہر مسلمان کو حیرت زدہ کردیا ہے جسکی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ اس طرح سمرتی ایرانی وہ پہلی غیر مسلم خاتون ہیں جنہوں نے اپنے وفد جس میں وزیر مملکت خارجی و پارلیمانی امور وی مرلی دھرن اور دیگر ارکان شامل تھے، کے ہمراہ مدینہ منورہ، مسجد نبویؐ اور مسجد قبا کا دورہ کیا اور وہاں آب زم زم پیا۔ بعد ازاں سمرتی ایرانی نے اپنے دورہ مدینہ کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی۔ واضح رہے کہ مذہب اسلام میں حرمین الشریفین میں کسی بھی غیر مسلم کا داخلہ ممنوع ہے اور سعودی قوانین کے مطابق غیر مسلم افراد مکہ اور مدینہ کی مقدس مساجد، مسجد الحرام اور مسجد نبویؐمیں داخل نہیں ہوسکتے۔

بھارتی ہندو وزیر سمرتی ایرانی کا وفد کے ہمراہ مسجد نبویؐ کے دورے کا افسوسناک واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب پاکستانی قوم الیکشن کی سرگرمیوں میں مشغول ہے اور اُن کی نظروں سے اتنا بڑا واقعہ اوجھل رہا جبکہ پاکستانی میڈیا نے بھی اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ واقعہ کے بعد آج ہر شخص یہ سوال کررہا ہے جب مذہب اسلام میں حرمین الشریفین میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے تو پھر ایک ہندو خاتون وزیر کو مسجد نبویؐ جہاں حضور اکرمﷺ کا روضہ مبارک ہے، کی زیارت کی اجازت کیوں دی گئی؟ واضح رہے کہ حج یا عمرہ کیلئے جب آپ مکہ اور مدینہ کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو داخلے سے قبل بورڈ پر عربی اور انگریزی زبان میں واضح طور پر ’’غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘ درج ہوتا ہے۔ گزشتہ سال 23 جولائی کو مکہ پولیس نے ایک سعودی شہری کو گرفتار کیا تھا جس نے غیر مسلموں کے مکہ میں داخلے پر پابندی کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک اسرائیلی یہودی رپورٹر کی مکہ میں داخل ہونے میں مدد کی تھی لیکن اداکاری سے سیاست میں قدم رکھنے والی ہندو خاتون وزیر کی قیادت میں بھارتی وفد مدینہ بھیج کر بھارت نے یہ تاثر دیا کہ دورے کا مقصد بھارت اور سعودی عرب کے مسلمانوں کے درمیان خیر سگالی کےجذبات کو فروغ دینا اور آئندہ سال حج کے موقع پر بھارتی مسلمانوں کیلئے انتظامات کا جائزہ لینا تھا۔ اپنے دورے میں بھارتی وزیر سمرتی ایرانی نے ایک MOU پر بھی دستخط کئے جس کے تحت بھارت کو آئندہ حج کیلئے ایک لاکھ 75 ہزار عازمین کا کوٹہ دیا گیا۔

بھارت میں 22 کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں جنہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور مودی حکومت نے تعصب کی بنیاد پر اُن پر زمین تنگ رکھی ہے جس کا ثبوت بھارتی ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں شہید کی جانے والی مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کی جگہ گزشتہ دنوں رام مندر کی تعمیر کا نریندر مودی کے ہاتھوں افتتاح ہے۔ مودی حکومت کا ایک طرف بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و بربریت اور دوسری طرف ایک ہندو وزیر کو سعودی عرب بھیج کر دنیا میں سیکولرازم کا پرچار کرنا سراسر منافقت اور دوغلا پن ہے۔ بھارت کی ہمیشہ سے یہ کوشش ہے کہ کسی طرح اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی رکنیت کی حاصل کی جائے تاکہ مسلمانوں کے اس فورم پر بھی قبضہ کیا جاسکے مگر پاکستان ہمیشہ سے اس بھارتی اقدام کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ 2019 میں یو اے ای میں منعقدہ او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بطور مہمان اعزازی مہمان مدعو کرنے پر پاکستان نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اسی طرح 1969 میں بھی اسلامی دنیا کے اہم ملک مراکو کے دارالحکومت رباط میں الاقصیٰ مسجد کے معاملے پر ہونے والے او آئی سی اجلاس میں شرکت کیلئے جب بھارت نے اپنے صدر فخر الدین علی احمد کو مراکو روانہ کیا اور اس کی اطلاع پاکستان کے صدر یحییٰ خان کو ملی جو کانفرنس میں شرکت کیلئے مراکو پہنچ چکے تھے تو اس پر انہوں نے ناراضی کا اظہار کیا اور او آئی سی حکام پر واضح کیا کہ اگر بھارتی صدر نے اجلاس میں شرکت کی تو وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے جس پر بھارتی صدر کو رستے سے واپس لوٹنا پڑاتھا۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’اے ایمان والو! مشرک لوگ سراپا ناپاک ہیں لہٰذا وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔‘‘ اس آیت کریمہ کی تعمیل میں نبی کریمﷺ نے حضرت علیؓ سے اعلان کروایا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا۔ (صحیح بخاری) مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ کا مقصد مکہ مکرمہ کو مشرکین سے خالی کروانا تھا کیونکہ فتح مکہ کے وقت مشرکین مکہ میں موجود تھے اور آیت کریمہ کے نزول کے بعد نبی کریمﷺ نے حدود مکہ کو مشرکین سے پاک کرنے کا حکم دیا جبکہ نبی کریمﷺ کے بعد حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور حکومت میں مشرکوں اور غیر مسلموں کی شرپسندی کے پیش نظر اسلامی دنیا کے دارالخلافہ مدینہ منورہ میں مشرکوں اور غیر مسلموں کے داخلے پر پابندی عائد کرکے پورے جزیرہ عرب سے یہود و نصاریٰ کو نکال دیا تھا۔1400 سال قبل جب غیر مسلموں کی شرپسندی کے پیش نظر حرمین الشریفین میں انکے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی تو اگر آج ہم اسلامی احکامات کو نظر انداز کرکے غیر مسلموں کیلئے اپنے مقدس ترین شہروں مکہ اور مدینہ کے دروازے کھول دیں گے تو کچھ شک نہیں کہ مستقبل میں غیر مسلم، حرمین الشریفین میں اپنی شرپسندی کا ایسا کھیل شروع کریں گے جس کا مقصد مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوانا، ایک دوسرے کو باہم دست و گریبان کرنا اور بدظن کرنا ہوگا۔ بھارتی وزیر اقلیتی امور سمرتی ایرانی کا حالیہ دورہ بھی اِسی سازش کا حصہ ہے جس سے مسلمانوں کو خبردار رہنا ہو گا۔

تازہ ترین