الیکشن ہونے میں بمشکل دو ہفتے رہ گئے ہیں، مگر سیاسی سرگرمیوں پر لگتا ہے سردی کے اثرات آ گئے ۔ ایسا ٹھنڈا ٹھار اور پھیکا الیکشن بہت کم دیکھا گیا۔ایک وجہ شاید یہ کہ ملک کی تین میں سے ایک بڑی سیاسی جماعت کا انتخابی نشان موجود نہیں اور اس کے امیدوار آزاد کھڑے ہیں۔ دوسری وجہ سیکورٹی تھریٹ ہے۔ خاص کر جے یوآئی کے لئے کے پی اور بلوچستان میں حالات آسان نہیں۔تیسرا اہم فیکٹر سردی ہے۔ کے پی میں دیر، چترال ، کوہستان، مانسہرہ وغیرہ جیسے علاقے تو سرد ہیں ہی ، مگر پنجاب کے بھی بیشتر علاقوں میں ٹھیک ٹھاک سردی ہے۔ چھ ، سات ڈگری ٹمپریچر لوگوں کو باہر نکلنے اور رات گئے سڑکوں پر رہنے میں مانع ہے۔ دھند بھی شدید ہے، موٹر وے بند، جی ٹی روڈ پر بھی سفرکرنا مشکل ۔یہ سب کچھ انتخابات کے لئے ناموزوں ہے، مگر ہم پہلے ہی بہت لیٹ ہوچکے ہیں۔ اس لئے پوری قوم بشمول عدلیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جیسے تیسے الیکشن ہوجانے چاہئیں۔ ہمارے ہاں قومی سروے ایک خاص تاثر تو بنا دیتے ہیں مگر پاکستانی سیاست مختلف حلقوں کے حساب سے مختلف رنگ رکھتی ہے۔مثال کے طور پر لاہور شہر میں قومی اسمبلی کے چودہ حلقے ہیں، ان میں سے کئی حلقے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اگر لاہور کا مجموعی سروے کیا جائے تو ضروری نہیں کہ اس کے نتائج سے تمام حلقوں کے نتائج کا پتہ چل سکے ۔ جیسے اگر میاں نواز شریف حلقہ این اے 130 کے بجائے این اے 128سے الیکشن لڑیں توان کے لئے بڑا اپ سیٹ سامنے آ سکتا ہے ۔ اسی طرح بلاول بھٹو اس وقت این اے 127سے لڑ رہے ہیں، یہاں پر وہ اپنا رنگ بھی جما رہے ہیں اور اچھا مقابلہ کر جائیں گے۔ یہی بلاول اگر لاہور کے حلقہ این اے 126یا 125سے لڑیں تو شاید ضمانت ضبط ہونے کی نوبت آجائے۔ لاہور شہر کے مختلف علاقوں اور حلقوں کی اپنی ڈائنامکس ہیں جنہیں اسی حساب سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت الیکشن کے حوالے سے جتنے بھی سروے، تجزیے ہو رہے ہیں، ان سب میں مسلم لیگ ن کو برتری حاصل ہے۔شاید اس لئے کہ اسے پنجاب میں اس انداز کی مسابقت کا سامنا نہیں ہے۔تحریک انصاف کو بہت کم وقت مل رہا ہے جبکہ پیپلزپارٹی اپنے چند حلقوں کے سوا باقی جگہوں پر ن لیگ کو ٹف ٹائم دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ نتائج کے بارے میں ہم پیش گوئی نہیں کرنا چاہ رہے۔ کچھ فیصلے اور کام ووٹر کو بھی کرنے دینا چاہئیں ۔البتہ الیکشن کے بعد کیا ہوسکتا ہے؟جیتنے والے کیا کریں گے ؟ نیا فائل سسٹم کیا کہتا ہے ؟ اس بارے میں طیور کی زبانی چند باتیں ہم تک پہنچی ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں کہ پرندوں کی باقاعدہ زبان نہیں ہوتی، وہ چہچہاتے ہیں اور ان کی چہچہاہٹ کو ہم نے ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے اس میں مارجن آف ایرر کی رعایت آپ بھی دیجئے گا۔ یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ اس بار شایدپاکستانی تاریخ میں سب سے زیادہ آزا د ارکان اسمبلی منتخب ہوں گے۔ کئی درجن تک تعداد پہنچ جائے گی۔ آئین انہیں تین دنوں کے اندر کسی سیاسی جماعت کا حصہ بننے کا موقع دیتا ہے۔ جو آزاد رکن اسمبلی کسی بھی جماعت کا رکن بن گیا، پھر وہ اس کے ڈسپلن کا پابند ہوگا اور اس پر فلورکراسنگ شقیں لاگو ہوں گی۔ یہ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق کسی پارلیمانی جماعت کے ارکا ن اپنی مرضی سے یعنی پارٹی ہیڈ کی ہدایت کے برخلاف کسی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے امیدوار کو ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ ان کا ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا اور ان کی رکنیت بھی ختم ہوجائے گی۔ پچھلے سال تک ن لیگ کے ماہرین اسے آئین کو ری رائٹ کرنے کا نام دیتے تھے، مگر شاید اب وہ اس پر مسرور ہوں گے۔ ویسے بھی جب تک سپریم کا زیادہ بڑا بنچ اس پچھلے فیصلے کو ختم نہیں کر دیتا،اسی کو ماننا پڑے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ آزاد ارکان اسمبلی جس جماعت میں بھی شامل ہوں گے، پھر وہاں سے نکلنا ان کے لئے آسان نہیں ہوگا۔طیور کی جو چہچہاہٹ ہم تک پہنچی ، اس کے مطابق ان آزاد ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد ن لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی کا حصہ بنائی جائے گی۔ ابھی تو نہیں لگ رہا، مگر الیکشن کے بعد آپ دیکھئے گا کہ پیپلزپارٹی کے دامن میں بھی چند موتی ضرور گریں گے۔ وہ خالی ہاتھ نہیں رہے گی۔ ممکن ہے کراچی میں ایک آدھ دانہ ایم کیو ایم کو مل جائے۔ اسی طرح کے پی میں جے یوآئی اور اے این پی کے بھاگ بھی جاگ سکتے ہیں۔ ویسے وہاں زیادہ امکان پرویز خٹک کی پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کی طرف رخ کرنے کا ہے۔ ایک اور بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے گا۔ اب آپ کہیں گے کہ وزیراعظم بنانا ہے تب ہی تو ریڈ کارپٹ دیا گیا۔ ٹھیک سمجھے آپ، مگر یہ پاکستانی سیاست ہے، یہاں پر اچانک پیروں سے قالین بھی کھینچ لیا جاتا ہے۔ میاں صاحب کی خواہش مبینہ طور پر ہر حال میں مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کی ہے۔ اس کے بعد وہ خود کو وزیراعظم کے مسند پر دیکھنا چاہیں گے۔ آخر میں صرف اتنا کہ اس الیکشن میں ایک ڈیزائن تودیکھا جا رہا ہے، اسے عوام بڑی تعداد میں باہر نکل کر بدل سکتے ہیں۔ اگر سسٹم بچانا ہے، جمہوری روایات مضبوط کرنی اور سیاست دانوں کے لئے اسپیس بڑھانی ہے تو پھر ووٹروں کو بڑا ٹرن آؤٹ دینا ہوگا۔ اس سے پارلیمنٹ،سیاست، فوج ، ملک سب کو فائدہ ہوگا۔ اگرایسا نہ ہوا، اسکرپٹ بروئے کا رآیا تو پھر سیاسی اسپیس کم ہوجائے گی، اگلے چند برسوں تک پھر یہی چلتا رہے گا۔