آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے متعلق سائفر کیس کی سماعت میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلا کے نہ آنے پر سرکار کی طرف سے وکلا صفائی مقرر کردیے گئے۔
راولپنڈی اڈیالہ جیل میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے متعلق سائفر کیس کی سماعت ہوئی۔
عدالت کے احکامات پر بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو سرکار کی طرف سے دیے گئے وکلا عدالت میں پیش ہوئے تاہم بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے وکلا صفائی پر اظہار عدم اعتماد کردیا۔
شاہ محمود قریشی نے سرکار کی طرف سے دیے گئے وکیل صفائی کی کیس فائل ہوا میں اچھال دی۔
عدالت میں بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ جن وکلا پر ہمیں اعتماد ہی نہیں وہ کیا ہماری نمائندگی کریں گے، جج صاحب یہ کیا مذاق چل رہا ہے ؟
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں 3 ماہ سے کہہ رہا ہوں کہ سماعت سے پہلے مجھے وکلا سے ملنے کی اجازت دی جائے، بارہا درخواست کے باوجود وکلا سے مشاورت نہیں کرنے دی جاتی، مشاورت نہیں کرنے دی جائے گی تو کیس کیسے چلے گا۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ جتنا آپ کو ریلیف دیا جا سکتا تھا میں نے دیا، وزرش کے لیے سائیکل کی فراہمی یا پھر وکلا سے ملاقات، آپ کی درخواست منظور کی، میرے ریکارڈ پر 75 درخواستیں ہیں جو ملاقاتوں سے متعلق ہیں۔
بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ آپ نے تو ملاقات کا آرڈر کیا لیکن ملاقات کرائی نہیں گئی۔
عدالت میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اِدھر بھی سرکار اُدھر بھی سرکار یہ مذاق ہو رہا ہے، ہمیں اتنا حق نہیں کہ اپنے وکلا کے ذریعے کیس لڑ سکیں۔
عدالت میں بانی پی ٹی آئی نے کیس کی کارروائی اردو میں ہونے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سرکار کی طرف سے تعینات کردہ وکیل صفائی جو انگریزی بول رہے ہیں وہ ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ شفاف ٹرائل کے تقاضوں سے متصادم ہے، پاکستان کی تاریخ میں ایسا ٹرائل نہیں ہوا جو اب ہو رہا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے عدالت میں کہا کہ آپ نے فیصلہ سنانا ہے تو ایسے ہی سنا دیں، انصاف کا گلا گھونٹا جا رہا ہے، اللّٰہ کا ڈر اور نہ ہی کسی کو آئین و قانون کا ڈر ہے۔
عدالت میں جج نے کہا کہ شاہ محمود قریشی صاحب اگر آپ خود جرح کرنا چاہتے ہیں تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں، 3 مرتبہ تاریخ دی مگر آپ کے وکلا نے آنے کی زحمت نہیں کی۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ سرکاری ڈرامہ نہیں چلے گا اس طرح سے ٹرائل کی کیا ساکھ رہ جائے گی۔
جج نے کہا کہ میرے لیے آسان تھا کہ میں ڈیفنس کا حق ختم کر دیتا، میں نے پھر بھی اسٹیٹ ڈیفنس کا حق دیا، اس کسٹڈی کی وجہ سے مجھے یہاں جیل آنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ بھی تو کسی ماں کے بچے ہیں جن کے کیس جوڈیشل کمپلیکس میں چھوڑ کر آیا ہوں، میں آرڈر کر کر کے تھک گیا ہوں مگر آپ کے وکیل نہیں آتے، سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا تھا اگر ٹرائل میں رکاوٹیں آتی ہیں تو عدالت ضمانت کینسل کر سکتی ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ضمانت کے فیصلے کا بھی مذاق اڑایا گیا، جیل سے باہر نکلتے ہی ایک اور کیس میں اٹھا لیا گیا۔
جج نے کہا کہ شاہ صاحب اس کیس کو لٹکانے کا کیا فائدہ ہے؟
شاہ محمود نے جواب دیا کہ جج صاحب جیل میں کوئی خوشی سے نہیں رہتا، میں اپنا وکیل پیش کرنا چاہتا ہوں سرکاری وکیلوں پر اعتبار نہیں، پراسیکیوشن کے نامزد کردہ وکیلوں سے ڈیفنس کروایا جا رہا ہے، اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ فیصلہ ہمارے خلاف ہو چکا۔
بانی تحریک انصاف نے سرکار کی طرف سے دیے گئے وکلا پر طنز کیا کہ مان نہ مان میں تیرا مہمان۔
بانی پی ٹی آئی نے جج سے استدعا کی کہ ان گھس بیٹھیوں کو تو باہر بھیجیں۔
عدالت میں پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے آرڈر کی روشنی میں ملزمان کی سائفر کیس میں ضمانت خارج کی جائے۔
جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ ضمانت کا معاملہ خود دیکھوں گا یہ میرا معاملہ ہے۔
پراسیکوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ فیئر ٹرائل وہ نہیں جو وکلا صفائی مانگ رہے ہیں، فیئر ٹرائل وہی ہے جو قانون میں دیا ہوا ہے۔
اس سے قبل سماعت کی ابتدا میں جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا تھا کہ کونسل ملزمان کی نمائندگی کرتے ہوئے گواہان پر جرح کریں گے۔