پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ بلاول میرے بچوں کی طرح ہے اس کی بات پر کوئی کمنٹ نہیں کروں گا، بلاول کہتے تھے دنیا کے لیے یہ ڈار صاحب ہیں میرے لیے تو انکل ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ کسی پارٹی کا نام لیے بغیر کہہ رہا ہوں ہم گھٹیا سیاست پر اتر چکے ہیں، جو وہ القاب نواز شریف کے بارے میں کہتے ہیں اس کے بعد یہ کچھ بھی نہیں، اگر ان کی حکومت ہوتی ہے تو ان کا اپنا وزیر خزانہ ہوگا، 2008 میں ان کے والد نے مجھے بطور وزارت خزانہ مانگا، ہو سکتا ہے ان کو ڈر ہو 2013 سے 17 کی طرح ہم ٹیک آف کر گئے تو ن لیگ 20 سے 30 سال حکومت کرے گی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ بلاول میرے بیٹے کی طرح ہے، کوئی کمنٹ نہیں کرنا چاہتا، انہوں نے نواز شریف سے مل کر ان کے تجربے، قیادت کی تعریفیں کی تھی، دونوں کا موازنہ کریں تو یہ بحث کےلیے سبجیکٹ نہیں ہے، یہ مناسب نہیں کہ ان کے لیول پر اتر کر ایک بچے سے بچے کی طرح کھیل کے میدان میں لڑائی شروع کروں۔
رہنما مسلم لیگ ن نے کہا کہ ہم نے 18 سے 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ختم کی تھی، کراچی کے امن کےلیے نواز شریف نے کوششیں کی تھیں، معیشت کو ٹھیک کرنا سب سے اولین ترجیح ہے۔ معیشت کا پہیہ چلے گا، روزگار بڑھے گا، معیشت کا پہیہ چلے گا تو روزگار ملے گا۔ جی ڈی پی بڑھے گی، غربت میں کمی آئے گی۔
اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ ہم نے کوشش کی ایسا کوئی ہدف نہ رکھیں جس پر عمل نہ کر سکیں، جب تک معیشت کا پہیہ نہیں چلے گا معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ عوام کو ماضی کی طرح ہم سے کام لینا ہے تو ہمیں سادہ اکثریت دے، اکثریت کے بعد مخلوط حکومت بننے کے فائدے زیادہ ہوں گے، نواز شریف نے 21 اکتوبر کو کہہ دیا تھا تمام جماعتیں ہمارے ساتھ مل کر ملک کو اس بھنور سے نکالیں۔
سابق وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اگر معیشت بہتر ہوگی تو اس کا کرنسی پر مثبت اثر پڑے گا۔ لائن لاسز، بجلی کی چوری، نان پیمنٹ آف بلز کا مسئلہ بھی ہے، ایسے علاقے بتا سکتا ہوں جہاں 70 فیصد بجلی کے بل ادا نہیں کیے جاتے، ایسے علاقے بھی ہیں جہاں بجلی کے بل ادا کیے جاتے ہیں، چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لیے ہمیں ڈسکوز کو پرائیویٹائز کرنا چاہیے۔ بجلی پروڈیوس کرنے والے انرجی سیکٹر اس کو ہول سیل پرائز پر ڈسکو کو دیں، ان کو لائن لاسز بھی دیں، یہ ان کی ذمہ داری ہونی چاہیے اسے ریکور کریں۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ ہمارے ایجنڈے پر ہے کہ ڈسکوز کو پرائیویٹائز کریں گے یا پروونشلائز کریں گے۔ تقریباً 11 مہینے تھے لیکن آئیڈیا کو پایہ تکمیل تک لے جانے کےلیے کافی نہیں تھے، کچھ صوبے ڈسکوز لینے کےلیے تیار بھی تھے۔