• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: لبنیٰ اکرم

ملبوسات: منوش برائیڈل

آرایش: ماہ روز بیوٹی پارلر

عکاسی: ایم۔ کاشف

کوارڈی نیشن: محمّد کامران

لے آؤٹ: نوید رشید

74 سالہ حسین ترین امریکی اداکارہ میری لوئیس (میرل) اسٹریپ سے کسی نے سوال کیا کہ ’’آپ پلاسٹک سرجری کیوں نہیں کرواتیں، جیسا کہ آپ کی عُمر کی سب ہی اداکارائوں نے کروا رکھی ہے۔‘‘ تو انہوں نے بہت ہی خُوب صُورت جواب دیا کہ ’’مَیں کسی کو اپنے ماتھے کی وہ شِکنیں مٹانے کی اجازت کیسے دے سکتی ہوں کہ جو دنیا کے حُسن و لطافت، خُوب صورتی و دل کشی پر میری حیرت و استعجاب کا نتیجہ ہیں۔ مَیں اپنے چہرے کے گڑھوں، نشانات، جُھرّیوں کو کیسے بَھرنے دوں کہ یہ سب تو میری زندگی کے سب غموں، خُوشیوں کی نشانیاں ہیں۔

مَیں کتنا ہنسی، کتنا روئی، کسی سے کتنا پیار، محبّت کی، کتنا ٹوٹی، روٹھی، خفا ہوئی، میرے سب احساسات و جذبات کی گواہ یہ جُھرّیاں، لکیریں ہی تو ہیں۔ حتیٰ کہ مَیں اپنی آنکھوں کے نیچے پڑے سیاہ حلقے بھی کیوں چُھپائوں کہ یہ تومیری سخت محنتوں، اپنے کام سے لگن اور طویل جگ راتوں کی مُہریں ہیں۔ مَیں تو اپنے عُمر بَھر کے تجربات کی اِن سب علامات، اپنے اصل خدوخال کو مَرتے دَم تک بدلنا، مِٹانا نہیں چاہوں گی کہ مجھے مصنوعی پن سے کہیں زیادہ اپنے اصل حُسن سے پیار ہے۔‘‘

میرل، ایک بہترین، تجربہ کار اداکارہ ہی نہیں، ہزاروں فلمی شائقین کی مَن پسند بھی ہیں اور فطری حُسن سے متعلق اُن کے یہ خیالات تو ہر ایک ہی کے لیے قابلِ تقلید ہیں، جن سے ہمارے یہاں کی اداکارائوں کو بھی مستفید ہونے کی اشد ضرورت ہے، خاص طور پر اُنہیں، جنہوں نے ناحق ہی الٹی سیدھی سرجریز کروا کے اپنے اچھے بھلے چہروں کا سوا ستیاناس کر لیا ہے۔

اب ہم نام کیا لیں، آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ اور صرف شوبز اسٹارز ہی نہیں، اب تو عام خواتین بلکہ حضرات میں بھی یہ مرض عام ہوتا جا رہا ہے۔ حالاں کہ فطری، قدرتی حُسن اپنے اصل کے ساتھ جتنا سچّا، خالص لگتا ہے، کسی بناوٹ، مصنوعیت کے ساتھ لگ ہی نہیں سکتا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ حُسن کے سنوار و نکھار کے لیے بہترین آرایش و زیبائش، سولہ سنگھار کا سہارا ضرور لیا جاسکتا ہے کہ یہ ہر عورت کا فطری، بنیادی حق ہے۔ اور آپ کو آپ کا یہی حق دلوانے کے لیے تو ہم ہر ہفتے ایک سے ایک رنگ و انداز سے مرصّع محافل سجائے چلے آتے ہیں۔

اب آج کی بزم ہی دیکھ لیجیے، بھیگی بھیگی سردی سےعین ہم آہنگ لینن، کاٹن کے رنگا رنگ تِھری پیس ملبوسات نے محفل کو کیسا شعلۂ جوّالا بنا رکھا ہے۔ ذرا دیکھیے تو، نیوی بلیو رنگ پہناوے پر طلائی رنگ کڑھت کیا بہاردِکھا رہی ہے۔ لانگ شرٹ کے ساتھ کیولاٹ ٹرائوزراورکاٹن پرنٹڈ دوپٹّےکاامتزاج تو آنکھوں کو بہت ہی بھلا محسوس ہو رہا ہے۔ پھر سفید بیس پر اسٹرائپڈ پرنٹ اور ایمبرائڈری سے مزیّن پہناوا بھی بہت اچھا تاثر دے رہا ہے۔ 

اِسی طرح سیاہ وسفید کے سدابہار کامبی نیشن میں اسٹرائپڈ پرنٹ سے آراستہ ایک اور پہناوا ہے، تو ڈارک پِیچ رنگ لباس کے فرنٹ پر خُوب صُورت، نفیس و منفرد سے تھریڈ ورک کا جلوہ بھی کمال ہے۔

سرما کے جوبن کا وقت تمام ہو، اب تو ٹاٹا، بائے بائے کرنے کا وقت آرہا ہے، تو اِس میٹھی میٹھی سردی کی مناسبت سے تیار کردہ ہمارے اِن رنگ و انداز میں سے آپ کچھ بھی پہن، اوڑھ سکتی ہیں۔ یوں بھی یہ سب کیژول سے پہناوے ہیں، جو خاص روزمرّہ استعمال ہی کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔

کوئی بھی خاتونِ خانہ سب کاموں سے فراغت کے بعد، نہا دھو کے اور اِن میں سے کوئی بھی پہناوا زیبِ تن کر کے، ہلکی پُھلکی کی آرایش کے ساتھ چھت یا بالکونی میں شام کی چائے کا اہتمام کرلے۔ صاحب خانہ، بہ اندازِ بیخود دہلوی بےاختیار ہی کہہ اٹھیں گے۔ ؎ حُسن، انداز، ادا، ناز، نگاہیں، شوخی… دِل مِرا چھین کے بن بیٹھے ہیں مختار تمام… اب بھی اپنا کوئی بیخود مجھے سمجھا کہ نہیں… چَھپ گئے اب تو میرے حال کے اخبار تمام۔