• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی ششدر رہ گئےجب انہوںنےسنا کہ ایران کی جانب سے اتنے بڑےپیمانے پر پاکستان کے اندر فوجی کارروائی کردی گئی ہے ۔پاکستان کو اس صورتحال کےبعد مزید محتاط ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ عام انتخابات کیلئے بہت ضروری ہے کہ پورے ملک بشمول بلوچستان میں انتخابی عمل شفاف ہو، کسی کو بلوچ جذبات سے کھیلنے کا موقع ميسر نہ ہو ۔ بر سبیل تذکرہ، اس وقت تربت سے بہت متنازع خبريں آ رہی ہیں کہ وہاں باہر سے ایک شخص کو لا کر جتوانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ وہاں ڈاکٹر مالک یعقوب بزنجو یا احسان شاہ میں سے جو جیتے اس کو جیتنے دیاجائے اور مداخلت نہ کی جائے ۔ یہ بات واضح ہے کہ ایران کی جانب سے بلوچستان کی طرف سے سرحدی خلاف ورزیاں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں مگر پاکستان نے ہمیشہ ضبط کی حکمت عملی اختیار کئے رکھی تاکہ پاکستان کے اپنے برادر ملک سے تعلقات میں تلخی کم از کم عوامی سطح پر محسوس نہ ہو اور اسکی حدت بڑا نقصان نہ کردے مگر ایران کے حالیہ انتہائی نا قابل برداشت اقدام کے بعد پاکستان کیلئے ایک راستے کے علاوہ باقی تمام راستے خود ایران نے ہی بند کردیئے اور ایرانی وزیر خارجہ کو انہی حالات میں پاکستان کا دورہ کرنا پڑا۔جس دورے سے توقع ہےکہ تلخی میں کمی ضرور ہوگی۔ صورت حال اس حد تک کیوں گئی ؟ اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے بعد ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا اور پاکستان ایران کے اس قدم کو نہیں بھولا یہاں تک کہ ایرانی انقلاب کو سب سے بڑا مسئلہ تسلیم کا ہی تھا اور پاکستان نے ایرانی انقلاب کو سب سے پہلےتسلیم کرکے دوستی کا حق ادا کیا۔ حالانکہ اس وقت ساری دنیا ایرانی انقلاب کو تسلیم کرنے میں سرد مہری دکھا رہی تھی۔ یاد رہے ، اس وقت پاکستان میں جنرل ضیاء کی حکومت تھی جنکے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس خطے میں امریکی مفادات کے تحت حکمت عملی تشکیل دے رہے تھے مگر انہوں نے اس مسئلہ پر امریکی دباؤ کو کسی قابل نہیں سمجھا تھا، وہ ایران کے حوالے سے اور مسائل پر امریکی دباؤ کا مقابلہ کرتے رہے تھے، ایرانیوں کو یہ سب یاد رکھنا چاہئے ۔ کچھ عرصہ قبل بھی ایک لڑی کی مانند ایسے اقدامات ہو رہے تھے کہ جنکی بدولت یہ تصور بہت تیزی سے تقویت پا رہا تھا کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات میں گرمجوشی کا فقدان ہے۔ پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کچھ عرصہ قبل ایران کا سرکاری دورہ کیا اور اس دورے کے حوالے سے بہت اچھا تاثر قائم ہوا ۔ نہ صرف پاکستانی آرمی چیف کی ایران کی سیاسی قیادت سے گفتگو ہوئی بلکہ ایران کی اسٹیبلشمنٹ سے بھی انکا مثبت انداز میں تبادلہ خیال ہوا اور دونوں ممالک میں دوری کے تاثر کو رفع کیا گیا، اس مثبت تاثر کو مزید تقويت وزیر اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ایک معاشی منصوبہ کے مشترکہ افتتاح سے حاصل ہوئی ۔ بین الاقوامی سیاست میں بھی غیر معمولی مثبت اقدامات دیکھنے کو مل رہے تھے۔ عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کو ایران سعودی عرب تناؤ سے بہت نقصان پہنچا ہے۔البتہ جب چین کی ثالثی سے ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال ہوئے تو اس پر پاکستان میں بہت خوشی دیکھی گئی کیونکہ اس سے یہ امکان پیدا ہو گیا کہ پاکستان میں انکی باہمی کشمکش بھی فوری طور پر ختم نہ سہی کم ضرور ہو جائیگی۔تاہم اس سب کے پہلو بہ پہلو ایسے واقعات بھی رونما ہو رہے تھے کہ جنکا تدارک بہتر تعلقات کیلئے از حد ضروری تھا ۔ ایک خبر جو با خبر حلقوں میں بہت گرم رہی وہ یہ تھی کہ یونان میں کچھ پاکستانی گرفتار ہوئے ۔ ان پر الزام یہ تھا کہ وہ وہاں بیٹھ کر ایران کے ایما پر اسرائیل کے حوالے سے سرگرمیوں میں ملوث تھے ۔ اسرائیل کے حوالے سے عوامی جذبات ایک طرف مگر یہ کسی صورت قابل برداشت نہیں کہ پاکستانی دنیا کے کسی بھی گوشے میں بیٹھ کر کسی اور ملک کیلئے کام کریں ۔ اس کے بڑے سنجیدہ نقصانات کا سامنا پاکستان کو عالمی سطح پر دیکھنا پڑ سکتے ہیں پھر یہ بھی خبر گردش کرنے لگی کہ غزہ جنگ کیلئے پاکستان سے افراد جا رہے ہیں اور اسکو پاکستان نے بہت سختی سے روکا ہے کیونکہ پاکستان کسی صورت نہیں چاہتا ہے کہ اس سے متعلق یہ تصور دنیا میں قائم ہو کہ اس کے شہریوں کوکہیں بھی لڑنے کیلئے بھیجا جا سکتا ہے ۔ خیال ہے کہ ان دونوں معاملات پر پاکستان کی جانب سے سخت حکمت عملی نے بھی ایرانی اسٹیبلشمنٹ کو اس انتہائی غیر ذمہ دارانہ اقدام کرنے پر راغب کردیا ،پاکستان اسکے بعد بھی انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتظار کرتا رہا کہ ایران کوئی ایسا بیان جاری کر دے کہ جس میں معذرت کا عنصر نمایاں ہو اور پاکستان بات کو آیا گیا کردے مگر ایسا نہ ہو سکا ۔ پاکستان کسی کارروائی سے اس لئے بھی بچنا چاہتا تھا کہ وہ بغور جائزہ لے رہا ہے کہ انڈیا گزشتہ کچھ سال سے اپنی مشرق وسطیٰ کی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیاں لا رہا ہے، وہ یو اے ای اور سعودی عرب سے قربت بڑھانے کی بہت کوشش کر رہا ہے اسکے ساتھ ساتھ اس نےیمنی حوثیوں کی بحیرہ احمر میں حالیہ کارروائیوں کی آڑ میں اپنے دس بحری جہاز تعینات کر دیے ہیں ۔ پاکستان اپنے لئے کوئی نیا درد سر مول نہیں لینا چاہتا۔ اب اس صورت حال کا تدارک کیسے ہو جو ایران نے پیدا کردی ہے تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان ایران سے اپنے تمام معاملات بشمول بی ایل اے ، بی ایل ایف وغیرہ پر لگی لپٹی بغیر بات کرے اور اگر ایران کو بھی جیش العدل وغیرہ کے حوالے سے کوئی شکایات ہیں تو ان کو رفع کرے ۔

تازہ ترین