• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی تاریخ کے سب سے اہم اور انتہائی حساس انتخابات اب چند دن کی دوری پر ہیں، ملک میں یہ 12ویں انتخابات ہیں، جس کے نتیجے میں عوام کو حق رائے دہی کے تحت اپنے نمائندے اسمبلیوں میں بھیجنے کا موقع ملے گا۔ آٹھ فروری کو پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوگا، جس کے بعد نئی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا قیام عمل میں آئے گا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر سے قومی اسمبلی کی 266نشستیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593حلقے ہوں گے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272تھیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی کل نشستیں 577تھیں۔ خواتین کے لیے مخصوص ساٹھ اور اقلیتوں کی دس مخصوص نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342نشستیں کم ہو کر 336رہ گئی ہیں۔ اس تبدیلی کی ایک اہم وجہ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہے۔ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے اور وفاق میں حکومت بنانے کے لیے 169سیٹیں درکار ہوں گی۔ اس بار الیکشن کمیشن کے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو بلے کا نشان نہیں مل سکا تو اس جماعت کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے یوں پی ٹی آئی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں سے بھی محروم رہے گی جس کے لیے ان کو کسی دوسری جماعت سے الحاق کرنا ہوگا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دس ، دس سال قید بامشقت کی سزا سنا دی، توشہ خانہ کیس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو 14،14 سال قید کی سزا سنادی گئی اور دونوں کو کسی بھی عوامی عہدے کیلئے 10سال کیلئے نااہل قرار دے دیا۔ یہ سب کچھ مکافات عمل کا حصہ ہے جو کچھ اپنے مخالفین کے ساتھ عمران خان نے کیا آج اسی سے وہ اور ان کی جماعت گزر رہی ہے،2018ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں تحریک انصاف نے مجموعی طور پر سب سے زیادہ ووٹ ایک کروڑ 68 لاکھ 58 ہزار نو سو تھی۔دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ نواز نے ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ چھیانوے ہزار تین سو چھپن ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ پیپلز پارٹی 69 لاکھ آٹھ سو پندرہ ووٹ کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھی۔ آزاد امیدواران نے ساٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے ۔ہمارے کل رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 18 سے 35 سال کے 44 فیصد ووٹرز ہیں، جنہیں ہم نوجوان ووٹرز کہہ سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ نوجوان ووٹرز اپنے حق رائے دہی کو استعمال نہیں کرتے اور اگر ہم گزشتہ آٹھ انتخابات میں جنرل ووٹرز ٹرن آؤٹ نکالیں تو وہ تقریباً 45 فیصد ہے۔

نوجوان کم ووٹ ڈالتے ہیں اور اگر یہ سب ووٹ ڈالیں یا زیادہ نوجوان ووٹ ڈالیں تو ان ووٹرز کی اہمیت بڑھ جائے گی۔اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ نوجوان کسی بھی ملک میں ترقی کا اہم ستون ہوتے ہیں،اس لئے انہیں اگلے انتخابات میں اپنی ذمے داریوں اور ملک کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے زیادہ تعداد میں اپنے حق رائے دہی کو استعمال کرنا ہوگا،جہاں تک ووٹ کا معاملہ ہے، اس کا استعمال ہمیشہ ہی درست طور پر کرنا چاہیے ، 2024 کے انتخاب میں تو یہ خاص طور پر ضروری ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان جن چیلنجوں سے دوچار ہے، ان سے درست طور پر نمٹنے کے لیے معمولی غلطی کی گنجائش بھی نہیں ،قومی معیشت تباہ حالی کا شکار ہے، مہنگائی اور گرانی نے کمر توڑ دی ہے،بے روزگاری عروج پر ہے، امن کی صورت حال بھی اچھی نہیں،بھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں، توانائی اور گیس کے بحران نے ملک کا حلیہ خراب کردیا ہے،جس سے نکلنے کے لئے آنے والی حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا ہوگا، ان کے ہاتھ میں جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ اسےگھماتے ہی تمام مسائل یکدم ختم ہوجائیں گے، 2018میں پی ٹی آئی حکومت نے جس طرح معاشی طور پر ملک کو تباہی پر پہنچایا، اس سے پی ڈی ایم حکومت نےمشکل ترین حالات میں ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا اس کے باوجود مہنگائی،گرانی اور بے روزگاری کے الزامات پی ڈی ایم کی حکومت پر لگانا حیرت انگیز بات ہے۔ ایسے الزامات لگانے والوں میں اب وہ لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں جنھوں نے اس حکومت میں بڑے بڑے مناصب حاصل کیے اور مراعات سے لطف اندوز ہوئے لیکن جو اصل حقیقت ہے، اس پر بات کرنے سے لوگ کترا رہے ہیں۔عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق پاکستان کو اس وقت جو اقتصادی چیلنج درپیش ہیں ان میں سب سے اہم ہر سطح پر درست پالیسیوں کی تشکیل اور ان کا بروقت نفاذ ہے۔ ایسا نہیں کیا گیا توآنے والے برسوں میںمالی توازن اور ادائیگیوں کا نظام بگڑ جائے گا اور پاکستان مزید اقتصادی مسائل سے دوچار ہو جائے گا۔ مسلم لیگ ن نے 2018 میں جب حکومت چھوڑی، پاکستان کی شرح نمو اس وقت چھ ا عشاریہ ایک تھی ،آنے والے حکمرانوں نے بروقت فیصلوں میں دیر کر دی۔ جس سے پاکستان مشکلات سے دوچار ہوگیا۔عمران خان حکومت پی ڈی ایم حکومت کے ہاتھ باندھ کر گئی تھی،اس وقت ملک جن معاشی حالات سے دوچار ہے، اس کی سالمیت اور بقاکے لئے اگلے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو مینڈیٹ ملتا ہے تو میاں نواز شریف بطور وزیراعظم زیادہ اعتماد اور حوصلے کے ساتھ اور اقتصادی امور نمٹانے کے لئے اپنے تجربے سے عالمی اداروں کے ساتھ معاملات طے کرسکتے ہیں، ن لیگ کو پیوند کاری حکومت کے بجائے سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت ملنی چاہئے، یہ بات طے ہے کہ پاکستان کی مجبوری ہے،ن لیگ ضروری ہے،ووٹرز کو ملک کی خاطر اس سوچ کے ساتھ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا ہوگا، اسی میں ہماری اور ملک کی بقا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین