• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر شرعی نکاح کیس میں دورانِ سماعت بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا اور موجودہ شوہر بانی پی ٹی آئی آپس میں لڑ پڑے ،پچھلے بینچ پر بیٹھی بشریٰ بی بی بھی لڑائی میں کود پڑیں ۔ سابق شوہر خاور مانیکا نے انکےموجودہ شوہر پر الزامات کی بھرمار کرتے ہوئے کہا کہ اس نے میرا ہنستا بستا گھر تباہ کردیا بشریٰ بی بی کی بے وفائی سے میری ایک بیٹی کو طلاق ہوگئی ایک بیٹا ذہنی دباؤ کا شکار ہوکر ری ہیبلی ٹیشن سنٹر میں زیرِ علاج ہے، دونوں کے درمیان تعلقات 2014ء کے دھرنے سے شروع ہوئے یہ سب سے پہلے بطور مرید دم کروانے ہمارے گھر آیا تھا۔ خاور مانیکا نے اپنی سابق بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بچے سوال کرتے تھک گئے ہیں مگر تم نے جواب نہیں دیا چھوٹی بیٹی رات کو اُٹھ اُٹھ کر روتی ہے تم لوگوں نے میرا گھر اور میرے بچے برباد کردیے۔ بانی پی ٹی آئی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں یہ سب چھ سال بعد کیوں یاد آیا ہے؟ عدالت قرآن منگوائے ہاتھ رکھ کر حلف دیں گے خاور مانیکا بھی ہاتھ رکھے میں نے تو بشریٰ کو نکاح کے دن دیکھا ،اس پر خاور مانیکا نے کہا تم جھوٹ بول رہے ہو خدا سے ڈرو تم نے میرا گھر برباد کردیا ، میں قرآن پر حلف اُٹھانے کو تیار ہوں اس پر جج نے کہا کہ اگر یہ قرآن پر حلف دیتا ہے تو آپ لوگوں کا حقِ جرح ختم ہوجائے گا اس پر سابق کھلاڑی نے کہا کہ نہیں جرح ضروری ہے۔عدالتی کارروائی کے حوالے سے متذکرہ بالا تمام باتیں ہمارے قومی میڈیا میں صراحت کے ساتھ چھپ رہی ہیں کوئی امر مخفی نہیں رہا۔ ۔ اس سب کا کیا نتیجہ نکلے گا اور کس کو کیا سزا ہوسکتی ہےاس پر آنے سے پہلے یہ درویش دورانِ عدت نکاح کے قانونی پہلو کی وضاحت چاہتا ہے کیونکہ ہمارے میڈیا میں پیہم جس نوع کی بحثیں ہورہی ہیں خیال تھا کہ ہمارے روایتی مذہبی حلقوں کی طرف سے ضرور سوالات اٹھائے جائیں گے مگر کوئی بحث نہیں ہوئی درویش ملکی عائلی قوانین یا فیملی لاز پر نہ صرف باریک نظر رکھتا ہے بلکہ طویل برسوں تک سینکڑوں یونین کونسلز میں بحیثیت چیئرمین مصالحتی کونسل ان گنت مقدمات کو سنتا اور ان پر فیصلے صادر کرتا رہا ہے اور یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے ملکی قانون میں عائلی ضوابط کے مطابق طلاق کا ایک طریقِ کار طے کردیا گیا ۔اگرچہ ہمارے علماء میں اس حوالے سے فقہی اختلافات بہت زیادہ ہیں اور وہ 1961ء میں نافذالعمل ہونے والے فیملی لاز پر شدید تحفظات رکھتے ہیں لیکن ہمارے قوانین میں ان اعتراضات یا تحفظات کی کوئی اہمیت اس وجہ سے نہیں کہ ہمارا عائلی سسٹم رائج الوقت فیملی لاز کا پابند ہے جسکے مطابق کوئی بھی شخص جب اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے، چاہے وہ ایک ایک طہر میں ایک ایک کرکے دے یا تینوں طلاقیں یکبارگی دے جنہیں طلاق مغلظہ قرار دیا جاتا ہے اور فقہ حنفی کی رو سے وہ نافذ العمل ہیں ہمارے عائلی قوانین ہر دو طریقوں کے باوجود کسی بھی طلاق کو فوری طور پر نافذ العمل تسلیم نہیں کرتے، اس کیلئے تین طہر کی قرآنی ہدایت کے مطابق تین ماہ کی شرط رکھ دی گئی ہے یعنی کوئی بھی طلاق چاہے یکبارگی تینوں کی صورت ہی کیوں نہ ہو ان کا نفاذ بہرصورت نوےدن پورے ہونے کے بعد ہی ہوسکتا ہے اس دوران چاہے ایک دن قبل 89 ویں دن ہی صلح ہوجائے تو طلاق کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اسی مقصد کے تحت عائلی قوانین میں مصالحتی کونسل تشکیل دی گئی جس میں عورت کا ولی اور مرد کا نمائندہ بھی شامل ہوتا ہے اور مصالحتی کونسل کا چیئرمین فریقین کو پوری طرح سننے کے بعد صلح صفائی کروانے اور فریقین کی مرضی سے طلاق کو ختم کرنے کا استحقاق رکھتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں نوے روز سے پہلے طلاق کو طلاق نہیں سمجھا جاسکتا اور درویش اس حوالے سے قرآن، سنہ اور تمام فقہی سکولز آف تھاٹ کے اختلافی نقطۂ ہائےنظر پر تفصیلی بحث کرسکتا ہے جسکی اس کالم میں گنجائش نہیں۔ ‎حاصلِ بحث یہ ہے کہ خاور مانیکا نے اپنی بیوی بشریٰ بی بی کو طلاق 14نومبر کے روز دی تھی طلاق نامے پر یہ تاریخ ثبت ہے یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ اس کا اندراج یونین کونسل میں کس تاریخ کو ہوا؟ اگر اسی تاریخ کو ہوا تب بھی اس کے مؤثر ہونے کی تاریخ 14فروری سے قبل ممکن نہیں ، اس دوران ہمارا قانون مرد کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے اور بیوی کو قطعی یہ حق نہیں کہ وہ طلاق مؤثر ہونے یا اس کا سرٹیفکیٹ حاصل کیے بغیر دوسرے مرد سے شادی کرلے اگر وہ ایسا کرے گی تو ہمارے عائلی قوانین کے مطابق نکاح کے اوپر نکاح یا ناجائز تعلق کی مرتکب گردانی جائے گی۔ رہ گیا عدت کا سوال وہ ایک قطعی مختلف اور الگ بحث ہےاور اس کی مدت کا فقہی تعین بھی الگ سے ہے جس کی قانونی بحث یہاں سرے سے ہونی ہی نہیں چاہیے تھی۔نیز یہ بحث شرعی تقاضوں کے حوالوں سے نہیں ملکی قوانین کے حوالے سے ہونی چاہیے جن کی رو سے یہ امر واضح ہے کہ یہ نکاح جو یکم جنوری کو کیا گیا اس کی گنجائش 14فروری سے قبل نہ تھی۔ ‎ویسے دیکھاجائے تو سابق کھلاڑی اور بشریٰ بی بی کو جتنی سزائیں سنائی جاچکی ہیں وہ بھی کم نہیں ہیں اس نوع کے مزید کیسز اٹھائے گئے تو بات سیتاوائٹ سے ہوتے ہوئے ٹیریان تک بھی جاسکتی ہے لہٰذا پرہیز ہی بہتر ہے۔

تازہ ترین